بابِ پاکستان: ایک خواب ادھورا رہ گیا! 

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 15 نومبر 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ٹھیک ایک سال پہلے امجد مختار اُمنگوں بھری زندگی اور ادھورے خوابوں کے ساتھ اپنے اللہ کے پاس پہنچ گئے۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے آخری خواب میں اپنی مرضی کے رنگ بھرنا چاہتے تھے ۔زندگی نے مگر مہلت ہی نہ دی۔ ہاتھ میں برش تھامے وہ اپنی خوابناک تصویر کو کسی بھی لمحے مکمل کر سکتے تھے لیکن وہ لمحہ آیا ہی نہیں۔

موت نے انھیں تاڑ لیا تھا اور وہ دبوچ لیے گئے۔ وہ ساری عمر خواب دیکھتے رہے، جیسا کہ ایک مصور اور آرکیٹیکٹ کو دیکھتے رہنا چاہیے۔ لیکن اُن کے خواب اُن کی زندگی سے کہیں آگے تھے۔ شائد اس لیے بھی کبھی کبھار اُن پر جھنجھلاہٹ اور ڈپریشن طاری ہو جاتا تھا۔ اب وہ جہاں پہنچ چکے ہیں، وہاں نہ خواب ہیں، نہ جھنجلاہٹ اور نہ ہی ڈپریشن۔ اُن کے سبھی جاننے والوں اور دوستوں کو یقین ہے کہ اُن کی بے چَین رُوح اب کامل سکینت میں ہو گی۔ ہمارے دوست امجد مختارچوہان کو اپنے جذبات پر اختیار نہیں تھا۔ یاد آفرینی کی ایک شاندار تقریب میںاُن کی سابقہ نصف بہتر نے سامعین کو کئی پرانی اور یاد رہ جانے والی باتوں میں شریک کیا۔

وہ سراپا آرٹسٹ تھے۔این سی اے لاہور کے باقاعدہ فارغ التحصیل آرٹسٹ۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ فن اور فنکاروں کی پرورش و پرداخت کرنے والے ہمارے اس بلند قامت ادارے، جس کی بنیاد فنونِ لطیفہ کے دلدادہ ایک انگریز نے رکھی، کا ایک خاص ماحول ہے۔ سرخ سنگ و خشت سے استوار اس ادارے میں خواب دیکھنے اور خواب دکھانے والے طلبا اور طالبات داخل ہوتے ہیں۔ یہی طلبا ہماری آرٹ اور کلچر کی دنیاؤں کو بناتے، سجاتے اور سنوارتے ہیں۔

امجد مختار اس ادارے کے ایک سچے اور لگن دار طالبعلم تھے۔ ہاتھ میں لَیڈ پنسل اوررنگ بھرے برش تھامے ایک ایسا طالبعلم جس نے اسلام، پاکستان اور نظریہ پاکستان کی سر بلندی کے آرٹسٹک خواب دیکھے۔ بابِ پاکستان اُن کے سب خوابوں میں بلند، مرکزی اور محوری مقام رکھتا تھا۔ وہ تاریخِ پاکستان اور تشکیلِ پاکستان کے اس اوّلین نقش کو منقش کرکے دوام دینا چاہتا تھا۔ یہ اُس کی زندگی کا آخری باب بھی تھا اور خواب بھی۔ وہ چاہتا تھا کہ والٹن ( لاہور)کے اس تاریخی میدان کو ہمیشگی عطا ہو جائے جہاں سات عشرے قبل اُن لاکھوں لُٹے پِٹے انسانوں نے اپنا پہلا پڑاؤ ڈالا تھا جو منقسم ہندوستان کے بعد نَومولود ارضِ پاک میں داخل ہُوئے تھے۔

اس میدان میں اُن کے خوابوں کا پہلا باب لکھا گیا تھا۔ وہ تہی دست اور تہی دامن تھے لیکن وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے آدرشوں کی حامل سرزمین، پاکستان، کو انھی خالی ہاتھوں کے ساتھ بنانے سنوارنے کا عزم لے کر آئے تھے۔ والٹن کے اس وسیع و عریض میدان میں اُن لاکھوں مہاجروں کے خیمے لگے تھے جنھوں نے مستقبل میں ارضِ پاک کی تعمیر کرنا تھی۔ اس میدان میں پڑاؤ ڈالے ہر مرد و زَن کی اپنی اپنی خونچکاں داستان تھی۔ ایسی ایسی داستانیں جو نہ سُنی جا سکتی تھیں اور نہ کہی جا سکتی تھیں۔

سعادت حسن منٹو کا ایک متنازع اور معرکہ خیز افسانہ بھی والٹن کے اسی میدان میں خیمہ زَن افراد کی ذہنی اور نفسی کیفیات کے پس منظر میں لکھا گیا۔ قدرت اللہ شہاب کا ناقابلِ فراموش ناولٹ ’’یا خدا‘‘ کا پلاٹ بھی اِسی تاریخی میدان میں پڑاؤ ڈالنے والوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ ہمارے پیارے اور منفرد اداؤں والے آرکیٹیکٹ ، امجد مختار، اِسی میدان میں ’’بابِ پاکستان‘‘ تعمیر کرکے دراصل اُن خوابوں کی تعبیر چاہتے تھے جو سات دہائیاں قبل لاکھوں انسانوں نے کھلی اور بند آنکھوں سے دیکھے تھے۔ یوں ’’بابِ پاکستان‘‘ کو درا صل خوابِ پاکستان کے عنوان سے بھی یاد کیا اور پکارا جا سکتا ہے۔

امجد مختار مگر کوئی ٹھیکیدار قسم کے انسان نہیں تھے ۔ وہ تو ایک خواب کو متشکل کرنے کے خواہاں تھے، اپنے فن پر عبور رکھنے والے ایک کنسلٹنٹ کی حیثیت میں۔ وہ اپنے فن کی نمود چاہتے تھے۔ بیوروکریسی، سیاستدانوں اور حکمرانوں کی طرف سے مگر جو مرئی اور غیر مرئی رکاوٹیں مسلسل ڈالی جاتی رہیں، اُنکے کارن موت تک امجد مختار کا یہ خواب پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ ہم اُس شخص کے بارے میں محض اندازے اور قیافے ہی لگا سکتے ہیں جو اپنے خوابوں کا آخری باب لکھے بغیر ہی اِس دُنیا سے اُس دُنیا میں چلا جائے۔ یہ بات دل کو افسردہ اور پژمردہ کرتی ہے۔

ہماری کلاسیکی صحافت کی آبرو، مولانا ظفر علی خان مرحوم، سے منسوب ادارے ’’ظفر علی خان ٹرسٹ‘‘ میں امجد مختار مرحوم کو یاد کرنے والے بہت سے دوست یکجا ہو گئے تھے۔ امجد مختار کے اہلِ خانہ بھی تھے، دوست بھی ، سابقہ طالب علم ساتھی رہنما بھی، کئی اخبار نویس بھی ۔ وہ تحریکی ساتھی بھی وہاں آئے تھے جنھوں نے اسلامی جمعیت طلبا کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر پاکستان کی نظریاتی زندگی کے کئی خواب دیکھے تھے۔ وہاں جناب مجیب الرحمن شامی بھی تھے، وزیر ہاؤسنگ میاں محمود الرشید صاحب بھی، اعجاز چوہدری صاحب بھی، نستعلیق آرٹسٹ فاروق بھٹی صاحب، رخصت ہونے والے کی دونوں صاحبزادیاں بھی۔

سب نے اپنے اپنے اسلوب میں انھیں یاد کیا۔ پی ٹی آئی کے رہنمااعجاز چوہدری تو مرحوم کو یاد کرتے ہُوئے آبدیدہ ہو گئے ۔ اُن کی لخت لخت آواز نے سب سامعین کے دل ملول کر دیے۔ میاں محمود الرشید نے اپنے مرحوم آرٹسٹ دوست کو یاد کرتے ہُوئے وہ قصے بھی سنا دیے جن میں محوری نقطہ ’’بابِ پاکستان‘‘ کو حاصل تھا۔ گزشتہ حکومت کے دوران محمود الرشید نے صوبائی اسمبلی اور عدالتوں کے پلیٹ فارموں سے ’’بابِ پاکستان‘‘ کو مکمل کرنے کی کوششوں اور مہمات کا ذکر کیا۔ رکاوٹیں مگر دُور نہ ہو سکیں۔ اور اب تو میاںمحمودالرشید خود ہی وزیر ہاؤسنگ بن گئے تھے۔

اب امجد مختار کے خواب پورے ہونے کے دن قریب آ گئے تھے۔ رکاوٹیں اور دلدّر دُور ہونے کی آس بندھی تھی کہ امجد مختار کا سفینہ حیات ہی کنارے لگ گیا۔ اللہ کے اپنے منصوبے ہیں۔ اِسی لیے تقریب کے ایک محترم مقرر نے مرحوم کا تذکرہ کرتے ہُوئے مشہور دانشوربزرگ واصف علی واصف کا ایک جملہ دہرایا تو آنکھیں بھر آئیں: تقدیر دراصل انسان کی مرضی پر اللہ کی مرضی کے غالب آنے کا نام ہے۔

کچھ دن راقم کو بھی امجد مختار کی معیت میں گزارنے کا موقع ملا۔ دن میں کئی کئی گھنٹے ایک ساتھ بیٹھ کر اخبار کے سنڈے میگزین کی ڈیزائننگ کو نئے نئے اسٹائل دینے اور دلکش بنانے کی باتیں ہوتیں۔ اخباری دُنیا کے وہ آدمی نہیں تھے لیکن اُن کے باطن کا آرٹسٹ انھیں منفرد اور ممتاز بنانے پر اکساتا رہتا تھا۔ حیرت خیز بات یہ ہے کہ انھوں نے لاہورکے ایک ایسے تعلیمی ادارے میں اسلامی جمعیت کی بنیادیں رکھیں جہاں اس مذہبی طلبا تنظیم کی جڑیں لگنے کی کبھی امید نہیں کی گئی تھی۔

امجد مختار نے مگر یہ کام بھی کردکھایا اور اسی تعلیمی ادارے کے پہلے ناظمِ جمعیت بھی منتخب ہُوئے۔ اُن کی شکل و صورت دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ کبھی یہ ایک مذہبی طلبا تنظیم کے لیڈر بھی رہے ہوں گے۔ اُن کے بڑے بھائی ، پرویز مختار صاحب ، نے سامعین کو بتایا کہ امجد مختار نے کیسے سیکولرازم خیالات سے مذہبی رجحانات کی جانب رُخ موڑا۔ اس رجحان نے پھر تصوف کی دُنیا کا رُخ اختیار کر لیا تھا اور پھر وہ رفتہ رفتہ ایک صوفی سلسلے (الشاذلیہ)کا ایک فرد بن گئے۔

روم کے مشہور صوفی مارٹن لنگز (ابوبکر سراج الدین) نے اس صوفی سلسلے کی بنیاد رکھی تھی۔ پاکستان میں مشہور فلسفی اور دانشور مولانا جعفر قاسمی مرحوم بھی اسی سلسلے کی ایک معروف شخصیت تھے جو اب چنیوٹ میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کئی سال قبل امجد مختار کواِس سلسلے کی جانب متوجہ کرنے والے معروف دانشور اور شعلہ مستعجل سراج منیر مرحوم تھے جو اللہ تعالیٰ سے بہت ہی مختصر وقت لے کر آئے تھے۔

شائد یہ اِسی صوفی سلسلے کا اثر تھا کہ امجد مختار کو پیسے کمانے کی ہوس نہیں تھی۔ اُن کی قناعت پسندی نے انھیں مالی مسائل سے بھی دوچار کیا لیکن وہ اپنے صوفیانہ مزاج سے دستکش نہ ہُوئے۔ آخری ایام میں اُن کا خواب بس ایک ہی رہ گیا تھا ۔ یہی کہ کسی طرح ’’بابِ پاکستان‘‘ کامل تعمیری شکل میں دیکھ سکیں۔ یہ خواب پورا ہونے سے قبل ہی اُن کی زندگی کا آخری باب بند ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے ۔ عجب آزاد مرد تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔