مہنگائی کا توڑ، ماہی گیروں نے شکار کیلیے انوکھی بوٹ ایجاد کرلی

شاکر سلطان  جمعـء 15 نومبر 2019
کشتی کو ڈونگی کا نام دیا گیا، مچھیرے ان کشتیوں سے ہزار روپے تک کی مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

کشتی کو ڈونگی کا نام دیا گیا، مچھیرے ان کشتیوں سے ہزار روپے تک کی مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے متاثر کراچی کے جزیروں میں بسنے والے غریب ماہی گیروں نے اپنے مسئلے کا حل تلاش کرلیا اور مچھلی کے شکار کیلیے انوکھی فشنگ بوٹ ایجاد کرلی۔

پانی کی ناکارہ پلاسٹک کی ٹنکیوں کو کارآمد بناکر تیار کی جانے والی ان کشتیوں کا وزن صرف چند کلوگرام ہے، ان کشتیوں کی تیاری میں کسی قسم کی لاگت بھی نہیں آتی، نہ ہی چپو خریدنے کی پریشانی ہوتی ہے بلکہ ان کشتیوں کو گھر میں ہی آسانی سے صرف2 گھنٹے کی محنت سے تیار کرلیا جاتاہے۔

کراچی کے گہرے سمندر میں کئی کئی ناٹیکل میل کے فاصلے تک ان بوٹس کی آمدورفت کیلیے ہتھیلیوں کو چپوؤں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اس ترقی یافتہ دور میں جبکہ دنیا بھر کے ماہی گیر مچھلی کے شکار کیلیے نت نئے اور جدید فشنگ ٹرالر اور موٹر بوٹس سے استفادہ کررہے ہیں وہیں مہنگائی کی چکی میں پسے کراچی کے جزیروں کے غریب ماہی گیر جوکہ ملک میں بڑھتی ہوئی حالیہ مہنگائی اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے باعث مہنگا ڈیزل خرید کر موٹربوٹس کے ذریعے ماہی گیری کی سکت نہیں رکھتے۔

انھوں نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بے روزگار ہونے کے بجائے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے پلاسٹک کی کشتیوں کا سہارا لے لیا، کراچی کے تین جزیروں بابا بھٹ، بھٹ اور صالح آباد کی مجموعی آبادی 40 ہزار سے زائد ہے اور یہاں کے لوگوں کا واحد ذریعہ معاش ماہی گیری ہے جوکہ انھیں ورثے میں ملا ہے۔

ٹھاٹھیں مارتا سمندر یا بپھری ہوئی موجیں ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی یہاں کے مچھیرے سمندر میں کسی بھی ناگہانی صورتحال سے خوفزدہ ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سمندر میں پلاسٹک کی ان نازک کشتیوں کے ذریعے مچھیلیاں پکڑنا ان کیلیے کوئی بڑا ٹاسک نہیں، اگر کوئی بڑی لہر ٹکرانے سے ان کی لانچیں پلٹ کر بھی ڈوب جائیں تو مچھیرے ان ہلکی پھلکی لانچوں کو پھر سے سیدھا کرکے اس پر دوبارہ سوار ہو جاتے ہیں اور پھر سے مچھلیاں پکڑنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

مقامی طور پر پلاسٹک کی ان کشتیوں کو ڈونگی کا نام دیا گیا ہے، تینوں جزیروں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں غریب ماہی گیر مچھلیوں کے شکار کیلیے ان ہی ڈونگیوں کا استعمال کرتے ہیں اور گہرے سمندر میں روزانہ 500 سے ایک ہزار روپے تک کی مچھلیاں پکڑ کر اپنے گھر والوں کی کفالت کرتے ہیں۔

جزیرہ بھٹ کے رہائشی25سالہ احمد کا شمار بھی ان غریب ماہی گیروں میں ہوتا ہے جو مہنگائی کے باعث فشنت ٹرالر یا انجن بوٹ کے بجائے ڈونگی کے ذریعے مچھلیاں پکڑنے پر مجبور ہیں، والد کے انتقال کے بعد احمد گھر کا واحد کفیل ہے اور بوڑھی والدہ اور بھائی بہنوں کی کفالت کی زمے داری بھی احمد پر عائد ہوتی ہے، صبح ھوتے ہی گہرے سمندر میں ماہی گیری کیلیے روانہ ہونا احمد کا روز کا معمول ہے ۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔