محکمہ فائر بریگیڈ کے 37 فائرٹینڈرز اور 4 اسنارکل خراب

سید اشرف علی  جمعـء 15 نومبر 2019
محکمہ فائر بریگیڈ میں نہ صرف فائر ٹینڈرز اور دیگر بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے بلکہ فائر فائٹرزکی تعداد بھی انتہائی کم ہے، رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

محکمہ فائر بریگیڈ میں نہ صرف فائر ٹینڈرز اور دیگر بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے بلکہ فائر فائٹرزکی تعداد بھی انتہائی کم ہے، رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: وفاقی وصوبائی حکومتوں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کی عدم دلچسپی کے باعث سالوں سے تباہی کاشکارمحکمہ فائربریگیڈ اب مزید زوال کاشکارہوگیاہے۔

2کروڑ سے زائد آبادی والے شہرمیں صرف 13 فائرٹینڈرزاور 2اسنارکل صحیح ہیں اور 13 فائر اسٹیشن ورکنگ کنڈیشن (فعال) میں ہیں جبکہ 37 فائر ٹینڈرز اور 4 اسنارکل خراب ہیں اور10 فائر اسٹیشن بند پڑے ہیں،پانی فراہم کرنے کے لیے 4 باؤذر اور ایک ریڈیو کنٹرول موبائل یونٹ کئی سال سے خراب ہیں۔

انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق ایک لاکھ کی آبادی پر ایک فائر اسٹیشن ، 4 فائر ٹینڈرز موجود ہونا چاہیے، آپریشنل عملہ جن میں 16فائر فائٹرز، 8 ڈرائیورز، 4 لیڈنگ فائر مین ، 2 سب فائر آفیسر اور ایک اسٹیشن آفیسر ہونا چاہیے، انتظامی عملہ ٹیلی فون آپریٹرز، کلرک ، چپڑاسی، اسٹور کیپر اور سوئپر وغیرہ کو شامل کرکے تقریباً 20کا عملہ ہونا چاہیے، ایک فائر اسٹیشن پر انتظامی اورآپریشنل 50 اہلکار ضروری ہیں جو شفٹوں میں کام کر سکیں۔

ماہرین کے مطابق کراچی کی آبادی کے لحاظ سے یہاں تقریباً 200 فائر اسٹیشن اور 10ہزار فائر فائٹرز بمعہ دیگر عملہ ہونا چاہیے، شہر میں قائم بلند عمارتیں، انڈسٹریل زونز، تجارتی و کمرشل اور رہائشی علاقوں کے پیش نظر ہر ڈسٹرکٹ میں کم ازکم 2اسنارکل کی موجودگی ناگزیر ہے جبکہ فائر اسٹیشنوں میں پانی کی وافر مقدار ، اوورہیڈ اور انڈر گراؤنڈ ٹینک اور دیگر سہولتوں فراہم ہونی چاہیے۔

آبادی کے لحاظ سے دنیاکے بڑے شہروں میں شمار ہونا والے شہر کراچی میں نہ صرف پانی و سیوریج ، بجلی ، پبلک ٹرانسپورٹ اور صحت صفائی سمیت دیگر بنیادی سہولتوں کا شدید فقدان ہے بلکہ محکمہ فائر بریگیڈ بھی انتہائی ابتر حالت میںہے، محکمہ فائر بریگیڈ میں نہ صرف فائر ٹینڈرز اور دیگر بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے بلکہ فائر فائٹرزکی تعداد بھی انتہائی کم ہے۔

شہر میں 2پورٹس، 7انڈسٹریل زونز ، تجارتی و کمرشل یونٹس اورگنجان رہائشی علاقے قائم ہیں، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور دیگر اداروں کی غلط منصوبہ بندی اور غفلت کے باعث شہر میں بلند عمارتوںکاکنکریٹ جنگل قائم ہوچکاہے، بیشتر عمارتوں میں نہ تو متبادل راستے ہیں اور نہ ہی فائر سیفٹی کوڈ پر عملدرآمد کیا گیا ہے، اس صورتحال کے پیش نظر شہر کراچی میں کوئی بھی قدرتی ، غیرقدرتی حادثہ یا بڑی آتشزدگی کے موقع پر ریسکیو سروس فراہم کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔

ہرسال آتشزدگی کے ساڑھے 4 ہزار واقعات رونما ہوتے ہیں

اسٹیشن آفیسر مظہر رفیق کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہرسال تقریباً ساڑھے 4ہزارآگ لگنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں آتشزدگی کے بڑے واقعات 15 سے 20 ہیں ، سردیوں میں موسم خشک ہونے کی وجہ سے آگ لگنے کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔

اب تک ریکارڈ کے مطابق آگ لگنے کے زیادہ واقعات بجلی کی شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوئے ہیں اس کے علاوہ انسانی غلطی و غفلت کے باعث بھی آتشزدگی کے واقعات رونما ہوئے ہیں، انھوں نے کہا کہ شہر میں آگ لگنے کے زیادہ واقعات انڈسٹریل زونز اور کمرشل زونز میں رونما ہوتے ہیں اس کے بعد رہائشی علاقوں میں بلند عمارتوں اولڈ سٹی ایریا اور عام گھروں میں بھی آگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔

11 فائر اسٹیشنوں میں پانی کے اوور ہیڈ اور انڈر گراؤنڈ ٹینک نہیں

ایکسپریس سروے کے مطابق محکمہ فائر بریگیڈ کے پاس مجموعی طور پر 50فائر ٹینڈرز ہیں جن میں سے صرف 13 گاڑیاں صحیح ہیں جبکہ 37گاڑیاں کئی عرصے سے خراب پڑی ہیں، مجموعی طور پر 5اسنارکل ہیں جن میں 2صحیح ہیں اور 3خراب پڑی ہیں، 23 فائر اسٹیشن ہیں جن میں سے صرف 13 آپریشنل ہیں جبکہ 10بند پڑے ہیں، فائر ٹینڈرزکی قلت کی وجہ سے یہ فائر ٹینڈرز بند کردیے گئے ہیں جوفائر اسٹیشن آپریشنل ہیں ان میں بھی صرف ایک فائر ٹینڈر کھڑی ہوئی ہے اور تقریباً تمام فائر اسٹیشنز فائر فائٹنگ کی ضروری سہولیات سے محروم ہیں ، بیشتر فائر اسٹیشن اوور ہیڈ اور انڈر گراؤنڈ پانی کے ٹینک سے محروم ہیں۔

فائر بریگیڈ کے پاس نہ تو فراہمی آب کا کوئی اپنا جامع نظام ہے اور نہ ہی شہر کے انڈسٹریل ، رہائشی یا تجارتی علاقوں میں ایساکوئی نظام وضع کیا گیا ہے کہ جس میں فوری طور پر پانی کی فراہمی ممکن بناکر کم سے کم وقت میں آگ پر قابو پایا جاسکے، جن فائر اسٹیشنوں میں واٹر بورڈ نے پانی کا کنکشن دیا ہوا ہے وہاں پانی کی فراہمی 24 گھنٹے نہیں ہوتی بلکہ شیڈول کے مطابق 2سے 6گھنٹے پانی فراہم ہوتا ہے، آگ لگنے کے واقعات میں ایمرجنسی بنیادوں پر واٹر بورڈ کے ہائیڈرنٹس سے پانی کی فراہمی کی جاتی ہے یا پھر واٹر بورڈ کے پانی کے ٹینکرز موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔

محکمہ فائر بریگیڈ کے فائر اسٹیشنوں کی موجودہ صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ جن اسٹیشنوں میں انڈر گراؤنڈ اور اوورہیڈ ٹینک موجود ہیں ان میں فائر بریگیڈ کے مرکزی دفتر ( ہیڈکوارٹر ) رنچھوڑ لائن ، لانڈھی، سہراب گوٹھ، اورنگی اور منظور کالونی، بلدیہ ٹاؤن اور سائٹ فائر اسٹیشن شامل ہیں، بلدیہ ٹاؤن اور سائٹ فائر اسٹیشن میں اوورہیڈ ٹینک رساؤ کی وجہ سے ناکارہ ہوگئے ہیں، 11 فائر اسٹیشنوں میں پانی کے اوورہیڈ ٹینک اور انڈر گراؤنڈ ٹینک موجود نہیں ہیں ان میں ٍ بولٹن مارکیٹ، ٹرک اڈہ ماڑی پور، ملیر، شاہ فیصل کالونی، سوک سینٹر، گلشن اقبال نزد عزیز بھٹی پارک ، گلستان جوہر، ، کیٹل کالونی ، معمار ون ، معمار ٹو اور سپرہائی وے شامل ہیں۔

حکومت نے80 فائرٹینڈرزکاوعدہ کیا، 3فائر ٹینڈر اور ایک اسنارملی

سندھ حکومت نے 5سال قبل80 فائر ٹینڈرز کا وعدہ کیا تھا لیکن اب تک صرف 3فائر ٹینڈر اور ایک اسنارکل دی ہے جبکہ وفاقی حکومت نے ڈھائی سال قبل 50 فائر ٹینڈرز اور 4 اسنارکل کا وعدہ کیا تھا لیکن اب تک ایک فائر ٹینڈر بھی نہیں دیا ہے۔

فائرٹینڈرز 25سے 30سال پرانے ہیں،چیف فائر آفیسر

چیف فائر آفیسر تحسین صدیقی نے بتایا کہ فائر ٹینڈرز 25سے 30سال پرانے ہیں اس لیے ان تمام گاڑیوں میں روزانہ کی بنیاد پر مرمت کا کام نکلتا رہتا ہے، گزشتہ 5سال سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے، ہر سال فائر ٹینڈرز کی مرمت کیلیے 5کروڑ روپے مختص کیے جاتے ہیں مگرجاری صرف 3کروڑ ہی ہوتے ہیں۔

گاڑیوں کی چھوٹی خرابیاں ورکشاپ میں ہی دورکردی جاتی ہیں،افسران

فائر بریگیڈ کے متعلقہ افسران نے ایکسپریس کو بتایا کہ فائر بریگیڈ کے 3ورکشاپ ہیں جو ہیڈ کوارٹر ، لانڈھی اور سہراب گوٹھ فائر اسٹیشن پر قائم ہیں تاہم جدید استعداد نہ ہونے کی وجہ سے 10سال سے ان ورکشاپس میں فائر ٹینڈرز صحیح نہیں ہورہے ہیں۔

ایک سب انجینئر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ 10سال قبل تمام فائر ٹینڈرز انہی ورکشاپس میں مرمت کیے جاتے تھے، 2009 سابقہ شہری حکومت defunct city government کے دور میں یہ پالیسی مرتب کی گئی کہ فائر ٹینڈرز کی مرمت کا کام آؤٹ سورس کردیا جائے، ا ن 10سالوں میں فائر ٹینڈرز کی مرمت کے لیے کروڑوں روپے خرچ ہوئے لیکن فائر بریگیڈ کی اپنی ورکشاپس کو اپ گریڈ نہیں کیاگیا، اس دوران 50تجربہ کاراور ماہر عملہ ریٹائرڈ ہوگیا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔