جراثیم، اینٹی بایوٹکس اور ہم

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی  اتوار 17 نومبر 2019
اینٹی بایوٹکس کی بڑھتی ہوئی مدافعت کے خلاف نہ تو کوئی دوا میسر ہے اور نہ ہی کوئی ویکسین۔ (فوٹو: فائل)

اینٹی بایوٹکس کی بڑھتی ہوئی مدافعت کے خلاف نہ تو کوئی دوا میسر ہے اور نہ ہی کوئی ویکسین۔ (فوٹو: فائل)

بیکٹیریا یا جراثیم بہت سی مختلف بیماریاں پھیلاتے ہیں جن میں ٹائیفائیڈ سے لے کر ہیضہ، اسہال، ٹی بی اور دیگر کئی امراض شامل ہیں۔ ان جراثیم کے خلاف ڈاکٹر ہمیں اینٹی بایوٹکس تجویز کرتے ہیں جنہیں کھا کر ہم صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ یہ بات تو اکثر لوگوں کو پتا ہے کہ سب سے پہلی دریافت ہونے والی اینٹی بایوٹک ’’پنسیلین‘‘ تھی جسے ایک برطانوی سائنسدان سر الیگزینڈر فلیمنگ نے پہلی جنگ عظیم کے دوران اتفاقاً دریافت کیا تھا۔ لیکن اینٹی بایوٹکس کا باقاعدہ استعمال دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے ذرا پہلے ایک جنگی ضرورت کے طور پر شروع ہوا تھا جب اتحادی افواج نے نازی جرمنی کے خلاف نارمنڈی کے ساحل پر تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کیا تھا جس میں لاکھوں فوجی شامل تھے۔

اس حملے کےلیے پہلی بار پنسیلین صنعتی پیمانے پر امریکا میں بنائی گئی تاکہ زخمی ہونے والے اتحادی فوجیوں کا علاج کیا جاسکے اور ان کے زخموں کو جرثوموں کے باعث خراب ہونے سے بچایا جاسکے۔ اس عالمگیر جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اس کرشماتی دوا پر انتھک اور شبانہ روز کام کیا اور پنسیلین کے علاوہ بھی کئی دیگر اقسام کی اینٹی بایوٹکس دریافت ہوئیں۔ یوں سمجھا جانے لگا کہ روزِ ازل سے جاری بیماریوں کے خلاف جنگ میں حضرتِ انسان کو ایک اور فتح حاصل ہوگئی ہے۔ اور بلاشبہ حقیقت بھی یہی تھی کہ پہلی بار معالجین کے پاس جراثیم کے خلاف کوئی مؤثر دوا تھی جس کی مدد سے وہ پہلے ناقابل علاج سمجھی جانے والی کئی بیماریوں کا شافی علاج کر سکتے تھے۔ اب قصہ یہ ہے کہ صدیوں تک جراثیم کے وار سہنے کے بعد ہم اپنے پہلے وار میں کامیاب ہو تو گئے، مگر ہم اپنی فتح کے جوش میں یہ بھول گئے جراثیم بھی جاندار ہیں اور اب ان کی باری ہے جوابی وار کی۔

حالیہ تاریخ کی بات کریں تو آخری اینٹی بایوٹک کو دریافت ہوئے تقریباً دو دہائیاں گزرنے کو ہیں اور جراثیم پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں نے یہ چشم کشا انکشاف کیا ہے کہ کسی بھی نئی اینٹی بایوٹک کے پہلی مرتبہ استعمال کے بعد، اندازاً چار سے پانچ برس کے اندر اندر، جراثیم میں اس کے خلاف مدافعت کی صلاحیت آجاتی ہے۔

اس کی آسان مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ اگر آپ کو کچھ عرصہ (تقریباً آٹھ سے دس سال) پہلے تک کوئی بیکٹیریئل انفیکشن ہوتا تو آپ کسی بھی اینٹی بایوٹک کی ہلکی پھلکی خوراک سے جلد ہی ٹھیک ہوجاتے تھے۔ لیکن اگر آج آپ کو کسی ایسے جرثومے کا انفیکشن ہوجائے تو نہ تو دس سال پہلے والی اینٹی بایوٹک آپ کے کسی کام آئے گی اور نہ ہی وہ ہلکی پھلکی خوراک۔

اس کی بنیادی وجہ جراثیم میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت اور مدافعت ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ مدافعت کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ صلاحیت تو جراثیم میں ہزارہا سال سے موجود ہے، لیکن آج کل اس مدافعت کی شدت اور پھیلاؤ میں اضافے کی وجہ ہماری اپنی بے احتیاطی اور لاپرواہی کے سوا کچھ نہیں۔

ایسا نہیں کہ یہ مدافعت ان جراثیم میں موجود تھی جو کہ آج سے دس یا بیس برس پہلے ہمیں بیمار کرتے تھے۔ نہیں! ان جراثیم کی اکثریت کا اینٹی بایوٹکس سے کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا تھا، اس لیے وہ ہمارے اس حملے کےلیے تیار نہیں تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل نے جراثیم میں اس مدافعت کی صلاحیت کو ابھارنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

اب بات کرتے ہیں کہ ہم نے ایسی کیا بے احتیاطی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے ہمیں آج یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔ پہلی اور سب سے بڑی لاپرواہی تو اینٹی بایوٹکس کا ادھورا کورس ہے۔ یہ چیز آپ نے لازماً نوٹ کی ہوگی کہ جب تک ہماری طبیعت خراب رہتی ہے، تب تک ہم باقاعدگی کے ساتھ دوا لیتے رہتے ہیں۔ مگر جیسے ہی طبیعت میں بہتری آتی ہے، ہم سے دوا کی خوراک لینے میں بھول ہونے لگتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھئی جب طبیعت ٹھیک ہوگئی ہے تو پھر دوا لینے کی کیا ضرورت ہے؟ منطق کے اعتبار سے تو یہ بات بالکل ٹھیک ہے اور ویسے بھی ان دواؤں کے اپنے ’’سائیڈ ایفیکٹس‘‘ ہوتے ہیں لہٰذا جتنا اجتناب ہوسکے، کرنا ضروری ہے۔

لیکن اصل بات یہ ہے کہ جس معالج نے آپ کو اینٹی بایوٹک تجویز کی ہے، وہ بھی یہ جانتا ہے مگر پھر بھی وہ آپ کو ایک مخصوص مدت کےلیے اینٹی بایوٹک کھانےکو کہہ رہا ہے؛ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ یہ مشورہ اپنے ’’کمیشن‘‘ کی خاطر آپ کو دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج سے کچھ برس پہلے تک جب بھی ہم پر جراثیم حملہ آور ہوتے تھے تو ان کی اکثریت میں مدافعت کی صلاحیت بہت کم، یا نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔ اس انفیکشن کے علاج کےلیے جب ڈاکٹر نے، مثلاً چھ دن کےلیے، اینٹی بایوٹک کھانے کو دی تو پہلے دن اینٹی بایوٹک کا سب سے زیادہ اثر ان جراثیم پر پڑا جن میں مدافعت نہیں تھی؛ اور وہ اِکا دُکا جراثیم جو اینٹی بایوٹک کے خلاف مدافعت کی صلاحیت رکھتے تھے، پہلے حملے سے محفوظ رہے۔ اب ان بچ جانے والے جراثیم کے خاتمے تک اگر اینٹی بایوٹک کا استعمال نہ کیا جائے تو پھر آپ خود اندازہ لگائیے کہ کیا نتیجہ نکلنا چاہیے، اور اسی لیے آج کے جراثیم کی اکثریت مدافعت کی صلاحیت سے مسلح ہے۔

دوسری بڑی بے احتیاطی کسی مستند ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اینٹی بایوٹکس کا استعمال ہے۔ ہم من الحیث القوم مشورہ دینے اور لینے کا کام فی سبیل اللہ کرتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو کسی محفل میں ہلکا سا کھانس کر اپنے گلے کی شکایت کرکے دیکھ لیجیے۔ دس منٹ کے اندر اندر آپ کو دس مشورے نہ مل جائیں تو کہیے گا۔ اوپر سے ہمیں ڈاکٹروں سے ویسے ہی ایک چڑ سی ہے کیونکہ وہ ہم سے فیس جو لیتے ہیں، وہ بھی بھاری بھرکم! اس لیے ہم ڈاکٹر کی بات کم اور اپنے دوست، رشتہ دار، ہمسائے سے لے کر ماتحت اور حجام تک، ہر کسی کی بات نہ صرف سنتے ہیں بلکہ اس پر تندہی سے عمل بھی کرتے ہیں۔ آپ کےلیے یہ جاننا اشد ضروری ہے کہ اینٹی بایوٹک ایک ایلوپیتھک دوائی ہے۔ اس کا نہ تو حکمت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ہومیوپیتھی سے کوئی واسطہ۔ ان دونوں طریقہ علاج میں اینٹی بایوٹکس کا تصور ہی سرے سےموجود نہیں۔ اس لیے اگر کوئی حکیم یا ہومیوپیتھ آپ کو اینٹی بایوٹک تجویز کرے تو وہ نہ صرف آپ کی صحت کے ساتھ کھیل رہا ہے بلکہ خود اپنے طریقہ علاج سے بھی بددیانتی کا مرتکب ہو رہا ہے۔

تیسری بے احتیاطی بلا سوچے سمجھے ہر انفیکشن میں اینٹی بایوٹکس کا استعمال ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ اینٹی بایوٹک کوئی امرت دھارا نہیں، نہ ہی یہ کوئی ’’آبِ شفاء‘‘ قسم کی کوئی چیز ہے کہ آپ کو ہر طرح کے انفیکشن میں فائدہ دے گی۔ ہر گز نہیں! اینٹی بایوٹک محض ان انفیکشنز میں تجویز کی جاتی ہے کہ جو جراثیم (بیکٹیریا) کی وجہ سے ہوں۔ آپ کو کسی بھی دوا کے استعمال سے پہلے اپنی بیماری کا پتا ہونا چاہیے؛ اور ساتھ ہی آپ کو دی جانے والی دوا کے متعلق بھی معلومات ہونی چاہئیں۔

اس حوالے سے ایک مثال کے ذریعے سمجھانا غالباً زیادہ آسان ہوگا۔ مچھروں کے ذریعے پھیلنے والی دو مشہور بیماریاں ملیریا اور ڈینگی ہیں۔ ان دونوں کی وجہ بیکٹیریا نہیں بلکہ دو بالکل مختلف قسم کے جاندار ہیں۔ ملیریا کی وجہ پلازموڈیم نامی ایک جاندار ہے جبکہ ڈینگی کی وجہ ڈینگی وائرس ہے یہ دونوں بیکٹیریا کی قسم سے اتنا ہی تعلق رکھتے ہیں جتنا انسان کا مینڈک یا کچھوے کے ساتھ ہے، یا شاید اس سے بھی کم۔ اسی طرح سے آپ کو گلا خراب ہونے کی صورت میں تو اینٹی بایوٹک سے فائدہ ہوسکتا ہے مگر فلو یا زکام میں نہیں۔

یہ بے احتیاطی تو عام لوگوں کی، عوام کی جانب سے ہوتی ہی ہے لیکن وہ لاپرواہی جو ڈاکٹروں سے دانستہ یا نادانستہ طور پر ہوتی ہے، وہ ان سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ یہ لاپرواہی ہے اینٹی بایوٹکس کا بے جا اور بےدھڑک استعمال۔

اس ضمن میں اپنی ذاتی مثال دینا پسند کروں گا۔ آج سے کوئی چار سال پہلے میرے پاؤں پر چوٹ لگی تھی اور کچھ وجوہ کی بنا پر وہ تکلیف لمبے عرصے تک چلتی رہی۔ اس پر میری والدہ مجھے ایک اسپتال لے گئیں جہاں ڈاکٹر صاحب نے میرا معائنہ کرنے کے بعد بلامبالغہ کوئی درجن کے قریب دوائیں لکھ دیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاؤں کی تکلیف کے علاوہ اس وقت اور کوئی تکلیف نہیں تھی۔ وہ دوائیں میں نے والدہ کی دلجوئی کی خاطر اس وقت تو خرید لیں، لیکن گھر آکر والدہ کو بتادیا کہ ڈاکٹر صاحب کی تجویز کردہ دواؤں میں دو طرح کی اینٹی بایوٹکس، درد کے لیے دو پین کلرز، ایک اومپرازول، دو وٹامن اور شاید ایک دو دوائیں اور بھی تھیں مگر اب یاد نہیں کہ وہ کونسی تھیں۔ ان تمام دواؤں میں سے صرف وہ دو وٹامن ہی میرے مطلب کے تھے جنہیں میں نے استعمال کیا۔

ہمارے ملک میں فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی طرف سے ملنے والا کمیشن ڈاکٹروں کو زیادہ سے زیادہ دوائیں لکھنے پر اکساتا ہے۔ مریض کو اس کی ضرورت سے زیادہ اینٹی بایوٹکس تجویز کرنا مدافعت کے حوالے سے مریض کےلیے ’’آ بیل مجھے مار‘‘ والی بات ہے۔

یہ بات ذہن میں رکھیے کہ ہمارے جسم میں ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ اربوں کھربوں کی تعداد میں جراثیم رہتے ہیں جنہیں ہمارے دفاعی نظام نے جسم میں چند حصوں میں محدود کرکے رکھا ہوا ہے۔ ہم ان جراثیم سے کئی فائدے حاصل کرتے ہیں لیکن بیماری یا صحت مندی، دونوں حالتوں میں اینٹی بایوٹکس کا استعمال ان جراثیم پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے دو نتیجے نکلتے ہیں: پہلا تو ہمارے لیے جو فائدہ مند جراثیم ہوتے ہیں، وہ مرنے لگتے ہیں اور ان کی تعداد کم ہونے لگتی ہے جس کا اپنا الگ نقصان ہے؛ دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ بچ جانے والے جراثیم میں اینٹی بایوٹک کے خلاف مدافعت کی صلاحیت آنے لگتی ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی اہم ہے کہ جراثیم ہم سے زیادہ ’’سوشل‘‘ ہوتے ہیں۔ وہ ہم سے کئی گنا زیادہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اور یقین جانیے کہ ان تحائف میں مدافعت کی صلاحیت سرفہرست ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے اینٹی بایوٹکس کے خلاف مدافعت ایک خاموش قاتل کی سی حیثیت اختیار کرتی چلی جا رہی ہے اور اس کی وجہ اور کچھ نہیں، صرف اور صرف اوپر بیان کی گئی بے احتیاطی اور لاپرواہیاں ہیں۔ جنوبی ایشیا اس مدافعت کے پھلنے پھولنے کا گڑھ بن رہا ہے۔ اس وقت تو ہم پر صرف پولیو کی وجہ سے سفری پابندیاں ہیں، لیکن اگر ہم نے اپنا طرز عمل نہیں بدلا تو، خاکم بدہن، وہ دن دور نہیں جب ہمیں امریکا اور یورپ کے ویزے تو دور کی بات، حج اور عمرے کی اجازت ملنا بھی مشکل ہوجائے گا کیونکہ پولیو کےلیے تو پھر گزشتہ کئی دہائیوں سے ویکسین موجود ہے مگر اینٹی بایوٹکس کی بڑھتی ہوئی مدافعت کے خلاف نہ تو کوئی دوا میسر ہے اور نہ ہی کوئی ویکسین۔

آپ اس وقت کیا کریں گے جب آپ کا کوئی عزیز کسی بیکٹیریا کے معمولی سے انفیکشن میں مبتلا ہوگا اور اس وقت اس کے علاج کےلیے مدافعت کی وجہ سے کوئی مؤثر دواموجود نہیں ہوگی… ذرا سوچیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔