کرتارپور راہداری اورکرامت علی کا خواب

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 16 نومبر 2019
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کرامت علی بھارت اور پاکستان کی دوستی کے زبردست حامیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے سرگرداں کارکن آئی اے رحمن ڈاکٹر مبشر حسن ، ایم بی نقوی اور بی ایم کٹی مرحوم وغیرہ کے ساتھ 40 برسوں سے پاکستان بھارت دوستی فورم کے پرچم تلے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان رابطوں کے لیے سرگرداں رہے ہیں۔ کرامت علی نے سکھوں کے مقدس مقام کرتار پور جانے کی راہداری کے قیام کودونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سنگ میل قرار دیا ہے۔

کرامت علی کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے امن پسند برسوں سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ سکھوں کے اس مقدس مقام کو تمام عقیدت مندوں کے لیے کھول دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں کئی ایسے مذہبی مقامات ہیں جن کی مختلف مذاہب میں بہت اہمیت ہے۔ دونوں حکومتوں کو کرتار پور راہداری جیسی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ کرامت علی نے متحدہ ہندوستان اور بٹوارے کی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 1947میں متحدہ پنجاب بد ترین مذہبی جنونیت کا شکار ہوا تھا۔ کرتار پور اور اطراف کے علاقوں میں سیکڑوں افراد قتل ہوئے۔ تینوں مذاہب کے جنونیوں نے انسانیت کو پامال کیا تھا جہاں بد ترین فسادات ہوئے تھے مگر آج 70 سال بعد کرتار پورکو مذہبی رواداری اور دوستی کا گہوارہ بنانا نہ صرف اس خطے کے عوام کے لیے بلکہ پوری دنیا کے امن پسندوں کے لیے خوشی  اور مسرت کا موقع ہے۔

کرامت علی نے گزشتہ ہفتے کرتا پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں بھارت پنجاب کے سابق وزیر نجوت سنگھ سدھوکی تقریرکا حوالہ دیا کہ راہداری امن ومحبت کو فروغ دے گی۔ سندھو نے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی کو مضبوط کرے گا بلکہ بین الاقوامی منظر نامے میں دوستی اور تعلقات کی افادیت کا نیا باب کھل رہا ہے۔

کرامت علی کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان گزشتہ 70 برسوں سے جنگ وجدل کی صورتحال کا شکار ہیں۔ اس خطے میں دنیا کی 20 فیصد آبادی رہتی ہے مگر ان میں سے 60 فیصد غربت کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھارت اور پاکستان آزاد ہوئے تو پاکستان کی آبادی 3  کروڑ کے قریب تھی اور اب 22 کروڑ کے قریب ہے، یوں غربت کا شکار 15 فیصد سے زیادہ ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی چائلڈ لیبر بھارت اور پاکستان میں ہے اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی سے ہی غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

کرامت علی کہتے ہیں کہ بھار ت اور پاکستان کے درمیان کشمیرکا مسئلہ موجود ہے جوکہ کسی صورت حل نہیں ہوپارہا۔ اس مسئلہ کا حل دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے تلاش کرسکتے ہیں۔ کرامت علی کا کہنا ہے کہ اس خطہ کے ممالک نے 90 کی دہائی میں سارک کا ادارہ قائم کیا تھا۔ سارک کے مقاصد میں تمام ممالک کے درمیان روابط بڑھانا ، ترقیاتی منصوبے شروع کرنا اور غربت کا خاتمہ تھا۔ سارک نے کچھ منصوبے شروع کیے۔ نئی دہلی میں سارک یونیورسٹی کا قیام سارک ممالک کے درمیان تعاون کی ایک نئی شکل تھا۔

اس یونیورسٹی میں تمام رکن ممالک کے طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور تمام رکن ممالک اس یونیورسٹی کے اخراجات کے لیے گرانٹ دینے کے پابند ہیں۔ ایسے منصوبے دیگر رکن ممالک میں بھی شروع ہونے تھے مگر گزشتہ تین برسوں سے مودی حکومت کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں کی بناء پر اس کی سربراہ کانفرنس منعقد نہیں ہو پا رہی۔ اب جب وزیر اعظم نریندر مودی نے کرتار پور راہداری کے قیام پر وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا ہے توکیوں نہ سارک کے ادارہ کو فعال کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

کرامت علی کہتے ہیں کہ مشرق بعید کے ممالک نے آسیان نام کا ادارہ قائم کیا۔ ملائیشیا، انڈونیشیا، چین ، ویتنام اور تھائی لینڈ وغیرہ اس میں شامل ہیں۔ چین اور ویتنام میں تاریخی اصلاحات کر رہے ہیں۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے درمیان ایک زمانے میں شدید تنازعہ تھا مگر ان ممالک نے آسیان کے پلیٹ فارم سے اپنے مسائل کا حل تلاش کیا۔ اب آسیان کے ممالک اسلحہ کی دوڑ میں ہیں۔ تمام ممالک اپنے اپنے ملک سے غربت کے خاتمے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور ایک دوسر ے سے تعاون کررہے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کو آسیان کی تنظیم کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر،  نیپال ،سری لنکا اور بنگلہ دیش وغیرہ کے درمیان اسی نوعیت کے اختلافات ہیں۔ یہ تمام اختلافات سارک کے فورم سے حل ہونے چاہئیں۔ کرامت علی یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان نے اپنے اپنے ہائی کمشنر واپس بلانے کے جو فیصلے کیے تھے وہ امن پسندوں کے لیے مایوس کن تھے مگر یہ خبریں خوش آیند ہیں کہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے ہائی کمشنر اپنے فرائض انجام دینے کے لیے دوبارہ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کرامت علی نے امید ظاہرکی کہ لاہور سے امرتسر جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس،کراچی سے تھرپارکر سے بھارت جانے والی تھر ایکسپریس اورلاہور سے نئی دہلی جانے والی دوستی بس سروس بھی بحال ہوجائے گی۔ کرامت علی کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے ملک جانا چاہتے ہیں۔ ان میں مقیم خاندانوں کے لوگوں میں تاجر، طالب علم، اساتذہ، صحافی، خواتین اور عام لوگ شامل ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ویزے کی پابندیاں نرم کرنے کے لیے کچھ بنیادی اقدامات پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ ان میں 2سال سے کم عمر اور 65 سال سے زائد کے افراد کو متعلقہ سرحدوں اور ایئرپورٹ پر ویزہ دینے، دونوں ممالک کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ملک آنے جانے کے دوران متعلقہ پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرنے جیسے اقدامات کے خاتمے کا اعادہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح صحافیوں، وکلاء اور ججوں کو ویزہ سے مستثنیٰ کرنے کے فیصلے شامل تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ویزہ کی پابندیاں سخت ہوگئیں۔

کراچی، لاہور، بمبئی اور کلکتہ وغیرہ میں قونصل خانے نہیں کھل سکے اور دونوں ممالک سے ویزہ حاصل کرنے والوں میں تقریباً ویسی ہی پابندیاں عائد کردی گئیں جیسی امریکا اورکینیڈا کے ویزے کے لیے عائد ہیں۔ پھر فضائی اور زمینی رابطے معطل ہونے کے ساتھ سفرکے اخراجات بڑھ گئے۔ دونوں ممالک میں امن کے دشمنوں نے ایسی فضاء پیدا کر دی کہ شہری ایک دوسرے کے ملک میں داخلے کے بعد خوفزدہ ہونے لگے۔ مفاہمت، تعاون اور ترقی کے لیے اس مذموم فضاء کا خاتمہ ضروری ہے۔

کرامت علی بنیادی طور پر تاریخ کے طالب علم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والا نصاب غلط حقائق اور جنون اور نفرت پیدا کرنے والے مواد پر مشتمل ہے۔ کرامت علی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہمیشہ مہاتما گاندھی کی شخصیت کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔ مہاتما گاندھی سیکیولر بھارت کے معماروں میں شامل تھے۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد خون ریز فسادات ہوئے۔ گاندھی نے ان فسادات کو روکنے کے لیے عملی طور پر حصہ لیا۔

بھارت اور پاکستان کی آزادی کے لیے نافذ کیے جانے والے قانون کے تحت بھارت کو پاکستان کو ملنے والے اثاثے پاکستان کے حوالے کرنے تھے مگر کشمیر میں جنگ ہونے کی بناء پر بھارتی حکومت نے یہ اثاثے روک لیے تھے۔ گاندھی جی نے ان اثاثوں کی پاکستان کو حوالگی کے لیے من بھرت رکھا تھا۔

کرامت علی کو20 جنوری 2002 کو مہاتما گاندھی کی برسی کے موقع پر بھارت مدعو کیا گیا اور دوستی کی علمبردار نرملہ ڈیش پانڈے نے کرامت اور اس کے ساتھیوں کو وہ یادگار دکھائی گئی جہاں مہاتما گاندھی قتل ہوئے تھے۔ اس وقت کچھ لوگ وہاں موجود تھے جو 1947 میں گاندھی کے ساتھ تھے۔ ان لوگوں نے کرامت علی کو بتایا کہ گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کے ان علاقوں میں جائیں گے جہاں شدید فسادات ہوئے تھے اور ان علاقوں میں چھ چھ ماہ تک قیام کریں گے۔

گاندھی کا پاکستان کے فسادزدہ علاقوں میں جانے کا فیصلہ ہندو مذہبی انتہاپسندوں کے لیے موت کے مترادف تھا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ گاندھی نے پاکستان کے گورنرجنرل محمد علی جناح سے ٹیلیفون پر بات کی تھی اور اپنے عزائم سے آگاہ کیا تھا۔ محمد علی جناح خود ان خون ریز فسادات سے سخت مایوس تھے۔ جناح نے گاندھی کے اس فیصلے کو سراہا تھا مگر گاندھی اگر اپنے فیصلہ پر عملدرآمد کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو دونوں طرف کے مذہبی جنونیوں کے لیے جگہ تنگ ہو جاتی۔

گاندھی زندہ رہتے تو جو کچھ کشمیر میں ہوا اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ہندو انتہاپسند تنظیم آر ایس ایس جس نے ہندوستان کی آزادی کی مخالفت کی تھی اور ہمیشہ انگریز راج برقرار رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا نے گاندھی کے اس منصوبہ کو ناکام بنانے کے لیے سازش تیار کی اور مہاتما گاندھی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ گاندھی کو قتل کردیا گیا۔

پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح نے گاندھی کے قتل کی مذمت کی۔ گاندھی کے سوگ میں قومی پرچم سرنگوں کردیا گیا اور ملک میں ایک دن کی تعطیل کی گئی۔ کرامت علی کہتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں ان واقعات کا ذکر نہیں ملتا۔ یہ واقعات اگر نصاب میں شامل ہوں تو پھر نئی نسل کا ذہن دوستی اور ترقی کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔

کرتار پور راہداری کا کھلنا ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اس واقعہ کا کریڈٹ وزیر اعظم عمران خان کو جاتا ہے مگر معاملہ صرف کرتار پور تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات مکمل طور پر بحال ہونے چاہئیں اور عوام کے عوام سے رابطوں کی راہ میں رکاوٹوں کو دور ہونا چاہیے۔

کرامت کا خواب ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات ضرور اچھے ہونگے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ بھارت اب گاندھی اور نہرو کا بھارت نہیں رہا، تو ہمیں گاندھی اور نہرو کے بارے میں نئی نسل کو بتانا چاہیے۔ غربت کے خاتمے اور ترقی کے لیے دوستی ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔