حکومتی شرائط مسترد؛ نواز شریف کو 4 ہفتوں کیلیے بیرون ملک جانے کی اجازت

ویب ڈیسک  ہفتہ 16 نومبر 2019
عدالت نے بانڈ کی حکومتی شرط ختم کردی۔ فوٹو: فائل

عدالت نے بانڈ کی حکومتی شرط ختم کردی۔ فوٹو: فائل

لاہور ہائیکورٹ نے شرائط پر مبنی حکومتی میمورنڈم معطل کرتے ہوئے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی، صحت بہتر نہ ہونے پر اس مدت میں توسیع بھی ممکن ہوسکے گی۔

جسٹس علی باقر نجفی اورجسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل لاہورہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کی۔ اس دوران صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کے علاوہ پارٹی کے کئی رہنما بھی موجود تھے۔

عدالت کے فریقین سے سوالات 

سماعت کے آغاز پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط لگائی جا سکتی ہیں؟ کیا لگائی گئی شرائط علیحدہ کی جاسکتی ہیں؟ کیا میمورنڈم انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا؟  ضمانت کے بعد شرائط لاگو ہوں تو کیا عدالتی فیصلے کو تقویت ملے گی ؟ کیا درخواست گزار ادائیگی کے لیے کوئی اور طریقہ ڈھونڈنے کو تیار ہے ؟ حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے یا نہیں ؟ کیا فریقین نواز شریف کی واپسی سے متعلق یا کوئی رعایت کی بات کرسکتے ہیں؟  کیا فریقین اپنے انڈیمنٹی بانڈز میں کمی کرسکتے ہیں؟

’نواز شریف جانا چاہتے ہیں تو اعتراض نہیں‘

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف علاج کے لیے باہرجانا چاہتے ہیں تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں لیکن نواز شریف کو باہر جانے سے پہلے عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا، ان کے پاس یہ آپشن ہے کہ اینڈیمنٹی یا شورٹی بانڈ کی رقم عدالت کے اکاونٹ پاس جمع کرادیں اگر یہ تمام چیزیں پوری کردیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، اس موقع پر انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے انڈیمنٹی بانڈ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروانے کی پیشکش کردی۔

عدالت نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف واپس آئیں گے؟ جس پر شہباز شریف نے کہا کہ  انشاء اللہ واپس آئیں گے، عدالت نے مزید استفسار کیا کہ آپ کا انہیں ملک واپس لانے میں کیا کردار ہوگا؟ جس پرانہوں نے کہا کہ میں ان کے ساتھ بیرون ملک جارہا ہوں وہ علاج کے بعد واپس آئیں گے۔

لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ قانون اپنی روح کے مطابق کام کرتا ہے، جو حلف یہ دینا چاہتے ہیں ان سے لکھ کر پوچھ لیتے ہیں، ہم درخواست گزار سے لکھ کر حلف لے لیتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے عدالت نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انڈرٹیکنگ عدالت کو جمع کرائی جائے گی۔ عدالت نے وفاق سے استفسار کیا کہ اگرآپ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کو جانے کی اجازت دے رہے ہیں تو پھر شرائط لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ عدالت چاہ رہی ہے کہ یہ معاملہ حل ہو۔

نواز، شہباز شریف سے انڈرٹیکنگ لے لیتے ہیں

عدالت نے کہا کہ ہم نواز شریف اور شہباز شریف سے تحریری بیان حلفی لے لیتے ہیں وفاق اسے دیکھ لے یہ بیان حلفی عدالت میں جمع ہوگا اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔

نواز شریف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جو شرائط بھی عائد کی گئی ہیں وہ عدالت کے ذریعے ہونا چاہیے تھیں اگر عدالت کو مطمئن کرنے کی بات ہے تو جو عدالت حکم دے گی ہمیں قبول ہوگا۔

وکیل نواز شریف نے کہا کہ جب عدالت میں کیس زیرسماعت ہو تو ریاست کا اختیار نہیں کہ سزا ختم کرے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے 6 ہفتے کی سزا معطل کی لیکن بیرون ملک جانے پر پابندی لگائی، عدالتی اورسیاسی تاریخ میں ایسی مثال نہیں کہ سزا یافتہ شخص واپس آئے اور سزا کاٹ رہا ہو۔

’سزا یافتہ کو باہر بھیجنے کا اختیار حکومت کو بھی نہیں‘

نواز شریف کے ایک اور وکیل اشتر اوصاف نے کہا کہ آرٹیکل 4 کے مطابق کسی شہری پر شرط عائد نہیں کی جاسکتی جس پر جسٹس باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ قانون تو سزا یافتہ کو باہر بھیجنے کا اختیار حکومت کو بھی نہیں دیتا، ہم چاہتے ہیں یہ معاملہ اتفاق رائے سے طے ہو، لکھ کر دیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف وطن واپس آئیں گے۔

“حکومتی شرط غیر قانونی ہے”

درخواست کی سماعت کے دوران شہباز شریف نے ٹیلی فون پر نواز شریف، مریم نواز اور اپنی والدہ سے مشاورت کی۔ اس دوران نواز شریف نے کہا کہ ای سی ایل سے ان کا نام نکالنے کے لیے حکومتی شرط غیر قانونی ہے، عدالت کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر ہوگا، عدالتی احکامات پر من و عن عمل کیا جائے گا۔

بیان حلفی کا مسودہ جمع

عدالتی ہدایت کی روشنی میں امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی کا مسودہ لاہور ہائی کورٹ کے معاون کے حوالے کر دیا۔ بیان حلفی کا ڈرافٹ 2 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف صحت یاب ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے اور عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے۔

ایسا بیان حلفی بیان قبول نہیں کرسکتے، حکومت

 دوسری جانب ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے شہباز شریف کا بیان حلفی مسترد کردیا، انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاص مدت کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کی ہے، اس بیان حلفی میں کسی قسم کی ضمانت نہیں دی گئی، ایسی صورت میں ہم اسے کیسے تسلیم کرسکتے ہیں؟ 25 نومبرکو اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کیس کی اپیل بھی مقرر ہے، اگر نواز شریف نہیں آتے تو کیا ہوگا؟ اس لیے انڈیمنٹی بانڈ مانگے ہیں۔
اشتیاق احمد خان نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ڈرافٹ کے جواب میں حکومت نے بھی ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے، حکومت جب سمجھے گی کہ نواز شریف کی حالت ٹھیک ہے تو حکومت اپنا بورڈ ملک سے باہر چیک اپ کے لیے بھیج سکتی ہے، بورڈ یہ چیک کرے گا کہ نواز شریف سفر کر کے ملک میں واپس آسکتے ہیں یا نہیں، عدالت کی جانب سے ضمانت مقررہ مدت کے لیے دی گئی ہے۔

دونوں جانب ڈرافٹ کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے کہا کہ عدالت اپنا ڈرافٹ تیار کرکے فریقین کے وکلا کو دے گی، عدالتی ڈرافٹ پر فریقین متفق ہوئے تو فیصلہ کیا جائے گا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں تیسری مرتبہ وقفہ کر دیا۔

 عدالتی ڈرافٹ

عدالت کی جانب سے تیار کردہ مجوزہ ڈرافٹ وفاقی حکومت اور شہباز شریف کے وکلاء کو فراہم کیے گئے۔ شہباز شریف اور احسن اقبال نے بھی ڈرافٹ کا جائزہ لیا۔

عدالتی ڈرافٹ کے متن میں کہا گیا کہ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے 4 ہفتے کا وقت دیا گیا ہے لیکن اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہو سکتی ہے جب کہ حکومتی نمائندہ سفارت خانے کے ذریعے نوازشریف سے رابطہ کرسکے گا۔

بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے وکلا نے عدالتی ڈارفٹ منظور کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالتی ڈرافٹ منظورہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ عدالتی ڈرافٹ پرمکمل عملدرآمد کریں گے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالتی ڈرافٹ پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی ڈرافٹ میں معمولی ترامیم کے لیے تجاویز ججزکو چیمبرمیں بھجوادی۔

کیس کا پس منظر؛

حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے ایک بار بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دی تھی تاہم اس کے لیے ان کی جانب سے 80 لاکھ پاؤنڈ، 2 کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر، 1.5 ارب روپے جمع کرانے کی شرط رکھی گئی تھی۔ گزشتہ روز نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہبازشریف کی جانب سے دائر درخواست کو قابل سماعت قرار دیا تھا۔

مقدمے کا تحریری فیصلہ جاری

لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو بیرون ملک روانگی کی اجازت دیتے ہوئے درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کردیا جبکہ نواز شریف کی درخواست کی سماعت جنوری 2020ء کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔

تحریری فیصلے میں عدالت نے فریقین کے سامنے پانچ قانونی نکات رکھے اور کہا کہ نواز شریف کو وکلا کے دلائل سننے کے بعد ایک مرتبہ علاج کی غرض سے بیرون ملک سفر کی اجازت دی جاسکتی ہے، فریقین کے وکلاء کی جانب سے جمع کرائے گئے مسودے پر اتفاق نہیں ہوسکا گو کہ تمام دن اس پر سنجیدگی سے غور کیا گیا۔

تحریری فیصلے کے مطابق میاں نواز شریف نے اپنی واپسی کے حوالے سے بیان حلفی عدالت میں جمع کرایا، نواز شریف ایک مرتبہ اپنی خرابی صحت پر بیرون ملک جانے کی اجازت لے چکے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے بیرون ملک سفر کے لیے مشروط طور پر جاری کیا گیا میمورنڈم معطل کیا جاتا ہے اور نواز شریف کو طبی بنیادوں پر چار ہفتوں کے لیے بیرون ملک سفر کی اجازت دی جاتی ہے، جب ڈاکٹر ان کی صحت درست ہونے کی تصدیق کردیں گے تو انہیں واپس آنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔