- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
’’سید دلاور عباس اور جاوید اقبال ‘‘
ابھی حامد سراج صاحب کی مفارقت کی خبر گردش میں ہی تھی کہ دو اور عزیز دوست بھی اس دارِ فنا سے پردہ کرگئے جہاں یوں تو کوئی بھی سدا رہنے کے لیے نہیں آتا مگر جب تک کوئی خود ’’رفتگاں‘‘ میں شامل نہیں ہو جاتا اس کے اردگرد سے اُٹھ کر جانے والے لوگ اس کی یادوں کے بوجھ بھی مسلسل اضافہ کرتے رہتے ہیں مثال کے طور پر سیّد دلاور عباس کی رحلت کی خبر کے ساتھ ہی ان بہت سے رفتگاں کے چہرے بھی نظروں میںپھر گئے جو ہمارے مشترک دوستوں میں سے تھے۔
زمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو دلاور مرحوم سے رفاقت کا دورانیہ تقریباً چھ دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے کہ ہماری اولین ملاقاتیں اُس زمانے سے تعلق رکھتی ہیں جب میں اور رضا مہدی مرحوم مسلم ماڈل ہائی اسکول میں پڑھا کرتے تھے اور وہ مجھے محرم کی ایک ایسی مجلس میں لے کر گیا تھا جو دلاور عباس مرحوم کی موچی دروازے والی اُس حویلی کے نواح میں منعقد ہوئی تھی جہاں سے غالباً اب بھی محرم کا مرکزی جلوس اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔
کرکٹ اُس زمانے میں ہمارا مشترک شوق تھا،آگے چل کر ہم تینوں کے روزگار اور دلچسپی کے مراکز تو ضرور بدلے مگر باہمی انس و محبت کا یہ رشتہ کبھی ٹوٹنے نہیں پایا۔ دلاور عباس نے اٹک آئل کمپنی میں ترقی کی کئی منزلیں بہت تیزی سے طے کیں جس کا ہیڈ آفس راولپنڈی میں تھا اور شمال کی طرف سفر کرنے کے دوران اُس کا گھر ہمارا مستقل ڈیرا ہوا کرتا تھا کہ اس کے بغیر وہ ہمیں وہاں سے گزرنے بھی نہیں دیتا تھا اور اس مشہور مقولے کہ ’’عزت آنی جانی چیز ہے‘‘ میں یہ ترمیم یا اصلاح بھی اس گھر میں ہوئی تھی کہ عزت آنی جانی نہیں بلکہ جانی جانی چیز ہے کہ اس کو کم از کم ہم دوستوں کی محفل کی حد تک بارہا جاتے تو دیکھا گیا ہے مگر ’’آنے‘‘ کا منظر کسی نے نہیں دیکھا۔
دلاور اپنی وضع قطع، تعلیم، عہدے اور ہر دلعزیز شخصیت کے ناتے ایک آئیڈیل ’’کنوارہ‘‘ تھا اور رشتوں کی رینکنگ کے حوالے سے اس کے نمبر ہم سب سے زیادہ بنتے تھے مگر ہوا یوں کہ ایک ایک کرکے ہم سب دوستوں کی شادیاں ہوگئیں مگر دلاور عباس کسی نہ کسی وجہ سے اس مرحلے سے گریزاں ہی رہا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اُس کے اور ہمارے برادرِ بزرگ سیّد تجمل عباس اسی حوالے سے بہت پریشان رہتے تھے اور بار بار ہم سے کہتے تھے کہ یار تم ہی اس کو سمجھائو ہمیں تو ہر بار یہ لفظوں کی گولیاں دے دیتا ہے۔
ایک بار ہم سب دوستوں نے مل کر اس کی شادی کا ایک فرضی کارڈ تیار کیا جس میں اور بہت سی دلچسپ باتوں کے ساتھ ’’دعوت طعام‘‘ کے سامنے یہ درج تھا کہ ’’شادی کے کھانے میں حاضرین کی تو ا ضع دلیئے اور آسانی سے چبائی جا سکنے والی چیزوں سے کی جائے گی کہ دولہا سمیت اس کے بیشتر باراتی اپنے اپنے قدرتی دانتوں سے محروم ہو چکے ہیں‘‘
اٹک آئل کی ملازمت ختم کرنے کے بعد اُس نے اپنا ذاتی بزنس شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس کا شمار کامیاب ترین بزنس مینوں میں ہونے لگا۔ چوہدری برادران سے اُس کی دوستی گہری بھی تھی اور پرانی بھی سو اُن کے مشورے سے وہ سیاست میں آیا اور خاصی مدت تک سینیٹر رہا اور انتہائی فعال، ہونے کے باوجود کسی قسم کی کرپشن کے الزام یا سکینڈ ل سے محفوظ بھی رہا جو وطنِ عزیز میں اپنی جگہ پر کسی کارنامے سے کم نہیں۔
بڑے بڑے حکومتی عہدے ہوں یا بزنس کا پھسلواں میدان اُس نے ہر جگہ عزت اور احترام کے ساتھ وقت گزارا۔ میں نے اپنے سفر نامہ چین ’’ریشم ریشم‘‘ میں روانگی کے وقت کراچی ائیرپورٹ پر اس سے ایک اتفاقی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے جس میں وہ بہت تھکا ہوا نظر آ رہا تھا کہ بقول اس کے کئی دنوں سے کاروباری میٹنگز کی وجہ سے مسلسل سفر میں تھا، اُس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آیندہ سے کچھ وقت اپنے آپ کو اور اپنے دوستوں کو بھی دیا کرے گا۔
گزشتہ 28 برسوں میں وہ اس وعدے کو ایفا نہ کر سکا کہ دنیاوی مصروفیات کابوجھ بینکوں میں گردش کرتی ہوئی دولت کی مقدار میں تو اضافہ کرتا رہتا ہے مگر اس دوران میں ہمارے اندر سے ہجوم کچھ گھٹا ہے، اُس کا شمار اور گنتی کسی سے بھی نہیں ہوپاتی، سو دلاور عباس مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوئے یہ شعر باقی ماندہ دوستوں کے ساتھ ساتھ خود اپنی نذر بھی کرتا ہوں کہ
آپ بھی تو یہیں پہ رہتے ہیں
خود کو بھی وقت کچھ دیا کیجیے
یہ غالباً1990 کے اردگرد کا زمانہ تھا جب مجھے اور عطاء الحق قاسمی کو ریاض کے پاکستانی سفارت خانے سے یومِ پاکستان کی ایک خصوصی تقریب میں مدعو کیا گیا وہاں بہت سے دوستوں سے ملاقات رہی مگر سب سے زیادہ متاثر برادرِ عزیز جاوید اقبال نے کیا جن کا تین دن قبل انتقال ہوا ہے اور جو اس زمانے میں وہاں انگریزی زبان کے پروفیسر تھے، ا ن کی علمی قابلیت اور کالم نگاری کے جوہر تو بعد میں کھلے لیکن اُن کی شخصیت کی دلنوازی نے نہ صرف فوری طور پر متاثر کیا بلکہ اُن سے ایک اضافی اور خوبصورت رشتہ یوں بھی بن گیا کہ وہ پاکستان ٹیلی وژن کے بہترین ڈرامہ پروڈیوسرز میں سے ایک محمد نثار حسین جنھیں ٹی وی کی دنیا میں MNH کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کے بھانجے نکل آئے۔
یہ ایم این ایچ وہی ہیں جنہوں نے 1980 کی دہائی میں ایسے شاندار اور باکمال طویل دورانیے کے ڈرامے درجنوں کی شکل میں پروڈیوس کیے جو پی ٹی وی کے ساتھ ساتھ صنفِ ڈرامہ کے حوالے سے بھی کسی بہت قیمتی خزانے سے کم نہیں۔ جاوید اقبال سے محبت کا یہ رشتہ آنے والے دنوں میں مسلسل گہرا ہوتا چلا گیا، اس دوران میں تین چار بار مجھے ریاض جانے کا موقع ملا اور تقریباً ہر برس وہ کچھ دنوں کے لیے پاکستان آتے رہے۔
ادب سے اُن کی محبت اور وسیع مطالعے کا تو مجھے علم تھا مگر جدّہ سے نکلنے والے خوبصورت اور بقول اُردو اخبار میں اُن کے ہفتہ وار کالم پڑھ کر اُس کی تحریر کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اُ ن کی شخصیت کے کچھ ایسے جوہر بھی کھلے جس کی وجہ سے ان کے ساتھ محبت اور دوستی کا رشتہ مزید گہرا ہوگیا ۔ میں کتابوں کے دیباچے وغیرہ لکھنے سے بوجوہ بہت گھبراتا ہوں مگر میرے لیے یہ بات روحانی تسکین کا باعث ہے کہ مجھے جاوید اقبال کے کالموں کے پہلے مجموعے کا دیباچہ لکھنے کا موقع ملا ۔ وہ بلاشبہ ایک بہت حساس ، درد مند اور وسیع النظر انسان تھے اور اُن کے کالموں میں ’’قصہ گوئی‘‘ کی وہ مخصوص صفت تھی جسے بہت کم لوگ اُن جیسی کامیابی سے نبھا پائے ہیں۔
14 نومبر کی صبح مجھے پشاور سے منظور احمد صاحب کا فون آیا جن کے سفارتی کیرئیر کی آخری پوسٹنگ سعودی عرب میں ہی تھی اور جو جاوید اقبال مرحوم کی صلاحیتوںکے دل سے قائل تھے، اُن کی آواز کی پریشانی بہت نمایاں تھی۔ کہنے لگے کہ ابھی ابھی جاوید اقبال کی بیٹی کا فون آیا ہے کہ اُن کا انتقال ہوگیا ہے۔
ذرا اس خبر کی تفصیل معلوم کرکے مجھے بھی بتایئے میرا دماغ چند لمحوں کے لیے سُن سا ہوگیا کہ ابھی دو ماہ قبل ہی وہ اپنے بیٹے کے ساتھ میرے گھر آئے تھے اور خاصی طویل ملاقات کے دوران انھوں نے ذکر تک نہیں کیا کہ وہ کسی بہت سنگین بیماری سے دوچار ہیں، اُن کے جنازے پر اُن کے بیٹوں ، داماد اور بیٹی سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ کئی دنوں سے اسپتال میں زیرِ علاج تھے اور اب وہاں سے ڈسچارج ہو کر گھر آئے ہی تھے کہ دل کا ایک ایسا دورہ پڑنے سے یکدم رخصت ہوگئے جس کی اس سے پہلے سرے سے کوئی ہسٹری نہیں تھی ۔ میرا سنایا ہوا غالبؔ کا ایک شعر انھیں بہت پسند تھا، سو میں اُسی کے ساتھ اُن کو یاد کرتا ہوں کہ
ہر نفس، ہر یک نفس، جاتا ہے قسطِ عمر میں
حیف ہے اُن پر جو کہویں ’’زندگانی مفت ہے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔