خار ِزار میں سو برس کا سفر

سید عاصم محمود  اتوار 17 نومبر 2019
تاریخ اسلام شاہد ہے کہ علمائے کرام نے اپنے حکمرانوں اور غیروں کے سامنے بھی سچائی کا پرچم سربلند کیے رکھا۔

تاریخ اسلام شاہد ہے کہ علمائے کرام نے اپنے حکمرانوں اور غیروں کے سامنے بھی سچائی کا پرچم سربلند کیے رکھا۔

جنرل موبری تھامپسن( 1832ء۔1917ء) اس انگریز فوج کا حصہ تھا جس نے ہندوستان میں جنگ آزادی 1857ء لڑی۔ وہ اپنی آپ بیتی’’ The Story of Cawnpore‘‘ میں لکھتا ہے :’’اگر اپنے ملک کے لیے لڑنا اور طاقتور قابض فوج کے خلاف منصوبے بنانا حب الوطنی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی مولوی (علمائے کرام) اپنے وطن کے وفادار سپوت ہیں۔ یقیناً آنے والی نسلیں انہیں اپنا ہیرو قرار دیں گی۔‘‘

یہ ایک غیر ملکی جرنیل کی طرف سے ہمارے علمائے کرام کی شجاعت و دلیری پر اچھوتا خراج تحسین ہے۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ علمائے کرام نے اپنے حکمرانوں اور غیروں کے سامنے بھی سچائی کا پرچم سربلند کیے رکھا۔ جب بھی کوئی حکمران آمر یا ظالم بن بیٹھا تو علما جان کی پروا کیے بغیر اسے راہ راست پر لانے کی کوششیں کرتے رہے۔ ایسے جری علما نے ہندوستان میں بھی جنم لیا۔

مجدد الف ثانیؒ مغل بادشاہ جہانگیر کی حکومت میں غیر اسلامی رسوم و رواج کے خلاف نبرد آزما رہے۔ جب مغل حکمران لعوولہب کا شکار ہوئے، تو شاہ ولی اللہؒ انہیں خواب غفلت سے جگانے کی سعی کی۔ انگریز سامراج نے ہندوستان پر قبضہ کیا، تو سب سے پہلے علمائے کرام ہی نے ان سے ٹکرلی۔ شاہ عبدالعزیزؒ نے 1808ء میں ہندوستان کو ’’دارالحرب‘‘ دیا۔ جنگ آزادی 1857ء برپا کرنے میں مولوی احمد اللہ شاہؒ کا بنیادی کردار تھا جو پورے ہندوستان میں گھوم کر ہندو مسلم رعایا کو انگریز کے خلاف لڑنے پر ابھارتے رہے۔ اس جنگ میں مولانا قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ بھی شریک تھے جنہوں نے بعدازاں 1866ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی جس کا شمار علم و تعلیم کے اہم عالمی مراکز میں ہوتا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے مدرس، مولانا محمودالحسنؒ انگریز استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے رہے۔ انہوں نے ہندوستان کو آزادی دلانے کی خاطر ’’ریشمی رومال اسکیم‘‘ تیار کی تاہم وہ کامیاب  نہ ہوسکی۔ رفتہ رفتہ انہیں احساس ہوا کہ انگریز حکومت کے خلاف سیاسی جدوجہد زیادہ سود مند ہے۔ انہوں نے مسلح سرگرمیاں ترک کیں اور علمائے کرام کی سیاسی جماعت قائم کرنے کے لیے احباب سے مشورہ کرنے لگے۔ 22 تا 24 نومبر 1919ء کو دہلی میں پہلی آل انڈیا خلافت کانفرنس منعقد ہوئی۔ اسی وقت مولانا محمود الحسن کی ہدایت پر علمائے کرام نے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جسے ’’جمعیت علماء ہند‘‘ کا نام دیا گیا۔ مفتی کفایت اللہ دہلوی جماعت کے پہلے صدر مقرر ہوئے۔یہ ایک انقلاب انگیز موقع تھا کیونکہ شاہ ولی اللہؒ کی طرز فکر سے متاثر علمائے کرام کی اکثریت نے مسلح سرگرمی کو خیرباد کہا اور انگریز استعمار کے خلاف پُر امن جدوجہد کا آغاز کردیا۔ جمعیت علمائے ہند درج ذیل مقاصد کی خاطر قائم کی گئی:

٭… مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے اتحاد و یک جہتی پیدا کرنا کیونکہ مولانا محمود الحسنؒ کا خیال تھا، ہندو مسلم مل کر ہی طاقتور انگریز کو شکست دے سکتے ہیں۔

٭… مسلمانوں کو مذہبی تعلیمات سے روشناس کرانا اور ان کی رہنمائی کرنا۔

٭… مسلمانان ہند کے شہری، تہذیبی، ثقافتی، تعلیمی اور مذہبی حقوق کی حفاظت۔

٭… ایسی سرگرمیاں انجام دینا کہ مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی حالت میں بہتری آسکے۔

1936ء کے بعد تحریک پاکستان کا آغاز ہوا۔ مولانا حسین احمد مدنی کی زیر قیادت جمعیت علماء ہند تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے لگی۔ مولانا صاحب دارالعلوم دیوبند کیناظم بھی تھے۔ آپ کا استدلال تھا کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ  وہ اپنی جنم بھومی سے وفادار رہیں۔ اسی بنیاد پر انہوں نے مطالبہ پاکستان کو غیر اسلامی قرار دیا۔جمعیت  میں شامل بعض دیوبندی علما کو مولانا حسین احمد مدنی کے درج بالا نظریے سے اتفاق نہیں تھا۔ اس گروہ کے قائد مولانا اشرف علی تھانویؒ تھے۔ دیگر ارکان میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مفتی محمد شفیعؒؒ اور مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ نمایاں ہیں۔ تاہم اکثر دیوبندی علما مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھی بن گئے۔ البتہ بریلوی علما و مشائخ کی اکثریت تحریک پاکستان کی حامیرہی۔

جب بھارت کا قیام عمل میں آیا تو مولانا ابوالکلام آزادؒ نے دیوبندی علما کو مشورہ دیا کہ جمعیت علماء ہند کو سماجی، اصلاحی، تعلیمی اور تبلیغی تنظیم میں بدل دیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ سیاست میں حصہ لینے سے جمعیت اور بھارتی مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ چناں چہ جمعیت علماء ہند نے سیاسی سرگرمیوں کو خیرباد کہہ دیا۔2008ء میں جمعیت دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ بعض ماہرین کے نزدیک یہ تقسیم نظریاتی ہے۔ تب مولانا حسین احمد مدنی کے فرزند، مولانا سید ارشد مدنی تنظیم کے صدر تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ تنظیم سیاست سے دور رہے لیکن ان کے بھتیجے اور جمعیت کے جنرل سیکرٹری، مولانا محمود مدنی سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ لینا چاہتے تھے۔

اسی فکری اختلاف کے باعث تنظیم دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ دیگر ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ تنظیم پر قبضے کی جنگ تھی جو چچا اور بھتیجے کے مابین ظہور پذیر ہوئی۔ فی الوقت مولانا ارشد مدنی ایک دھڑے کے صدر ہیں جبکہ دوسرے دھڑے کے صدر مولانا حسین احمد مدنی کے داماد، مولانا محمد عثمان منصور پوری ہیں۔ مولانا محمود مدنی دوسرے دھڑے کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ اس باہمی اختلاف سے جمعیت کے مقام و مرتبے کو بہرحال نقصان پہنچا۔مولانا محمود پاکستان میں  منفی شہرت رکھتے ہیں۔وجہ یہ کہ وہ وزیراعظم مودی کی پاکستان دشمن  اور کشمیر مخالف پالیسیوں کی توثیق کر چکے۔

حال ہی میں شدت پسندہندو تنظیم آر ایس ایس اور اس کے انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی کے حق میں بیانات دینے پر مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی، دونوں کو دیگر بھارتی مسلمان رہنماؤں اور دانشوروں کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ دونوں مولانا صاحبان ہندو اکثریت سے خوفزدہ ہوچکے اور اب وہ اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر مودی حکومت سے دوستانہ معاہدہ چاہتے ہیں۔تاہم بعض مسلم دانشور درج بالا بیانیے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا استدلال  ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی کے نظریے کی رو سے جیسے ریاست مدینہ میں یہود و مسلمان مل جل کر رہتے تھے، اسی طرح بھارت میں بھی ہندو اور مسلمان اکٹھے رہ سکتے ہیں۔

اس وقت آر ایس ایس اور نریندر مودی ہندو اکثریت کے رہنما بن چکے۔ اسی لیے دونوں مولانا صاحبان ان سے رجوع کررہے ہیں تاکہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین صلح صفائی ہوسکے اور امن پسندانہ ماحول جنم لے۔اسا نظریے کا تضاد یہ ہے کہ آر ایس ایس اور وزیراعظم مودی، دونوں بھارت کو ’’ہندو راشٹریہ‘‘ بنانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ سیکولر آئین ختم کرنے کے درپے ہیں۔ گویا آر ایس ایس کی ہندو ریاست میں مسلمانوں کو اکثریت جتنے حقوق حاصل نہیں ہوں گے اور انہیں کسی حد تک غلام بن کر رہنا ہوگا۔ مزید براں وزیراعظم مودی کی زیر قیادت آر ایس ایس کے کارکن مسلمانان بھارت پر جو خوفناک مظالم ڈھارہے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے ہندو مسلم امن کیونکر جنم لے سکتا ہے؟

ایک رپورٹ کی رو سے بھارت میں15 تا 20 فیصد  (ڈیرھ تا دو کروڑ)مسلمان دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ بقیہ مسلمان بریلوی اور دیگر مکاتب فکر سے منسلک ہیں۔ تاہم جمعیت علمائے ہند بھارت کی سب سے منظم تنظیم ہے۔یہ مساجد اور تعلیمی اداروں کا بہت بڑا نیٹ ورک چلارہی ہے۔کوئی قدرتی آفت آنے پر تنظیم کے رضاکارمسلمانوں اور غیر مسلنموں کی بھی مدد کرتے ہیں۔غریبوں کو مالی امداد دی جاتی ہے۔جمعیت سے منسلک وکیل عدالتوں میں بے گناہ مسلمانوں کے مقدمے لڑتے ہیں۔یتیم بچیوں کی شادیاں کرائی جاتی ہیں۔غرض تعیلم وسماجی بہبود کے میدان میں جمعیت خاصی سرگرم ہے۔ اس لیے آج بھی اسے بھارتی مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

اس ماہ جمعیت علمائے ہند اپنے قیام کی ایک سوویں سالگرہ منارہی ہے۔ پچھلی ایک صدی کے دوران اسے کامیابیاں ملیں اور ناکامیاں بھی! اب اس کے قائدین اور رہنماؤں کے کاندھوں پر یہ نہایت بھاری ذمہ داری آپڑی ہے کہ بھارتی مسلمان جن مشکلات و مصائب کا شکار ہیں، ان سے انہیں کیونکر نجات دلائی جائے۔ خاص طور پر ہندو اکثریت کے علاقوں میں آباد مسلمان تو اپنا تشخص و مذہب مٹ جانے کے خطرے سے دوچار ہوچکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔