منی مرگ کو جنت نظیر کہہ دینے سے بھی اِس کے حسن کا حق ادا نہیں ہوتا

محمد صدیق پراچہ  اتوار 17 نومبر 2019
یہاں کے فارسٹر کی تنخواہ صرف5ہزار روپے ہے، گلگت میں گزرے مہ و سال کا دلچسپ احوال۔

یہاں کے فارسٹر کی تنخواہ صرف5ہزار روپے ہے، گلگت میں گزرے مہ و سال کا دلچسپ احوال۔

(قسط نمبر9)

گلگت  بلتستان جانے والے خواہ گلگت کے رستے جائیں یا سکردو سے ہوکر،اُنہیں دیوسائی ضرور جانا چاہیئے تاکہ وہ زندگی کے ایک حیرت انگیز تجربہ سے آشنا سکیں۔بلاشبہ گلگت  بلتستان کی دیگر وادیاں بھی خوبصورت ہیں اور نوے فیصد سیاح گلگت  پہنچنے کے بعد ہنزہ کی طرف نکلتے ہیں اور خنجراب پاس تک جا کر واپس آجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے گلگت  بلتستان میں سب کچھ دیکھ لیا، حالانکہ اس طرح کے سفر میں چار پانچ دن میں وہ ہزاروں روپے خرچ کرنے کے باوجود دس فیصد علاقہ بھی پوری طرح نہیں دیکھ پاتے۔

بھلا ہو مستنصر حسین تارڑ صاحب کا جنہوں نے گلگت  بلتستان اور چترال کے ہر قابل ذکر مقام کی نہ صرف سیر کی بلکہ ایسے منفرد افسانوی سفر نامے تحریر کئے کہ ان علاقوں اور جگہوں کی شہرت اُردو زبان سمجھنے، بولنے اور پڑھنے والے اُن تمام لوگوں تک پہنچ گئی جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

دیوسائی دیکھنا، وہاں کی جنگلی حیات اور رنگ برنگے پھولوںسے لطف اندوز ہونے جیسے حیرت انگیز تجربے سے واپسی ہو یا کسی اور سفر سے گھر آنا ہو واپسی کا سفر سہل ہوتا ہے اور پلک جھپکتے میں گذر جاتا ہے۔ بڑا پانی سے چلم پہنچنے میں ہمیں نسبتاً کم وقت لگا۔ یہاں سے ہم نے ایک اور حیرت انگیز جگہ منی مرگ جانا تھا۔ جو چلم سے پنتیس کلو میٹر کے فاصلے پر4200میٹر بلند درہ برُزل کے اُس پار واقع ایک ایسی وادی ہے جسے جنت نظیر کہنا شاید اس کی خوبصورتی کے لئے ایک خراج تحسین تو ہو سکتا ہے لیکن یہ لفظ اپنے اس مفہوم کا پورا احاطہ نہیں کر پاتا۔ لیکن ذرا ٹھہریئے! ابھی ہم چلم میں ہیں اور منی مرگ جانا چاہتے ہیں۔ چلم چوکی پر تعینات فوجی سپاہیوں اور اُن کے نگران صوبیدارصاحب نے ہمیں بلا وجہ ایک گھنٹہ روکے رکھا۔ منی مرگ اور اس کے گردو نواح کے دیہات کے مقامی باشندوں کو بلا روک ٹوک آنے جانے کی اجازت ہے۔

ہم نے استور سے چلم کی طرف روانہ ہونے سے پہلے ڈپٹی کمشنر استور عمر چٹھہ سے اُن کے دفتر میں ملاقات کی تھی اور انہوں نے ہمیں منی مرگ جانے کا اجازت نامہ دیا تھا۔ جس کے حصول کی ضرورت کا تو ہمیں علم نہ تھا اور نہ ہی کسی نے بتایا تھا کہ چلم چوکی کا عملہ صرف ہم جیسے غیر مقامی سیاحوں کی گوشمالی کے لئے وہاں تعینات ہے۔ہم تو ڈپٹی کمشنر استور کے پاس منی مرگ کے کسی ریسٹ ہاؤس کی بکنگ کرانے گئے تھے۔ریسٹ ہاؤس تو خیر نہ مل سکا لیکن انہوں نے کمال مہربانی کرتے ہوئے اپنے عملے سے فوری طور پر منی مرگ جانے کا پر مٹ پرنٹ کروایا اور اپنے دستخط ثبت کرکے ہمارے حوالے کردیا۔

ہماری سمجھ میں اُس وقت نہیں آرہا تھا کہ اس پرمٹ کی کیا ضرورت تھی۔ اور یہاں چلم چوکی کے عملے کی باتیں سُن کر تو اس پرمٹ کو پھاڑ ڈالنے کو جی چاہ رہا تھا۔ یہاں کے عملے نے پرمٹ دیکھنے کی زحمت بھی نہ کی اور کہا کہ جب تک فورس کمانڈر ناردرن ایریاز گلگت کے دفتر کی طرف سے یا منی مرگ میں تعینات بریگیڈ ہیڈکوارٹر کی جانب سے کلیئرنس نہیں ملے گی ۔ہم آگے نہیں جا سکتے۔

دوپہر کا کھانا بڑا پانی دیوسائی میں کھانے اور نماز ظہر شیوسر جھیل کے کنارے ادا کرنے کے بعد ہمارا خیال تھا کہ ہمیں منی مرگ پہنچنے میں دو گھنٹے لگیں گے اور عصر کی نماز وہاں پڑھ سکیں گے لیکن۔۔ قربان جاؤںحضرت علی کرم اللہ وجہہ پہ جن کا قول ہے کہ’’ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے اللہ کو پہچانا‘‘ منی مرگ کو روشنی میں دیکھنا اور وہاں نماز عصر ادا کرنا اب محال تھا کیونکہ فوجی بھائیوں کی کج بحثی کے باعث عصر کا وقت نکلا جا رہا تھا۔ میں نے چوکی کے نگران صوبیدار سے وضو کرنے اور نماز پڑھنے کی جگہ کا پوچھا تو انہوں نے کمال مہربانی سے گارڈ روم کے پیچھے بنے ہوئے باتھ روم کی طرف اشارہ کیا۔ وضو کرکے نماز عصر ادا کی اور اللہ رب العزت سے آسانیاں فراہم کرنے کی دعا کی۔

یقیناًقبولیت کا وقت تھا کہ جونہی دعا سے فارغ ہوا وائر لیس پر چلم چوکی کے عملے کو ہدایت کی گئی کہ ریڈیو پاکستان گلگت کے عملے کو منی مرگ کی طرف مراجعت کرنے کی اجازت ہے۔ منی مرگ جانے والے راستے کو پگڈنڈی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ کیونکہ سڑک تو کب کی ٹوٹ پھوٹ چکی تھی۔درآں حالیکہ اس کی تعمیر نو کو ابھی سال بھی پورا نہیں ہوپایا تھا۔ اس کی حالت زار ٹھیکہ دار اور محکمہ تعمیرات کے عملے کے گٹھ جوڑ کی داستان سنا رہی تھی۔ چلم سے سترہ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد بُرزل ٹاپ آیا۔ یہاں بھی پاک فوج کا ایک یونٹ تعینات ہے۔

جغرافیائی اعتبار سے سطح سمندر سے 13500فٹ بلند بُرزل پاس، سرینگر سے گلگت اور سکردو کے درمیان سفر کرنے کا مختصر ترین راستہ ہے جو صدیوںسے مقامی آبادیوں ،یہاں تجارت کی غرض سے آنے والے تاجروں اور خانہ بدوش چرواہوںکے استعمال میں رہا۔اس راستے پر لوگ  پیدل ،خچروں، گدھوں اور گھوڑوں کے ذریعے سفر کرتے تھے۔1840ء میں راجہ گوہر امان کے ہاتھوں گلگت کا والی راجہ سکندر خان قتل ہوا جس کا چھوٹا بھائی کریم خان گور کا حاکم تھا۔ اپنے بھائی کے قتل کی اطلاع ملتے ہی کریم خان سرینگر چلا گیا اور وہاں کے حکمران سکھوں سے راجہ گوہر امان کے خلاف لڑنے کے لئے مدد مانگی جو سکھوں نے بخوشی مہیا کردی۔

ایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل سکھ فوج کرنل نتھے شاہ کی سرکردگی میں گلگت پہنچی تو خالصہ فوج اور راجہ گوہر امان کی فوج کے درمیان بسین کے مقام پر جنگ ہوئی جس میں سکھ فوج کا پلہ بھاری رہا اور راجہ گوہر امان واپس وادی یاسین چلا گیا۔گلگت کا انتظام کریم خان کے سپرد کردیا گیا تھا لیکن سکھ فوج کا ایک دستہ گلگت میں مقیم رہا۔کشمیر میں مہاراجہ گلاب سنگھ کی حکومت قائم ہونے کے بعد کرنل نتھے شاہ کو دوبارہ ملازمت میں لے کر مہاراجہ نے گلگت بھیجا تاکہ اس پر قبضہ کیا جا سکے۔ڈوگرہ فوج نے استور اور گلگت میں تعینات سکھ دستے کو فارغ کردیا اور نتھے شاہ کی سربراہی میں گلگت میں ڈوگرہ راج قائم کردیا گیا۔ نتھے شاہ کے ساتھ آنے والی فوج نے برزل پاس کا راستہ استعمال کیا تھا۔

گلگت  بلتستان پر اپنا حق جتاتا ہے۔ جبکہ گلگت  بلتستان کے باشندوں نے 1947ء میںڈوگرہ فوج اور مہاراجہ کشمیر کے قبضے کے خلاف مجتمع ہو کر جنگ آزادی لڑی اور کامیاب ہوئے۔اس اعتبار سے گلگت  بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ نتھی رکھنے کا نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ضرورت، یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ گلگت  بلتستان کو آئینی طور پر پاکستان میں کیوں نہیں شامل کیا گیا؟ بہرحال اس وقت حکومت پاکستان ،گلگت  بلتستان کوآئینی حیثیت دینے کی مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ گلگت  بلتستان کے عوام کسی بھی قیمت پر اپنی قسمت کو کشمیر کے ساتھ وابستہ کرنے کے لئے تیار نہیں ۔

خیر اس جملہ معترضہ کے بعد دوبارہ بُرزل ٹاپ جسے بُرزل پاس بھی کہا جاتا ہے، کا ذکر، جہاں سڑک کے کنارے 2002ء میں گر کر تباہ ہونے والے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کا ملبہ پڑا تھا۔ یہ بات بہرحال ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ تیرہ برس گذرنے کے باوجود اس تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کا ملبہ یہاں سے کیوں نہیں اُٹھوایا جارہا؟ بُرزل ٹاپ پر سخت سردی تھی اور تیز ہوا چل رہی تھی۔چیک پوسٹ پر حاضری بھرنے کے بعد آگے جانے کا اذن ملا تو ڈھلان کا سفر شروع ہوا۔سڑک کی حالت تو پہلے سے بھی گئی گذری تھی۔دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ چونکہ اس علاقے میں سال کے آٹھ مہینے برف پڑی رہتی ہے اس لئے سڑک سے برف ہٹانے بنانے کاکام بلڈوزر کرتے ہیں۔

ان بلڈوزروں کی زنجیر سڑک کو زخمی کر دیتی ہے اور تارکول اُدھڑ جاتا ہے۔بُرزل ٹاپ سے منی مرگ تک ساڑھے تین چار ہزار فٹ کی ڈھلان ہے۔فاصلہ کم ہونے کے باعث اس ڈھلان سے اُترنا انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔بالوں میں لگائی جانے والی پن جیسے درجنوں موڑ مڑنے پڑتے ہیں اور اٹھارہ کلو میٹر کے فاصلے کو انتہائی احتیاط سے طے کرنا پڑتا ہے۔منی مرگ پہنچے تو عشاء کا وقت ہو چلا تھا اور ساری بستی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔تمام دکانیں بند، ہوٹل ندارد، ضلعی انتظامیہ کے ریسٹ ہاؤس کی بکنگ ہو نہ سکی تھی۔اب جائیں تو کہاں جائیں؟

ہم لوگ بھی تو ایک دو نہیں بلکہ پورے تیرہ تھے۔ لے دے کے ہمارے پاس محکمہ جنگلات گلگت کے دفتر سے جاری شدہ ایک خط تھا جس میں مقامی فارسٹر سے کہا گیا تھا کہ وہ ریڈیوپاکستان گلگت کی ٹیم کے ساتھ ممکنہ تعاون کریں۔اب مسئلہ یہ تھا کہ اس اندھیرے میں اور مقامی لوگوں کی عدم موجودی میں محکمہ جنگلات کے دفتر کا سراغ کیسے لگایا جائے؟بجلی نہ ہونے کے باعث ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔یہ اور بات ہے کہ فوجی تنصیبات، سی ایم ایچ اور میس میں روشنی تھی۔ لیکن ہم وہاں جانے کا اذن نہیں رکھتے تھے۔ ہمارے ساتھ جتنے بھی لوگ تھے وہ بھی ہماری طرح پہلی بار منی مرگ آئے تھے۔ گھپ اندھیرے میںآبادی کا حدود اربع معلوم نہیں ہو رہا تھا۔مقامی باشندوں میں سے کوئی بھی فرد سڑک پر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔کیونکہ منی مرگ جیسے پہاڑی علاقوں میں عصر کے بعد دکانیں بند ہوجاتی ہیں اور لوگ اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔

سخت پریشانی کا عالم تھا کیونکہ واپسی کا راستہ بھی نہیں لیا جا سکتا تھا۔میں نے پھر دل ہی دل میں اللہ رب العزت سے دعا کی کہ آسانیاں عطا فرما۔ساتھ میں آیت کریمہ کا ورد کرتا رہا۔ بھوک، تھکن اور جھنجلاہٹ کی وجہ سے سب لوگ خاموش تھے۔ چلتے چلتے ایک چھوٹے سے ٹوٹے پھوٹے بورڈ پر گاڑی کی ہیڈ لائٹ میںنظر پڑی۔تو اُس پر محکمہ جنگلات کا مونو گرام دیکھ گاڑی کا رُخ اُس کی طرف کر دیا۔وہاں خوش قسمتی سے اس وقت بھی فارسٹرصاحب موجود تھے۔ انہوں نے اپنے کنزرویٹر کا خط پڑھا۔ تو اُ ن کے چہرے کے تاثرات کچھ نرم ہوئے۔انہوں نے مجھے اندر آنے اور بیٹھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ تو میں اندر آگیا۔ اب اُنہیں یہ معلوم نہیں تھا۔کہ میرے ساتھ بارہ دیگر افراد بھی ہیں۔

بہرحال خیمے میں اونٹ کے آنے کی دیر تھی کہ دونوں کمرے بھر گئے۔پھر میں نے اُنہیں بتایا کہ وہ پریشان نہ ہوں ہم اپنے بسترے اور کھانا ساتھ لے کر آئے ہیں۔ صرف سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔چولہا اور گیس کا سلنڈر بھی ہمارے پاس تھا۔ اب کھانا پکانے اور تیار ہونے کا مرحلہ تھا۔ معلوم ہوا کہ ریسٹ ہاؤس تعمیر ہوئے دو برس ہوچکے ہیں۔ لیکن اب تک اس میں پانی کا انتظام نہیں ہو سکا۔

فارسٹر صاحب کے پاس اپنے عملے کے چار افراد موجود تھے۔ انہوں نے دو جوانوں کو بالٹیاں دے کر پانی کے لئے دوڑایا۔چونکہ ہمیں روٹیوں کے نہ ملنے کی وجہ سے چلم میں تلخ تجربہ ہوچکا تھا اس لئے ہم نے چلم ہی سے چاول اور متعلقہ مصالحے خرید لئے تھے کہ منی مرگ میں روٹیوں کا جھنجھٹ نہ ہو۔ گلگت میں ذبح کئے ہوئے بکرے کا گوشت ابھی ہمارے پاس موجود تھا۔اب منی مرگ کا فارسٹ ریسٹ ہاؤس تھاا ورپلاؤ پکانے کی مہم، جس میں تیرہ کے تیرہ افراد شریک تھے کیونکہ بھوک سے سب کے پیٹ میں چوھے دوڑ رہے تھے۔ پلاؤ پکنے میں ابھی دیر تھی ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ منی مرگ کی ساڑھے نو ہزار فٹ کی بلندی میں جواں سال بکرے کے گوشت اور چاولوں کو گلانا ایک بڑی مہم سے کم نہ تھا۔

موسم بہت سرد تھا اور سردی میں بھوک بھی زیادہ لگتی ہے ۔اس حقیقت کے پیش نظر  بھوک سے بیتاب لوگوں کو خاموش کرنے کے لئے چائے تیار کی گئی اور بسکٹوں کے ساتھ پیش کی گئی۔ کھانا تیار ہو ا تو چائے اور بسکٹوں والے واقعے کو ڈیڑھ گھنٹہ گذرچکا تھا۔اور رات کے گیارہ بجنے کے قریب تھے۔سب پلاؤ پہ ٹوٹ پڑے اور بقول جوش ملیح آبادی کھاتے کھاتے ٹکڑے اُڑا دیئے۔پیٹ کی آگ سرد ہوئی تو نماز عشاء ادا کرنے کی فکر کی گئی۔ اور پھر وہی معمول کہ یہ عاجز سو گیا اور یار لوگ گانے بجانے میں مشغول ہوگئے۔صبح حسب معمول میں اپنی عادت کے مطابق فجر کے لئے اُٹھا۔

نماز ادا کی اور دیگر معمولات سے فارغ ہونے کے بعد ریسٹ ہاؤس سے باہر نکلا تو سورج کی روپہلی کرنیں منی مرگ کے پہاڑوں ، میدانوں، چراگاہوںاور جنگلوں پر اپنی روشنی پھیلا رہی تھیں۔فضا پر ایک سکون آمیز سکوت طاری تھا۔دور ایک پہاڑی ڈھلان پر گوجروں کے خیمے نصب تھے جن سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر چہل قدمی کرنے کے بعد میں ریسٹ ہاؤس کی طرف لوٹا اور سوتوں کو جگانے کی کوشش کی کیونکہ آج ہمیں گلگت پہنچنے کا طویل سفر در پیش تھا۔کچھ پروگرام بھی ریکارڈ کرنے تھے۔اس لئے سب کو جگایا اور ڈاکٹر شیردل خان پروڈیوسر کو ساتھ لے کر منی مرگ کے اکلوتے بازار کی طرف نکلا تاکہ ناشتے کے لئے نان، پراٹھے یا جو کچھ میسر ہو خریدا جا سکے۔

بازار کیا تھا چند بے ترتیب دکانیں تھیں۔ جن کے سامنے والے میدان میں فوجی گھوڑوں کا اصطبل تھا۔ ان گھوڑوں کے ساتھ خچر بھی بندھے ہوئے تھے۔پوچھنے پر بتایا گیا کہ گھوڑے تو پولو کھیلنے کے لئے رکھے گئے ہیں جبکہ خچر بار برداری کے کام آتے ہیں۔ یہ خچر دوردراز کی فوجی چوکیوں پر سامان رسد کی ترسیل کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔دکانوں میں کھانے پینے کی اشیاء اور استعمال کی معمولی چیزیں رکھی تھیں۔وہاں ایک ہوٹل سے پراٹھے پکوائے کیونکہ ناشتے کے لئے یہی دستیاب تھے۔اس ہوٹل میں چائے اور کھانا بھی ملتا تھا۔ ناشتہ کرنے والوں میں ایک نوجوان ندیم بھی تھا جو مقامی ٹھیکیدار تھا اور پی ٹی آئی کا سرگرم کارکن، وہ حال ہی میں منعقد ہونے والے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے

انتخابات میں استور کے اسی حلقے سے اُمیدوار بھی تھا۔اور ایک آزاد اُمیدوار سے شکست کھا چکا تھا۔ گلگت  بلتستان کی سیاست میں متحرک ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر شیر دل خان اُسے جانتا تھا۔میں نے مقامی حالات کے حوالے سے اُس کا انٹرویو لیا۔اسی بازار میں فاروق نامی ایک بکروال بھی موجود تھا۔ جوہر سال بھیڑ بکریوں کے ایک بڑے ریوڑ کے ہمراہ راولپنڈی سے آزاد کشمیر کے مختلف علاقوںمظفر آباد، کنڈل شاہی، اٹھمقام،نیلم، کیل اورتاؤبٹ کے جنگلات، وادیوں اور چرا گاہوں سے ہوتا ہوا منی مرگ کی چراہ گاہوں تک آتا اورسردیوں کے آغاز پر اسی راستے سے واپس جاتا ہے۔خانہ بدوش چرواہوں کی زندگی کے رنگ ڈھنگ شہروں میں آباد لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتے لیکن بہرحال یہ چرواہے بھی گھر بار رکھتے ہیں شادیاں کرتے اور بچے پیدا کرتے ہیں۔رزق کے وسیلے کے طور پر بھیڑ بکریاں پالتے اور انہیں بدلتے موسموں کی مناسبت سے اپنے ساتھ ساتھ لئے پھرتے ہیں۔

اپنی زندگی اور طرز حیات سے مطمئن فاروق کی دلچسپ گفتگو سے پتہ چلتا تھا کہ ان اونچے نیچے پہاڑی راستوں پر اپنی زندگی کے ماہ وسال گذارتے ہوئے بھی اُسے جدید دور کے تمام تقاضوں سے پوری طرح آگاہی ہے۔اُس کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر قائم تمام پاکستانی اور بھارتی فوجی چوکیوں میں تعینات افسر اور جوان چرواہوں سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ خانہ بدوش چرواہوں سے تعرض نہیں کرتے۔سینکڑوں بھیڑ بکریوں پر مشتمل ریوڑ کی دیکھ بھال کے لئے گھر والوں کے ہمراہ کتے بھی ہوتے ہیں جو جنگلی جانوروں سے ریوڑ کو محفوظ رکھتے اور بھیڑ بکریوں کو ادھر اُدھر بھٹکنے سے بچاتے ہیں۔جتنی دیر میں پنتیس پراٹھے تیار ہوئے ۔میں دو انٹرویو کر چکا تھا۔مقامی باشندوں کی مشکلات بھری زندگی دیکھ کر ہر لمحہ رب العزت کا شکر ادا کرنے کی تحریک ملتی تھی۔جنہیں معمولی بیماریوں کے لئے بھی نہ تو ڈاکٹر کی سہولت میسر ہے ا ور نہ پوری ضروریات زندگی دستیاب ہیں۔

جس طرح سے منی مرگ کے سکولوں میں اساتذہ نام کی مخلوق عنقا تھی اسی طرح سے ڈسپنسریوں اور دیہی طبی مراکز صحت میں ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ بھی موجود نہ تھا۔لے دے کے ایک فوجی ہسپتال ہے۔ جس میں متعین ڈاکٹر مقامی آبادی کی طبی ضروریات پوری کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ کسی سنگین بیماری یا حادثے کی صورت میں مریضوں کو فوجی ہیلی کاپٹر میں استور یا گلگت کے ہسپتالوں تک بھی پہنچایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے فوج اور منی مرگ اور اس کے گرد ونواح کے علاقوں کی آبادی کا باہمی تعاون مثالی ہے۔

ریسٹ ہاؤ س لوٹ کر ناشتہ تیار کرایا اور گلگت روانگی کے لئے کمر باندھی۔اُس وقت تک دن خاصا چڑھ چکا تھا لیکن منی مرگ بازار میں کھانے پینے کی چند دکانوں کے علاوہ سارا بازار بند تھا۔ اور پورے ماحول پر ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔منی مرگ اور اس کے گردونواح کے جنگل طبی جڑی بوٹیوں کی پیداوار کے لئے معروف ہیں۔یہاں کے پہاڑوں اور وادیوں میں میلوں پر پھیلے جنگلات کی دیکھ بھال کے لئے محکمہ جنگلات نے ایک فارسٹرکو تعینات کر رکھا ہے۔اور کوئی عملہ نہیں ہے۔ چھ مقامی افرادکو عارضی طور پر فارسٹ گارڈ کے طور پرملازمت دی گئی ہے جنہیں پانچ ہزار روپے فی کس تنخواہ ملتی ہے۔وفاقی حکومت کی طرف سے کم سے کم اجرت تیرہ ہزار روپے ماہوار (2015)مقرر کی جا چکی ہے۔ لیکن شاید محکمہ جنگلات گلگت  بلتستان کے حکام اس حکم سے لاعلم ہیں۔اور اگر یہ اُن کے علم میں ہے اور یقینناً ہے۔ تو وہ ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

منی مرگ میں لڑکیوں کے لئے مڈل تک اور لڑکوں کے لئے میٹرک تک سرکاری سکول کی سہولت موجود تو ہے لیکن اساتذہ کی کمی کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ کیونکہ منی مرگ سے باہر کا کوئی بھی استاد یہاں آکر پڑھانے کا کشٹ نہیں اُٹھاتا۔جیسے تیسے کرکے میٹرک کرنے والے بچوں کے والدین اگر انہیں آگے پڑھانا چاہیں تو اُن کے لئے سوائے اس کوئی چارہ کار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کو استور یا گلگت بھیجیں جہاں تعلیم اور نجی طور پر ہوسٹلوں میں رہنے کے کمر توڑ اخراجات والدین کی برداشت سے باہر ہوتے ہیں۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں کی تعلیم کی خاطر منی مرگ، قمری اور گردونواح کے علاقوں سے استور اور گلگت منتقل ہوچکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ منی مرگ سمٹا سکڑا ہوا قصبہ لگتا ہے جسے کسی آسیب نے گھیر رکھا ہو۔گلگت اوردیگر کئی شہروں میں ہو ٹلوں،ریسٹورنٹوں اور تنور وں پر کام کرنے والوں کی اکثریت منی مرگ اور یہاں کی دیگر بستیوں رتھک، مپنوں آباد، پُشواڑی، گھشاٹ، قمری، بنگلہ بند، زیان، دودگئی، نگئی، دومیل، کلشئی اور ٹٹویل سے تعلق رکھتی ہے۔

بھاری تعداد میں نوجوانوں کی نقل مکانی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔لوگ کریں تو کیا کریں؟منی مرگ کے فارسٹ ریسٹ ہاؤس سے نکلنے کے بعد جب ہم روانہ ہونے لگے تو راستے میں چند نوجوانوں کو ایک دکان سے باہر برآمدے میں کھڑے دیکھا۔میں نے گاڑی رکوالی اور اُن سے بات چیت کرنے کے لئے اُتر گیا۔اُن کی آنکھوں میں جو حسرتیں،تمنائیں،آرزوئیںاور ناآسودہ خواہشیں منجمد تھیں۔دنیا کا کوئی کیمرہ اُن کی صحیح عکاسی نہیں کرسکتا۔اگرچہ منی مرگ لائن آف کنٹرول کے نزدیک واقع ہے لیکن وہاںبنیادی ضروریات بہم پہنچانے سے حکومت کو کس نے روکا ہے؟

اگر وہاں خود رو جڑی بوٹیوں کی شناخت،چھان پھٹک اور اُن سے ادویات تیار کرنے کے دو تین کارخانے لگا دیئے جائیں تو نہ صرف اس علاقے کے لوگوں کو روزگار کے مواقع مل سکیں گے بلکہ کروڑوں روپے کی جو جڑی بوٹیاں ہر سال یہاں کے جنگلات سے چوری چھپے اکھاڑ کر راولپنڈی،لاہوراور دیگر بڑے شہروں میں فروخت کے لئے لائی جاتی ہیں اُن سے ادویات تیار کرکے اور اُن کی صنعتی بنیادوں پر کاشت بڑھا کر ایک انقلاب بپا کیا جا سکتا ہے۔جس فارسٹ ریسٹ ہاؤس میں ہم ایک رات کے لئے ٹھہرے تھے۔اُس کا ایک کمرہ ضبط شدہ جڑی بوٹیوں سے اٹا ہوا تھا۔کچھ عرصہ کے بعد یہ جڑی بوٹیاں پڑے  پڑے مٹی ہو جائیں گی یا سوکھ کر دیمک کی نظر ہو جائیں گی۔

ایک فارسٹر اور پانچ جزوقتی فارسٹ گارڈز ایک وسیع و عریض پہاڑی علاقے میں پھیلے ہوئے سبزہ زاروں، جنگلات،چراگاہوں اور چشموں، آبشاروں،نالوں اور دریاؤں کے کنارے اُگنے والی خود رو جڑی بوٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ یہاں پیدا ہونے والی چند جڑی بوٹیوںکے نام یہ ہیں۔اتیس ،اسپغول،اسپند ،افسنتین ،السی،بادر نجبویہ ،باقلہ، بچھو بوٹی،اجوائن خراسانی،تالیس پتر،ترنبہ تلخ، ترنبہ شیریں، تلسی، خارسگ،خشخاش،ریشہ خطمی،ریوند چینی،زخم حیات،زیرہ سیاہ، سورنجان تلخ،ثعلب مصری،طلسمی بوٹی،کاسنی،کٹھ، گاؤزبان، میتھی، ناگر موتھااور ہینگ،کسی پنساری کے پاس جائیں تو ان بوٹیوں کے دس گرام وزن کی قیمت بیس پچیس روپے سے پانچ سو روپے تک طلب کر لیتے ہیں۔یہاں سے منوں کے حساب سے یہ بوٹیاں ہر سال لے جائی جاتی ہیں۔اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

اس پورے علاقے کی آبادی کم و بیش آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔اس علاقے کا واحد رابطہ بُرزل پاس کے ذریعے پاکستان کے دیگر علاقوں سے قائم ہے۔پوری وادی اور بُرزل پاس کا راستہ اکتوبر سے اپریل تک تقریباً بند ہی رہتا ہے کیونکہ یہاںپڑنے والی برف کی وجہ سے آمدورفت ممکن نہیں رہتی۔یوں اس علاقے کے مکینوں کو سات ماہ تک یہیں اپنے گھروں تک محدودرہنا پڑتا ہے۔مظفر آباد کو گلگت سے ملانے کے منصوبے کئی بار بنائے گئے لیکن انہیں عملی جامہ پہنانے کی نوبت تا حال نہیں آسکی ہے۔اگر ایسا ہوگیا تو پھر ان علاقوں کی قسمت بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ کیونکہ بُرزل پاس کے دونوں طرف سڑک کو بہتر کئے بغیر گلگت مظفرآباد شاہراہ کی تکمیل نہیں ہوسکے گی۔انٹرویو دینے والے ایک شہری نے بتا یا کہ کچھ عرصہ پہلے یہاں ایک اعلی افسر کی اہلیہ نے دورہ کیا تھا۔اس دورے کو یادگار بنانے کے لئے بیگم صاحبہ ایک دستکاری سکول کا افتتاح کرنا چاہتی تھیں۔

اُن کی اس خواہش کے پیش نظر مقامی حکام نے ایک سرکاری مڈل سکول کی عمارت اپنی تحویل میں لی۔(اس سکول میں ڈھائی سو طلبہ زیر تعلیم تھے) سکول میں تعینات ہیڈماسٹر کو بیک جنبش دو بینی وہاں سے چلتا کیااور راتوں رات دستکاری سکول بنا کر کچھ سلائی مشینیں رکھ دی گئیں اور محترمہ سے فیتہ کٹوا کر دورے کو یادگار بنا دیا گیا۔اب یہ ڈھائی سو بچے جن میں سے اکثریت کے پاس موسم کی شدت کی مناسبت سے پہننے کے پورے کپڑے بھی نہیں ہوتے۔اور بعض بچوں کے پاؤں جوتوں سے محروم ہوتے ہیں۔

کھلے آسمان تلے بیٹھ کر زیور تعلیم سے آراستہ کئے جا رہے ہیں۔نو ساڑھے نو ہزار فٹ بلند قصبہ منی مرگ، جہاں گرمیوں کے موسم میں بھی سردی رہتی ہے وہاں قوم کے معمار کھلے آسمان کے نیچے ننگی زمین پر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔کیا ان بچوں کا قصور یہ ہے کہ وہ منی مرگ میں اپنے والدین کے ہاں اس دنیا میں آئے۔ وہ اپنے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے۔وہ عوام کے اُس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں ایک وقت کھانا میسر آتا ہے تو دوسرے وقت کا معلوم نہیں ہوتا کہ کھانا ملے گا بھی یا نہیں۔

خوبصورت ترین علاقہ ،جہاں روزگار کے مواقع نہیں ہیں جہاں صبح سے شام کرنا اور پھر شام سے صبح کرنا ایک بڑی مہم سے کم نہیں۔وہاںاپنے سکول کی چھت سے محروم یہ بچے بڑے ہوکر کیا بنیں گے اور کیا سوچیں گے۔یہ سوال سکول کی عمارت خالی کرانے والوں کے لئے چھوڑتا ہوں۔گلگت پہنچنے کے بعد میں نے اپنے پروڈیوسرز کے ذریعے سکریٹری جنگلات اور تعلیم کو منی مرگ میں صورت حال بتائی اور اُن کے موقف ریکارڈ کرکے نشر کئے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔