کشمیر کی بیٹیاں۔۔۔جن کی آنکھوں میں خوف نہیں

محمد عثمان جامعی  اتوار 17 نومبر 2019
سڑکوں پر احتجاج سے پولیس کا راستہ روکنے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے تک جدوجہد آزادی میں مصروف کشمیری خواتین۔

سڑکوں پر احتجاج سے پولیس کا راستہ روکنے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے تک جدوجہد آزادی میں مصروف کشمیری خواتین۔

’’مجھے جانے دو، میری دوسال کی بیٹی بھوکی ہوگی، مجھے اُسے دودھ پلانا ہے‘‘

رابعہ ایس ایچ اور کے سامنے باربار گڑگڑا کر یہ الفاظ دہرا رہی ہے، مرد قیدیوں سے بھرے کمرے میں اسیر اس ماں کو جواب ملتا ہے:

’’پریشان مت ہو، اگر تمھاری بچی مر گئی تو وہ اس کی لاش یہیں لے آئیں گے۔‘‘

مقبوضہ کشمیر میں یہ اور اس سے بھی خوف ناک مناظر روز ابھرتے اور ڈوبتے ہیں۔ بھارتی حکومت، فوج اور دیگر سرکاری اہل کاروں کے کشمیریوں پر ظلم اور سفاکی کہانی کے ساتھ سرزمین کشمیر پر عزم وہمت کی داستان بھی رقم ہورہی ہے، مردوں کے سخت ہاتھوں ہی سے نہیں عورتوں کی نرم انگلیوں سے بھی۔ کشمیر کی بیٹیاں خاموشی سے آنسو بہاکر ظلم نہیں سہہ رہیں، وہ اس ظلم کے خلاف اور اپنی آزادی کے لیے پوری جرأت کے ساتھ میدان میں ہیں، رابعہ کی طرح۔ جنھیں اپنے شیرخوار بچوں کی محبت دلیرانہ جدوجہد سے باز نہیں رکھ پارہی انھیں خوں خوار بھارتی سرکار کیا روک پائے گی۔

کشمیری خواتین کی ہمت اور بہادری کا قصہ چھیڑنے سے پہلے ان کے دُکھ درد کا بیان ہوجائے۔

انسانی المیے ہمیشہ سے ایک صنفی پہلو بھی رکھتے ہیں۔ خاص طور پر جنگ اور تشدد سے متعلق المیے عورتوں اور بچوں پر قیامت گزرنے کا سانحہ بھی لیے ہوتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی یہی ہورہا ہے۔ بھارتی فوج وادی کشمیر میں عصمت دری کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔ کشمیر میں تعینات بھاری فوجیوں کو AFSPA کے کالے قانون کی چھترچھاؤں حاصل ہے، جس کی وجہ سے انھیں خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔ اس قانون کے باعث کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے پر مامور بھارتی فوجیوں کے کسی ظلم پر عدالت سے رجوع نہیں کیا جاسکتا۔ اس کالے قانون کو بھارتی فوجی جن مظالم کے لیے استعمال کر رہے ہیں ان میں زنابالجبر سرفہرست ہے۔ 23 فروری 1991 کو کشمیری دیہات کونان اور پوش پورہ میں بھارتی فوجیوں نے بڑی تعداد میں خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ متاثرین پچیس سال تک اس درندگی پر احتجاج اور عدالتی شنوانی کی جدوجہد کرتے رہے، لیکن ’’مہان بھارت ماتا‘‘ آنکھیں اور کان بند کیے رہی۔ آخر 2017 میں عدالت نے اس معاملے کو سماعت کے قابل قرار دیا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جنسی زیادتی کشمیری خواتین کی الم ناک زندگی کا خوف ناک ترین، مگر صرف ایک پہلو ہے۔ دیگر عوامل بھی ان کے روزوشب کو کرب ناک بنائے ہوئے ہیں۔

کشمیر بنا کسی مرد کے زندگی کرتی خواتین سے بھرا ہوا ہے۔ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جنھیں ’’نصف بیوہ‘‘ کہا جاتا ہے، کہ ان کے شوہر عرصے سے لاپتا ہیں۔ یہ عورتیں اپنے گھرانوں کی واحد کفیل ہیں۔ وادی میں تین ماہ سے نافذ کرفیو ان عورتوں کی زندگی پر براہ راست اثرانداز ہورہا ہے۔ نہ وہ اپنی تیار کردہ اشیاء بیچنے بازار جاسکتی ہیں نہ ہی گاہک ان تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ مورخ اور مصنف اُرواشی بٹالیہ اس خدشے کا اظہار کرتی ہیں کہ ہندوتوا کی علم بردار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے اقدامات کے باعث بہ طور ردعمل جموں وکشمیر میں اسلامی شدت پسندی جنم لے گی جس کے اثرات عورتوں پر مرتب ہوں گے۔

مشکلات کا سامنا کرنے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی خواتین آزادی کے لیے بے مثال قربانیاں دے رہی ہیں۔ ’’آزادی کی تحریک میں ہم اپنے مَردوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ آزادی کے حصول تک ہم نہیں رُکیں گی۔‘‘ ایک سترہ سالہ لڑکی کے یہ الفاظ محض لفظ نہیں، یہ جذبہ کشمیری عورتوں کے عمل میں بول رہا ہے۔ وہ مزاحمت کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ کشمیر کی تحریک آزادی میں خواتین فعال کردار ادا کرتی آئی ہیں، لیکن بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے خلاف جنم لینے والی مزاحمت میں ان کا کردار بہت نمایاں ہے۔ وہ مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں، جلوسوں میں تعداد کے اعتبار سے ان کی شرکت بڑی واضح ہوتی ہے، یہی نہیں وہ جموں وکشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات دلانے کے لیے سرگرم عسکری تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں۔

اس سال 5 اگست کو جب مودی سرکار نے کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے ریاست کی خودمختار آئینی حیثیت کا خاتمہ کیا تو کشمیری سرتاپا احتجاج بن گئے۔ اس ظلم اور ریاستی بددیانتی کے خلاف عورتوں نے بہت بڑی تعداد میں سڑکوں پر آکر احتجاج کیا۔

ترکی کے سرکاری ٹی وی چینل ’’ٹی آر ٹی ورلڈ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹی آر ٹی کے نمائندوں نے کچھ دنوں قبل سری نگر میں چند خاتون مظاہرین سے ملاقات اور گفتگو کی۔ یہ گفتگو کشمیر کی بیٹیوں کے عزم کی عکاس ہے۔ سری نگر کے علاقے سورا کی باسی مہ جبیں نے کہا،’’اب جب کہ میں ایک جلوس میں شامل ہوں ہماری آزادی کے سوا میں کچھ نہیں سوچ سکتی۔ ہمارے جذبات عروج پر ہیں۔ ہم مشکل ہی سے پیلیٹ گن یا گولی کی فکر کرتے ہیں۔‘‘

جیسے جلوس میں مہ جبیں شریک تھیں ایسا ہی ایک احتجاجی جلوس 5 اگست کو بھی ایک گاؤں فضل پورہ اور باندی پورہ سے نکالا گیا تھا، جس میں خواتین شرکاء نے نمایاں تعداد میں شرکت کی تھی۔ جلوس نکالنے اور احتجاج کرنے کی پاداش میں پولیس نے سری نگر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر متعدد مردوں اور ایک خاتون کو گرفتار کر لیا تھا۔ سری نگر کے علاقے سورا میں لوگوں نے رکاوٹیں کھڑی کرکے اور سڑک کھود کر پولیس کا راستہ روک دیا تھا۔ پولیس پر نظر رکھنے کے لیے لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی علاقے میں گشت کرتی رہی تھیں۔

’’یہ ہم عورتیں تھیں جنھوں نے مردوں کو آئیڈیا دیا تھا کہ داخلی راستہ کیسے بند کرنا ہے۔ (اس مقصد کے لیے) ہم نے چھوٹے اور بڑے پتھر، تختے، ٹین کی چادریں ایک دوسرے کے ہاتھوں (رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے) پہنچائیں۔‘‘ اس علاقے کی ایک رہائشی عورت نے فخریہ انداز میں بتایا۔ جمعے کے احتجاج کے لیے پوسٹر تیار کرتی نوجوان خاتون ریحانہ نے، جو اُستانی ہیں، ٹی آرٹی کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’ہماری لڑائی آرٹیکل 370 سے بہت بڑی ہے۔ ہم کشمیر کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اور جب تک یہ حاصل نہیں ہوجاتی لڑتے رہیں گے۔ چاہے کتنے ہی مہینے اور سال لگ جائیں۔‘‘ وہاں موجود عورتیں ہر خوف سے بے نیاز ہوکر بھارت کے خلاف نعرے لگا رہی تھیں۔ نماز جمعہ کے وقت جب عورتیں مقامی مسجد کے خواتین کے لیے مختص حصے میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے جمع تھیں، ایک عورت نے زوردار آواز میں ’’ہم آزادی چاہتے ہیں‘‘ کا نعرہ لگایا۔ ’’یہاں موجود خواتین کسی بھی عمر کی ہوں، ان کی آنکھوں میں ذرا بھی خوف نہیں تھا۔‘‘

نماز جمعہ کے بعد ہونے والا مظاہرہ مکمل طور پر پُرامن تھا، لیکن جب پولیس نے مظاہرین پر چھرے برساکر انھیں منتشر کرنے کی کوشش کی تو خواتین بھڑک اُٹھیں اور انھوں نے ہاتھوں میں پتھر اُٹھالیے۔ اس سے پہلے کہ وہ پولیس پر پتھر برساتیں اطلاع ملی کے پولیس نے بستی کے کچھ نوجوانوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ انھوں نے پتھر پھینکے اور پولیس کا تعاقب شروع کردیا۔

دوسری طرف بستی میں امینہ جان پیلیٹ گنوں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والوں کی مرہم پٹی میں مصروف تھی۔ ایک اور خاتون پانی، پٹیاں اور مختلف طبی آلات پکڑا کر اس کی مدد کر رہی تھی۔

پولیس کی انتقامی کارروائیوں سے بچنے کے لیے زخمی اسپتالوں کا رخ نہیں کرتے، پھر پولیس نے اس علاقے کے باسیوں کو اجتماعی سزا دینے کے لیے ایمبولینسوں کو یہاں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔

اور اب ذکر رابعہ کا، وہی جس کی دو سالہ بچی گھر میں بھوک سے بلک رہی تھی اور وہ پولیس کی قید میں تھی۔ خود پر بیتنے والے ان کرب ناک لمحوں کے باوجود وہ نہ ڈری نہ آزادی کی جنگ میں اپنا حصہ ڈالنے سے دست بردار ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہے،’’ہماری آزادی اور عزت ووقار سے بڑھ کر کچھ نہیں۔‘‘

جس روز رابعہ پولیس کی حراست میں اذیت جھیل رہی تھی، اسی دن ایک اور خاتون ثریا کو بھی دو گھنٹے کے لیے قید میں رکھا گیا۔ وہ کہتی ہے کہ اسے اپنے مقید بہنوئی سے ملاقات کی کوشش پر یہ سزا دی گئی۔ گویا مقبوضہ کشمیر میں کسی اسیر سے ملاقات کی خواہش کرنا بھی گناہ ہے۔

بھارتی فوج کے درندوں سے جان محفوظ ہے نہ عزت، مودی کی ہندوانتہاپسند حکومت کشمیریوں کو کچل دینے پر تُلی ہے، وادی میں ظلم وزیادتی عروج پر ہے، لیکن دنیا خاموش تماشائی بنی اس ’’مودی نازیت‘‘ اور ’’ہندو صیہونیت‘‘ کو روکنے کے لیے کسی عملی اقدام سے گریزاں ہے۔ مایوسی کے ان اندھیروں میں بھی دختران کشمیر کی ہمت اور استقامت پورے قد سے کھڑی ہے۔ حریت کی جدوجہد میں ان کا کردار کم ہونے کے بہ جائے بڑھا ہے۔ ان کے دلوں میں بھڑکتی آگ اور آنکھوں میں جلتے چراغ امید کی وہ کرنیں ہیں جو پوری وادی میں اجالا بن کے پھیلیں گی۔

آہنی حوصلے والی آہی گر

یوں تو کشمیر کی ہر عورت آہنی عزم وارادے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر رہی ہیں مگر پروینہ آہنگر کو ’’کشمیر کی آہنی عورت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا سبب بھارتی فوج کے ہاتھوں اپنے بیٹے کی گم شدگی کے خلاف ان کا طویل اور مسلسل احتجاج ہے، جسے 1990میں لاپتا کیا گیا تھا۔ ان کا احتجاج اپنے لخت جگر کے معاملے تک محدود نہیں ان کے دل میں کشمیر کے ہر گم ہوجانے والے بیٹے کا درد ہے، چناں چہ انھوں نے 1994سے ’’Association of Parents of Disappeared Persons‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کر رکھی ہے۔ پروینہ کو رواں سال بی بی سی کی ’’دنیا کی100مُتاثرکُن ترین خواتین‘‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ پچاس سالہ پروینہ پچیس سال سے گم شدہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کردہ اپنی تنظیم کی قیادت کر رہی ہیں، جسے اقوام متحدہ کی معاونت حاصل ہے۔ ان کی تنظیم جبری گم شدگیوں کے خلاف دو عشروں سے دھرنے دے کر ان کی بازیابی اور مقبوضہ کشمیر میں جبراً لاپتا کردینے کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

پروینہ اپنے مثالی جدوجہد کی بنا پر ناروے کے ریفٹوپرائز سمیت کئی اعزازات حاصل کرچکی ہیں۔ 2015 میں انھیں امن کے نوبیل انعام کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔ پروینہ آہنگر کی تنظیم کو بھارتی ٹی وی چینل ’’سی این این آئی بی این‘‘ نے بھی اپنے ’’انڈین آف دی ایئرایوارڈ‘‘ کے لیے نام زد کیا تھا، لیکن تنظیم نے بھارتی میڈیا کی فریب کاریوں کے باعث اپنی نام زدگی کو مسترد کردیا تھا۔ یوں اس تنظیم نے اس ایوارڈ کو رد کرتے ہوئے بھارتی میڈیا کی منافقت کا پردہ چاک کردیا تھا۔ اپنی تعریف کے مطابق یہ اعزاز ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو کسی سال ’’ہمارے سماج کی بنیاد مضبوط کرنے میں حصہ لیں اور (عالمی سطح پر) برانڈانڈیا کی تعمیر میں مددگار ثابت ہوں۔‘‘ پروینہ آہنگر کی تنظیم کا موقف تھا کہ انصاف اور احتساب کے لیے ہماری جدوجہد ’’برانڈانڈیا‘‘ کی تعمیر کے لیے نہیں بلکہ برانڈانڈیا اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کی زندگیاں اور حقوق روند ڈالنے پر سوال اٹھانے اور اسے چیلینج کرنے پر مبنی ہے۔

ان کے بیٹے جاوید احمد کو جب گم شدہ کیا گیا تو وہ گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ کہتی ہیں،’’جب میں نے اس کے اغوا ہونے کا سُنا تو سوچا وہ جلد رہا ہوکر گھر واپس آجائے گا، لیکن تب سے اب تک میں انتظار کر رہی ہوں۔ اب میرا انتظار اس (کی عمر) کے ستائیسویں سال میں داخل ہوچکا ہے۔‘‘

اپنے بیٹے کے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اغوا ہونے کی خبر سُن کر پروینہ نے پولیس سے رابطہ کرکے شکایت درج کرائی۔ وہ کہتی ہیں کہ پولیس نے یقین دہانی کرائی کہ جاوید جلد واپس آجائے گا۔ آخر اس واقعے کے نو دن بعد بھی ان کا بیٹا واپس نہ آیا تو انھیں اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ پولیس بے اختیار ہے، اور انھوں نے آنسو پونچھ کر احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا۔

1991میں انھوں نے بھارتی فوج کے خلاف اور اپنے لاپتا بیٹے کے بارے میں یہ جاننے کے لیے جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ ہر دروازے سے اور باربار مایوس ہونے کے بعد ان کا یقین بھارت کے نظام انصاف سے اٹھ گیا۔ پروینہ کہتی ہیں ’’وہ سب جھوٹ بول رہے تھے۔‘‘

اپنے بیٹے کی تلاش میں اور احتجاجی مہم کے دوران پروین آہن گر نے فوج کے کیمپوں کے متعدد دورے کیے۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کا واسطہ ایسے بے شمار لوگوں سے پڑا جن کی کہانیاں پروینہ کی کہانی جیسی تھیں۔ وہ کہتی ہیں،’’ان دوروں میں مجھے خیال آیا کہ اگر ہم ایک ساتھ اپنی لڑائی لڑیں تو یہ نتیجہ خیز نکلے گی۔ چناں چہ میں نے ایسے خاندانوں کو ڈھونڈنا شروع کردیا جن کا کوئی پیارا لاپتا کردیا گیا تھا۔‘‘ یہ جستجو گم شدہ افراد کے والدین کی تنظیم کے قیام پر منتج ہوئی، جو پچیس سال سے جموں وکشمیر کی عدالت عالیہ کے دروازے پر دھرنے دے کر احتجاج کر رہی ہے، لیکن گم شدہ افراد کی طرح مقبوضہ کشمیر میں عدل وانصاف بھی لاپتا ہوچکا ہے۔

پروینہ آہنگر بھارتی ریاست اور اس کے اداروں سے تو مایوس ہیں مگر اپنی جدوجہد سے نہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ جب تک زندہ ہیں انصاف کی جنگ جاری رکھیں گی۔

[email protected]

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔