کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 17 نومبر 2019
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے فوٹو: فائل

غزل

دیکھ یہ کیا کیا اُداسی میں

کھودیا حوصلہ اُداسی میں

آنکھ تجھ سے ہٹی تو سب منظر

کھوگئے بخدا اُداسی میں

جا کے دریا ملا سمندر سے

دشت پھرتا رہا اُداسی میں

کیا اذیت ہے تو نہ سمجھے گا

کھوکھلا قہقہہ اُداسی میں

گرد ٹھہری تھی آئینے میں کہیں

زرد چہرا ہوا اُداسی میں

اور کرتا بھی کیا بھلا راشد؟

شعر پڑھتا رہا اُداسی میں

(راشد علی مرکھیانی ۔کراچی)

غزل

لوگ آئے ہی نہیں مجھ کو میسر ایسے

جو مجھے کہتے کہ ایسے نہیں ازبر ایسے

تیز دوڑا کے اچانک میری رسی کھینچی

اس نے سمجھایا مجھے لگتی ہے ٹھوکر ایسے

آنکھ کھلنے پہ جو اٹھتا ہوں تو چکراتا ہوں

کون دیتا ہے مجھے خواب میں چکر ایسے

کوئی تو ہوتا جو سینے سے لگا کر کہتا

بات تھی‘ بات کو لیتے نہیں دل پر ایسے

کس نے سوچا تھاکہ کمروں میں فقط چپ ہوگی

کس نے سوچا تھا کہ گزرے گا ستمبر ایسے

ہائے آخر میں وہی حادثہ پیش آیا سفیر

ہمیں کہنا پڑا لکھے تھے مقدر ایسے

(ازبر سفیر۔ پھلرواں، سرگودھا)

غزل

دوستوں کو بہم نہیں ہوتا

آدمی محترم نہیں ہوتا

میرے پندار کا تقاضا ہے

سرِ تسلیم خم نہیں ہوتا

موت نے بارہا تسلی دی

خوف جینے کا کم نہیں ہوتا

سرحدیں ہیں زمین کی قسمت

آسماں منقسم نہیں ہوتا

سب کو جینے کا غم تو ہوتا ہے

سب کو مرنے کا غم نہیں ہوتا

اس پہ آنکھیں نکالتے ہیں سبھی

جس کے بازو میں دم نہیں ہوتا

بے دھڑک آئیے گلے ملیے

سب کی جیکٹ میں بم نہیں ہوتا

آشنا دھوپ سے نہیں جو امر

ایسی مٹی میں نم نہیں ہوتا

(امر روحانی ۔ملتان)

غزل

ہمنوائی کے دکھ، بے نوائی کے دکھ

کیا بتائیں تمہیں دلربائی کے دکھ

خوف، ویرانیاں، تلخیاں، بے بسی

سب کے سب پیار کی ہیں کمائی کے دکھ

تم نہ جانو گے پھیکی ہتھیلی ہے کیا

تم نہ سمجھو گے سونی کلائی کے دکھ

یہ ستم ہے وہی بے وفائی کرے

جس نے جھیلے ہوں خود بے وفائی کے دکھ

گو زلیخا ہوں پھر بھی سمجھتی ہوں میں

مرے یوسف تری پارسائی کے دکھ

معجزہ ، معجزہ ، اے خدا معجزہ

مار ڈالیں گے ورنہ جدائی کے دکھ

دکھ سے ثروت ہے رشتہ مرا خون کا

لکھتی رہتی ہوں ساری خدائی کے دکھ

(ثروت مختار ۔ بھکر)

غزل

مجھ پہ ہے تیری عنایت چارہ گر

کیوں کروں تیری شکایت چارہ گر

دل تمہاری بات کرتا ہے سدا

ذہن کرتا ہے ملامت چارہ گر

آؤ، پڑھاؤ نمازِ عشق تم

سونپ دی تم کو امامت چارہ گر

مر ہی جائے گا مریضِ عشق بھی

سہہ نہ پائے گا علالت چارہ گر

موت برحق ہے تمہارے ہجر میں

آ ہی جائے گی قیامت چارہ گر

دیکھ لو شہزاد سولی چڑھ گیا

آؤ تم کرلو زیارت چارہ گر

(شہزاد مہدی۔اسکردو، بلتستان)

غزل

سانپ کے جیسے نہ بچھو کی طرح ہوتے ہیں

یار تو یار ہیں، بازو کی طرح ہوتے ہیں

سرد لہجے کی تپش اور ستم ڈھاتی ہے

اس کے الفاظ بھی چاقو کی طرح ہوتے ہیں

کیا بگاڑیں گے اندھیروں کا یہ ننھے ذرے

یہ ستارے بھی تو جگنو کی طرح ہوتے ہیں

ڈوب کر پار لگاتے ہیں تری کشتی کو

یہ جو ماں باپ ہیں، چپّو کی طرح ہوتے ہیں

تول کر میں تری اوقات بتا سکتا ہوں

مجھ سے درویش ترازو کی طرح ہوتے ہیں

مجھ کو تنہائی کے لمحات سے گِھن آتی ہے

کچھ خیالات ہی بدبو کی طرح ہوتے ہیں

سنسنی پھیلتی جاتی ہے چھپانے سے میاں

عشق کے راز بھی خوشبو کی طرح ہوتے ہیں

میں نے صحرا کی نظر سے ہی تو دیکھا ہے فہد

یہ سمندر بھی تو چُلو کی طرح ہوتے ہیں

(سردار فہد۔ایبٹ آباد)

غزل

گماں کے اینٹوں کی یہ عمارت تمہاری جنت بری نہیں ہے

اگرچہ تعمیر ہو چکی تھی پہ یہ مرمت بری نہیں ہے

سکونِ صحرا جو دے رہا ہے وہ گھر تو ہرگز برا نہیں ہے

جو تم کو گھر تک ہی لا رہی ہے تمہاری وحشت بری نہیں ہے

حسین رخ پر سیاہ زلفیں نسیم سحری کے سنگ ظلمت

ہوصبحِ روشن کے سنگ ظلمت تو پھر یہ ظلمت بری نہیں ہے

ارے نہیں یہ حسین ، دلکش، وہ کہنہ ، شاطر،گھمنڈی ، سرکش

ڈرو نہیں یہ بھلی بہت ہے، یہ خوبصورت بری نہیں ہے

جو سچ لگے گا میں سچ کہوں گا جو جھوٹ ہے وہ توجھوٹ ہی ہے

بری لگی ہے مری یہ عادت ، مگر یہ عادت بری نہیں ہے

یہ کلفتیں ہیں حلال ہم پر ملن کی راحت ملے جو ہم کو

ملیں گے ہم کو یقیں دلانا تو یہ قیامت بری نہیں ہے

(ابو لویزا علی۔کراچی)

غزل

وقت بے وقت نہ یوں شور مچا کر رکھے

عقل سے بول دیا، دل سے بنا کر رکھے

پھینک آتا ہوں کبھی جا کے سمندر میں اسے

دشت کو کوئی مرے سر پہ اٹھا کر رکھے

میں نے دیوار سے جب اس کو لگایا ہے تو وقت

کیسے دیوار سے مجھ کو نہ لگا کر رکھے

عین ممکن ہے کہ ناپید ہی ہوجائے خلوص

سو جسے جتنا میسر ہے بچا کر رکھے

دل کا سامان بھی عزمی کیا جائے واپس

جس نے جو چیز اٹھائی یہاں لا کر رکھے

(عزم الحسنین عزمی۔ڈوڈے، گجرات)

غزل

خیال و خواب کے دفتر، جگہ نہیں بنتی

کسی کی یاد ہے ازبر جگہ نہیں بنتی

نہ تیرے پاس سفارش ہے اور نہ پیسہ ہے

سو حکم یہ ہے کہ جا گھر ، جگہ نہیں بنتی

اسی لیے میں تری بزم میں نہیں آتا

تری جگہ کے برابر جگہ نہیں بنتی

اُسی کے نام پہ اس دل کا انتقال ہے یار

سو اور کسی کی یہاں پر جگہ نہیں بنتی

یہ اُس کھلاڑی کو کپتان منتخب کریں گے

کہ جس کی ٹیم کے اندر جگہ نہیں بنتی

(احمد آشنا ۔سیالکوٹ)

غزل

عِجز چلتا ہے یہاں، حسنِ ادب چلتا ہے

عشق میں ایک ہی رنگ ،  ایک ہی ڈھب چلتا ہے

اے محبت تیری تقسیم پہ صدقے جاؤں

ان پہ رحمت کی نظر، ہم پہ غضب چلتا ہے

آبرو پانی میں تحلیل ہوئی جاتی ہے

وہ سمجھتے ہیں کہ بس جامِ طرب چلتا ہے

اس نے کتّوں کی طرح جسم بھنبھوڑا اور پھر

پیار سے کہنے لگا، پیار میں سب چلتا ہے

فاقہ کش جانتے ہیں ، اچھی طرح جانتے ہیں

سلسلہ رکتا ہے کب سانس کا، کب چلتا ہے

کیا توقع ہے وہاں عدل ملے گا کہ جہاں

کہیں منصب تو کہیں نام و نسب چلتا ہے

اَشہبِ زیست بھی تھک ہار چکا ہے شاہد

اب کوئی اس کو چلائے بھی تو کب چلتا ہے

( محمد اقبال شاہد۔راولپنڈی)

غزل

خوابِ سحر کا دیکھنے والا تو مَیں بھی ہوں

سورج نہیں ہوں شام کا تارہ تو مَیں بھی ہوں

یوسف کو دیکھتا ہوں مَیں چشمِ زلیخا سے

گوہر نہیں گہر کا شناسا تو مَیں بھی ہوں

دریا کے ساتھ چلنا گوارا نہیں مجھے

بہتا ہوں اپنی رَو میں کہ دھارا تو مَیں بھی ہوں

دیکھا نہیں کسی نے بھی میری طرف مگر

آنکھوں کی رہ گزار سے گزرا تو مَیں بھی ہوں

دریا کو مَیں بھی دریا سمجھتا ہوں دوستو!

ڈوبا اگر نہیں ہوں سفینہ تو مَیں بھی ہوں

وحشت مِرے سپرد بھی کر مجھ سے بھی تو مِل

صحرا نہیں ہوں ریت کا ذرّہ تو مَیں بھی ہوں

(عتیق احمد۔ ڈی آئی خان)

مگر

بوڑھا نائی، اور اک کرسی

برگد کا وہ چھوٹا بچہ اب لمبی زلفوں والا ہے

دور کہیں پہ ٹھنڈ سے مل کر، ایک ہوا کا جھونکا پیارا

اس کے جسم کے نصف کو چُھو کر، لمبی زُلفیں جُھولے ہے،

شیشے کو جس کیل سے لٹکے، عمر کا خاصہ گزرا ہے

اب اس کیل کی ریڑھ کی ہڈی

گِھس گِھس کر کچھ باقی ہے،

میں اس دلکش موسم میں

اس برگد کے سائے میں

اس ٹوٹی سی کرسی پر

اپنی اور اس نائی کی صورت

پِنڈولم پہ دیکھ رہا ہوں،

دل ہی دل میں سوچ رہا ہوں ، اب کہ شیشہ گِر جائے گا

کِرچی کِرچی ہو جائے گا، ہَوا سے مل کر برگد پیارا

شور مچائے، گِر جائے گا،گِر جائے گا،

موٹے موٹے ہاتھوں والے

گول ہتھیلی والے پتے

تالی مار کہ شرط لگا کر، باری باری شور کرے ہیں،

گِر جائے گا،گِر جائے گا

شیشہ کافی وزنی پیارے، اور اس کیل کا سر بھی اب تو

بوجھ کے مارے جھکتا جائے، تیز ہوا کے باعث اب تو

کرسی کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں

شیشے کا گرنا پکا ہے، اور میں بھی شاید گِر ہی جاؤں

میں بس اتنا سوچ رہا تھا

اتنے میں وہ بوڑھا نائی؛ سامنے آکر کہنے لگا

صاحب! شیشے ہلتے رہتے ہیں

آپ یہ میری آنکھ میں دیکھو

میری آنکھ میں جالے ہیں

’’پر آپ مکمل کالے ہیں‘‘

میں نے تو اک عمر لگا کر

شیشے کو اس کیل سے ٹانکے

سالوں بیٹھ کہ سوچا ہے

(عامر شہزاد صابری)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔

صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘

روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔