شملہ ایکارڈ کی طرح جنیوا معاہدے میں بھی پاکستان کے ساتھ دھوکہ ہوا

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 17 نومبر 2019
ذوالفقارعلی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے بعد پاکستان سفارتی محاذ پر بہت کمزور ہو گیا تھا، پاک بھارت عسکری تصادم کی تاریخ۔

ذوالفقارعلی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے بعد پاکستان سفارتی محاذ پر بہت کمزور ہو گیا تھا، پاک بھارت عسکری تصادم کی تاریخ۔

(قسط نمبر 9)

21 فروری1987ء کو کرکٹ ڈپلو میسی پر بھارت کا دورہ کرکے صدرجنرل ضیا الحق نے پاک بھارت سرحدوں پر بھاری تعداد میں بھارتی فوجیں کھڑی کرنے پر جب وزیر اعظم راجیو گاندھی سے یہ کہا کہ اگر وہ جنگ کرنا چاہتے ہیں تو اپنا شوق پو را کر لیں مگر یاد رکھیں کہ پھر دنیا چنگیز خان اور ہلا کو خان کو بھو ل جائے گی اور صرف ضیا الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی تو اُس وقت پوری دنیا میں پانچ اعلانیہ اور چار غیر اعلانیہ ایٹمی قوتیں موجود تھیں۔

اعلانیہ ایٹمی قوتوں میں امریکہ، سوویت یونین، برطانیہ، فرانس اور چین تھے، جب کہ غیر اعلانیہ قوتوں میں پاکستان، بھارت، اسرائیل اور جنوبی افریقہ شامل تھے، اگر چہ بھارت اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ 1974 میں کر چکا تھا مگریہ ابتدائی نوعیت کا تجربہ تھا۔ دھماکے پر صرف پا کستان نے شدید ردعمل کا اظہا رکیا تھا اور بھٹو نے اعلان کر دیا تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے لیکن بھارت کے جواب میں ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔بھارت ایٹمی ہتھیار تو بنا چکا تھا مگر ابھی تک اُس نے اپنی میزائل ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی نہیںکی تھی کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے میزائلوں سے حملہ کر سکتا، یوں صدر جنرل ضیا الحق کا یہ انتباہ اہم تھا۔

یہ دنیا میں غیر معمولی تبدیلیوں کا دور تھا۔ اب دنیا، سرد جنگ کے اختتام کے نعرے کے بعد ایک تیسرے عالمی دور میں داخل ہو رہی تھی جس کے لیے ڈبلیو ٹی او، گلو بل ولیج، نیو ورلڈ آرڈر اور تہذیبوں کے تصادم جیسی اصطلاحیں بھی سامنے آرہی تھیں۔  1987 میں سوویت یونین کے گورباچوف نے بھارت کا دورہ کیا اور دورے سے پہلے مزید روسی فوج کے انخلا کا اعلان کیا۔ بھارت کے دورے کے دوران انہوں نے پاکستان سے بہتر تعلقات کے قیام کی حمایت کی اور افغانستان کے غیر جانبدارانہ اور غیر وابستہ کردار کی بحالی کے حق میں تقریر کی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کوئی بھی ملک کسی مذاکراتی عمل سے پہلے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے بہت سے امکانات اور اندیشوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دوست ملکوں سے مشاورت بھی کرتا ہے اور جس فریق سے مذاکرات کرنے ہوتے ہیں اُن سے بھی درپردہ مذاکرات کے اعتبار سے ممکنہ امور پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔

افغانستان میں امن اور دیگر معاملات کے حل کے لیے جنیوا مذاکرات کا جو سلسلہ جون 1982 سے شروع ہوا تھا، آغاز میں اس میں ایران بھی شامل تھا ، اب اپنے اختتامی مراحل میںداخل ہو رہا تھا۔ یہ ایسے تاریخی مذاکرات تھے جس کی بنیاد پر آئندہ کے لیے دنیا نے تبدیل ہو نا تھا۔ یہ صورتحال دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے مختلف تھی، دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر یہ ہوا تھا کہ ایک فریق کی شکست کے بعد اتحادی ممالک نے دنیا کو آئندہ کسی ممکنہ تیسری عالمی جنگ سے بچانے کے لے اقوام متحدہ کی تشکیل پر طریقہ کار وضع کیا تھا جس میں پانچ قوتوں کی بنیاد پر مفادات کے ممکنہ ٹکراؤ سے بچنے کے لئے سکیورٹی کونسل میں اِن کو ویٹو کی طاقت دی گئی تھی۔

اب صورت یہ تھی کہ سوویت یونین کے دوبارہ غیر اشتراکی بننے پرآزاد مارکیٹ کی دنیا میں داخلے اور 1945 کے بعد سے سرمایہ دارانہ معیشت پر چلنے والے ملکوں کی طرح اقتصادی نوآبادیاتی نظام میں اُس کے سابق زیر اثر ممالک پر سیاسی اقتصادی کنٹرول جیسے معاملات درپیش تھے، یوں اگر چہ یہ جنیوا مذاکرات پاکستان ،افغانستان ،امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان اقوام متحدہ کے تحت کئے جا رہے تھے مگر اس میں سوویت یونین جس نے عنقریب دوبارہ روس بننا تھا اور امریکہ اور اُس کے سرمایہ دارانہ معیشت پر یقین رکھنے والے اتحادی ممالک کے ظاہری اور پو شیدہ مفادات تھے، اب جنیوا مذاکرات میں پاکستان یا افغانستان کے مفادات اور مکمل امن کی بجائے بدلتی دنیا میں اقتصادی بالادستی میں زیادہ قوت اور بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے لحاظ سے شاطرانہ چالیں چلی جا رہی تھیں۔

1987 میں جب بھارت نے پاکستان کی سرحد پر بھاری تعداد میں فوجیں کھڑی کر کے اور سیا چن میں فوجی جھڑپیں کرکے ایک بحرانی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جس کو پاکستان نے کرکٹ ڈپلومیسی سے ڈیفوز کر دیا تھا، انہی دنوں جنیوا مذکرات اپنے حتمی مراحل میں داخل ہو رہے تھے، اس وقت پاکستان نے یہ تجویز پیش کی کہ افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا سے پہلے افغانستان میں متحرک مجاہدین کے تعاون سے عبوری حکومت تشکیل دی جائے مگر اس کو افغانستان کی حکومت نے تسلیم نہیں کیا اور سوویت یونین اور امریکہ نے بھی افغانستان پر زور نہیں دیا تو پاکستان نے مذاکراتی عمل جاری رکھنے کی خاطر اپنی تجو یز واپس لے لی۔ علاقائی سطح پر اب بظاہر اتفاقیہ مگر حیرت انگیز انداز میں تبدیلیوں کے اعتبار سے واقعات رونما ہو نے لگے، فروری میں بھارت نے عملی طور پر جنگ کی ناکام کو شش کی پھر اسی سال سیا چن گلیشیر پر جھڑپیں ہو ئیں۔

سوویت یونین کی جانب سے گوربا چوف نے 1988 میں اعلان کر دیا کہ اگر جنیوا معاہدہ ہو جاتا ہے تو پھر 15 مئی1988 سے روسی فوجوں کی واپسی افغانستان سے شروع ہو جائے گی اور یہ عمل دس مہینوں کے اندر مکمل ہو جائے گا، اس دوران افغا نستان میں سوویت یونین اور اُس کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف مجاہدین کی جنگ جاری رہی تو ساتھ ہی مجاہدین کے گروپوں میں باہمی اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے ، جنیوا مذاکرات کے حتمی مراحل میں یہ تجو یز بھی دی گئی کہ روسی فوجوں کے انخلا اور عام انتخابات کے بعد افغانستان میں منتخب حکومت کے قیام تک اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کی جائے، ایک تجویز یہ بھی تھی کہ افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ کو واپس لاکر عبوری حکومت کے ساتھ اقتدار اُن کے حوالے کیا جائے، لیکن روس اور امریکہ اپنے اپنے مفادات کے لیے سیاسی چالیں چل رہے تھے جبکہ اقوا م متحدہ کے سیکرٹری جنرل ڈیگوکارڈوویز، شٹل کا ک ڈپلو میسی اپنائے جنیوا معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوشش میں مصروف تھے۔

ابھی جنیوا مذاکرات مکمل ہوئے ہی تھے اور چار دن بعد جنیوا معاہدے پر دستخط ہونے تھے کہ پاکستا ن میں 10 اپریل 1988 کو اوجڑی کیمپ کا بڑا واقعہ پیش آیا، یہ راولپنڈ ی کے نزدیک بڑا اسلحہ ،گولہ بارود کا ڈپو تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں امریکہ سے بھیجا جانے والا اسلحہ جو افغانستان مجاہدین کے لیے جاتا تھا وہ اسٹور کیا جاتا تھا، یہاں جو راکٹ، میزائل اور بم وغیرہ موجود تھے وہ دھماکوں سے پورے علاقے میں کئی مربع کلومیٹر رقبے پر گر تے رہے او ر دارالحکومت اسلام آباد بھی اِن کی زد میںآیا، اس ہولناک واقعے میں تقریباً 100 افراد جاں بحق اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔

جاں بحق ہونے والوں میں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے اہم رہنما شاہد خاقان عباسی کے والد جونیجو حکومت کے وزیر خاقان عباسی بھی شامل تھے جو اُس وقت اپنی گاڑ ی میں سڑک پر تھے کیونکہ اوجڑی کیمپ سے جو میزائل دھماکے سے فضا میںاڑتے وہ کسی چلتی گاڑی کو از خود ہدف بنا لیتے، اس طرح خاقان عباسی جان سے گئے ۔ اس واقعے کے چار دن بعد جنیوا کے معاہدہ پر امریکہ کی جانب سے جارج شلز نے سوویت یونین کی جانب سے شیورناڈزے نے، پاکستان کی جانب سے زین نورانی نے، افغانستان حکومت کی جانب سے عبدالوکیل نے اور اقوام متحد ہ کے سیکرٹری جنرل پیر یز ڈی کوئیار نے دستخط کر دئیے۔

یہاںیہ حیرت انگیز تبدیلی تھی کہ 1982 سے شروع ہونے والے جنیوا مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے منجے ہوئے سفارت کار وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان مذاکرات کرتے رہے اور جب جنیوا معاہد ہ اپنی حتمی شکل اختیار کر نے لگا تو اِن کی جگہ وزیر مملکت امور خارجہ زین نورانی جنیوا مذاکرات میں شامل ہو گئے، اور جنیوا مذاکرات کے جو آخری راونڈز تھے،اُن میں اُن کی کارکردگی کا یہ عالم تھا کہ دفترخارجہ کا ایک ڈائر یکٹر جنرل طوطے کی طرح اُن کو ممکنہ سوالات کے اعتبار سے جوابات رٹواتا تھا، اُن دنوں یہ بھی باتیں عام ہوئیں کہ نورانی کو پوائنٹ رٹوانے کے باوجود مذاکرات میں ایک مو قع پر جب وزیر مملکت امور خارجہ زین نورانی نے بظاہر اپنے زخمی ہاتھ پر پٹی باندھی ہوئی تھی تو افغان وزیر خارجہ عبدالوکیل نے یہ اعتراض کیا تھا کہ اس ہاتھ کی پٹی کے اندر مائیکرو فون پوشیدہ ہے اور باہر سے پاکستانی ڈائریکٹر جنرل دفتر خارجہ اِ ن کو ہدایات دے رہا ہے ، مگر پروٹوکول کے تحت پٹی نہیں کھولی گئی۔ بہرحال14 اپریل 1988 کو جب جنیوا معاہدے پر دستخط ہو گئے تواِس کے اہم نکا ت یوں طے پائے ۔

i ۔ روس کی مسلح افواج کا انخلا 15 مئی1988 کے بعد سے شروع ہو جائے گا اور یہ عمل نو مہینے میں مکمل کر لیا جائے گا۔

ii ۔ پندرہ مئی کے بعد افغانستان اور پاکستان کے اندرونی امور میں نہ کوئی مداخلت ہوگی اور نہ ان کے خلاف کسی قسم جارحا نہ کاروا ئی کی جائے گی۔

iii ۔ امریکہ اور روس علاقے کی دونوں ریاستوں یعنی پاکستان اور افغانستان کے امور میںدخل نہیں دیں گے، دیگر ممالک بھی عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے۔

iv۔ پاکستان اور افغانستان اپنی حدود میں ایک دوسرے کی خود مختاری، غیر جانبداری، استحکام اور یکجہتی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے، نہ ہی طاقت کا استعمال اور کسی نوعیت کی دھمکی دیں گے اس سلسلے میں روس اور امریکہ نے ضمانتیں بھی دیں۔

v ۔ پاکستان اور افغانستان اپنی حدود میں ایک دوسرے کیخلاف تربیتی مراکز کا بندوبست نہیں کریں گے اور نہ کسی تحریک کو مالیاتی یا فوجی امداد مہیا کریں گے، پاکستان ایک ماہ کے اندر مجاہدین کے اڈے اپنی سر زمین سے ختم کردے گا۔

vi ۔ مہاجرین کی واپسی کا بندوبست کیا جائے گا اور دونوں ممالک باہم تعاون کر یں گے۔

vii  ۔ پاک افغان کمیشن 15 مئی کو تشکیل پائیں گے تاکہ مہاجرین کی واپسی کے راستے متعین کئے جا سکیں، دونوں ممالک کے نمائندے مہاجرین کی واپسی کے پروگرام کو منظّم کرنے کے لیے باہم ملا قاتیں کرتے رہیں گے اِن کی رہنمائی کے لیے اقوام متحدہ کا ایک نمائندہ بھی شامل رہے گا۔

viii ۔ اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز دونوں ملکوں میں قائم کئے جائیں گے تاکہ جنیوا معاہدے پر عملدرآمد میں پیدا ہو نے والی رکاوٹوں کودور کر سکیں، اِن ہیڈ کوارٹرز میں کام کر نے والے اقوام متحدہ کے نمائندوں کے اخراجات پاکستان اور افغانستان ادا کریں گے۔

ix ۔ دونوں ممالک مخالفانہ پرا پیگنڈہ مہم ختم کر دیں گے ۔

x ۔ مستقبل میں معاہدے کو ہر دو ممالک کی دوستی، تعاون اور بھائی چارے کے فروغ کی بنیاد سمجھا جائے گا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ افغان کٹ پتلی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 23 کے مقابلے میں 116 ووٹوں سے قرارداد منظور کی گئی تھی،لیکن سوویت یونین کی کٹ پتلی افغان حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے جنیوا مذاکرات میں شریک کیا گیا اور روسی فوجوں کی واپسی سے قبل امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے عبوری یا قومی افغان حکومت کی تجویز بھی قبول نہیں کی گئی، نہ ہی اقوام متحدہ کی امن فوج رکھنے پر راضی ہوئے بلکہ سوویت یونین کی فوجوں کی رخصتی پر گورباچوف نے صدر نجیب اللہ کی حکومت کو اربوں ڈالرز کا جدید روسی اسلحہ فراہم کیا۔فرنٹ لائن ملک ہونے کے لحاظ سے 35 لاکھ سے 50 لاکھ تک افغان مہاجرین کی فوراً واپسی ہی پاکستان کا بنیادی اور فوری مسئلہ تھا۔

اس معاہدے میں پاکستان اور افغانستان میں عدم مداخلت اور امن کی ضمانتیں امریکہ اور روس نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دستخط کے ساتھ دستخط کرکے دی تھیں لیکن دنیا نے دیکھا کہ مہذب ملکوں اور اقوام نے اِس معاہدے کا کس قدر احترام کیا، اس معاہدے کے بعد یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ صدر جنرل ضیا الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے درمیان اختلا فات پیدا ہو گئے ہیں جن میں شدت آرہی ہے اور جنیوا معاہدے کے ایک ماہ تیرا دن بعد 29 مئی1988 کو آئین کی آٹھویں ترمیم کے 58-B 2 کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے صدر نے اسمبلی تحلیل کرکے حکو مت برخاست کر دی، بھٹو کے خلاف پانچ جولائی کے آپریشن کی طرح جنرل ضیا الحق نے اس آپر یشن کو بھی خفیہ رکھا اور جب وزیر اعظم چین کا دورہ کر کے وطن پہنچے ہی تھے کہ اُن کو بر طرف کر دیا گیا۔

اِس واقعہ کے ٹھیک 17 دن بعد جنرل ضیاء کے طیارے کو حادثہ پیش آیا جس میں صدر ضیاء بشمول چیئر مین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل اختر عبدالرحمن ، لیفٹیننٹ جنرل میاں محمد افضل، میجر جنرل محمد شریف ناصر،میجر جنرل عبدالسیمع ، میجر جنرل محمد حسین اعوان، بریگڈئر صدیق سالک، بریگڈئر نجیب اللہ، پاکستان میں امریکی سفیر Arnold Lewis Raphel رافیل، امریکی سفارت خانے میں امریکن ملٹری اتاشی  General Herbet M. Wassom جنرل ہر بٹ اور 30 اہم سینئر آرمی آفیسر جاں بحق ہوئے۔

17 اگست 1988ء کو بہاولپور میں مسیحی راہبر کے قتل پر تعزیت کے بعد انہوں نے امریکی ٹینکM1 کا مظاہرہ دیکھا اور  واپس بہاولپور ائرپورٹ آئے اور یہا ں سے اپنے طیار ے پاک ون میں ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد واپسی کے لیے سوار ہو ئے۔ طیارے نے 3; 40 سہہ پہر ٹیک آف کیا یہ طیارہ اُس وقت ہر اعتبار سے درست تھا، ڈھائی منٹ میں طیارے مطلوبہ بلندی پر آگیا اور اُس کا رخ اسلا م آباد کی طر ف ہو ا، 3 بجکر 51 منٹ پر طیارے کا رابط زمین سے منقطع ہو گیا اور عینی شایدین کے مطابق یہ طیارہ سیدھا تیزی سے زمین سے ٹکرا گیا اور دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا اور اس کے ٹکڑے زمین پر دور دور تک بکھر گئے، اس کے فوراً بعد قائم مقام صدر سینٹ کے چیر مین غلام اسحاق خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا تھا، جو زیادہ درست معلو م ہوتا ہے کیونکہ طیارے کا ملبہ کئی مربع کلومیٹر رقبے پر دریائے ستلج کے قریب بکھر گیا تھا۔

اس حادثے کی تحقیقات کرائی گئیں لیکن کو ئی واضح وجوہات سامنے نہیں آسکیں ۔ پاکستان میں سی ون تھرٹی چار مرتبہ حادثے کا شکار ہوا، خود امریکہ میں اس طیارے میں فنی خرابی، حادثے یا زمین سے مار گرائے جانے کے160 سے زیادہ واقعات ہو چکے ہیں مگر پھر بھی پور ی دنیا میں 63 برسوں سے ملٹری ٹرانسپورٹ کے اعتبار سے اس طیارے کی ما رکیٹ اب بھی مستحکم ہے ۔

مگر شک کر نے والے اس اندیشے کو نظر انداز نہیںکرتے کہ اس سازش میں امریکہ خود ہی ملوث ہو، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکہ نے جنرل ضیا الحق اور اِن کے ساتھیوں کو قتل کر وانا تھا تو پھر اپنے اہم جنرل اور امریکی سفیر کو ان کے ساتھ کیوں مرواتا ؟ وہ کسی اور موقع پر جنرل ضیا الحق، جنرل اختر عبدالرحمن سمیت باقیوں کو کسی اور طرح قتل کروا دیتا۔ امریکہ کے دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے 1941 سے لیکر 1945 تک بریگیڈئیر جنرل، میجر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل اور نیوی کے فلیگ آفیسرسمیت 22 جنرل ہلاک ہو ئے،کوریا کی جنگ میں 1951-52 ایک میجر جنرل اور ایک لیفٹننٹ جنرل ہلاک ہوا ، ویتنام کی جنگ میں 6 لیفٹیننٹ جنرل اور6 میجر جنرل ہلا ک ہوئے، نائین الیون میں پینٹا گان پر دہشت گردی کے حملے میںلیفٹیننٹ جنرل Timothy L.Maud  ٹیمو ہلاک ہوا ،اور آخری میجر جنرل Harold Greene 5 اگست2014 کو کابل میں اُس وقت ہلاک ہوا جب کابل میں افغان آرمی کے ٹریننگ سنٹر میں یونیفارم پہنے افغان فوجی نے گولیاں چلادیں، اس واقعے میں دیگر فوجیوں سمیت امریکی میجر جنرل ہارولڈ گرین ہلاک ہو گیا، امریکہ اپنے ایک ایک سپاہی کے لیے کوشش کرتا ہے کہ اُسے بچانے کی خاطر اگر بڑا ایکشن لینا پڑے تو وہ لے لیتا ہے، یوں یہ اندیشہ تقریباً غلط ہے کہ امریکہ ہی 17 اگست 1988 کے واقعہ میں ملوث تھا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس حادثے سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہوا تھا اور اس کے بعد فائد ہ غالباً سوویت یونین کو ہوا۔

پاکستان کے لیے یہ نظریاتی اختلافات سے ہٹ کر بہت بڑا سانحہ تھا کہ پاکستان کی فوج کی پوری اعلیٰ قیادت ہی رخصت ہو گئی اور افغان سوویت جنگ کے بہت سے راز بھی ساتھ چلے گئے، پھر یہی قیادت اُس وقت تقریباً دس سال سے حکومت میں تھی اور یہ سانحہ اُ س وقت ہوا جب جنیوا معاہدہ ہوا تھا اور جیسا بھی ہوا یہ قیادت اُس پر عملدرآمد کرا سکتی تھی، یہاں 1979سے 1988 تک کی صورتحال کے لحاظ سے موازنہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور صدر جنرل ضیاء الحق دونوں کی بنیادوں کیا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان میں 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے الگ نہ ہوتے تو باوجود اس کے کہ امریکی سی آئی اے نے سابق سوویت یونین کی کیمونسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور حکومت میں بھی نقب لگا لی تھی مگر اس کے باوجود 90 فیصد امکان یہی تھا کہ سوویت یونین افغانستان میں فوجی مداخلت نہ کرتا اور صدر سردار داؤد بھی قتل نہ ہوتے اور اگر 10% امکان پر سوویت فوجی مداخلت ہو بھی جاتی تو یہاں شام، عراق، مصر کی طرز پر حکومت قائم کرنے پر اتفاق رائے ہوتا اور ایسی صورت میں بھی بھٹو امریکہ اور سوویت یونین دونوں کو سخت مراحل میں جکڑے رکھتے اور دونوں کے لیے مستقل نقصان کی بنیاد پر ایسی صورت قائم رہتی۔ اگر افغانستان میدان جنگ بنتا تو یہاں امریکہ اور سوویت یونین دونوں میں سے کسی کی فتح نہ ہوتی لیکن ایسا نہ ہو سکا، بھٹو کی موت پر فیض احمد فیض نے کہا تھا

کبھی یہ سوچنا یہ تم نے کیا کیا لو گو

یہ کس کو تم نے سرے دار کھو دیا لوگو

ہم نے اُس وقت تیسری دنیا کے ذہین ترین اور شاطر سیاست دان کو وقت کے اہم اور تاریخی موڑ پر کھو دیا، اور بھٹو کے وہ آخری الفا ظ اب بھی ریکارڈ پر ہیں ’’جب بھٹو نے کہا تھاکہ خدا کی قسم مجھے اقتدار کا لالچ نہیں ہے لیکن آج پاکستان کو میر ی بہت ضرورت ہے میں اس ملک کے بہت کام آسکتا ہوں‘‘ یہ اُن کا اُ س وقت کا ویژن تھا۔

دوسری جانب اگر صدر جنرل ضیا الحق کو اس تناظر میں دیکھا جائے جب افغانستان میں سوویت یونین کو شکست ہوئی اور یہاں صدر نجیب کی کٹھ پتلی حکومت تھی تو صدر ضیاالحق اُس وقت اہم تھے، انہوں نے فوجی انداز میں کام کرنا تھا، بھار ت میں کشمیر اور بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک اس قدر زروں پر تھی کہ بھارت میں اندرا گاندھی جیسی وزیر اعظم کو اُن کے سکھ باڈی گاردز ہی نے قتل کر دیا تھا، جنرل ضیا الحق کے درپردہ اقدامات اور اندرا گاندھی کے غرور وتکبر اور غلطیوں کی وجہ سے 1988 تک صورتحال ایسی ہو چکی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا تھا اور مقبوضہ بھارتی کشمیر پاکستا ن کا حصہ بھی بن جاتا اور بھارتی پنجاب بھی خالصتان میں تبدیل ہو کر ایک آزاد خود مختار ریاست وجود میں آجاتی جو پنجابی نیشنل ازم اور مشترکہ ثقافت کی بنیاد پر پاکستان کی قریبی دوست ریاست ہوتی کیونکہ سکھوں کے اہم اور مقدس مذہبی مقامات بھی پاکستا ن میں واقع ہیں، پھر صدر جنرل ضیا الحق کی شخصیت افغانستا ن میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے تمام گروپوں میں ہردلعزیز اور قابلِ قبول تھی۔

یوں وہ اور جنرل اختر عبدالرحمن سمیت اور چھ جنرل اور چھ بریگیڈئیرز اور سینئر فوجی افسران ایسے تھے کہ وہ سوویت یونین کی فوجوں کے رخصت ہوتے ہی پہلے مرحلے میں مجاہدین کے گروپوں کو آپس میں ملا کر عبوری حکومت قائم کرکے روس کی صدر نجیب اللہ کی کٹھ پتلی حکومت کو رخصت کر دیتے، یوں افغانستان پر خود افغانیوں کا کنٹرول ہوتا اور پاکستان اُن کے بھر پور اعتبار کی وجہ سے اُن کے لیے اور دنیا میں اُس وقت کی سیاسی صورتحال کے تحت ایساہی اہم کر دارادا کر سکتا جیسا کہ 1974 میں لاہور کی اسلامی سر براہ کا نفرنس میں بھٹو نے ادا کیا تھا۔

افغان مجاہدن اور پاک فوج افغان جنگ سے مکمل طور پر فارغ ہو چکی ہوتی، لیکن صدر جنرل ضیا الحق اُن کے سینئر ساتھیوں کے رخصت ہونے پر سب کچھ الٹ ہو گیا، چند دنوں ہی میں صورتحال تبدیل ہونے لگی، 1988 کے انتخابات سے قبل جب بے نظیر بھٹو کی شادی ہوئی اور جب وہ انتخابات سے قبل پاکستا ن آئیں تو اُن کا استقبال دیدنی تھا، اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ عام انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہونے تھے اگر پاکستان پیپلز پارٹی نے 1985 کے انتخابات میں غیر جماعتی بنیادوں پر اپنے امیدواروں کو آزاد امیدوا ر کے طور پر کھڑا کرنے کی تجویز رد نہ کی ہوتی، اور 1985 کے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات کو غیر جمہوری قرار دے کر اِن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ نہیں کیا ہوتا تو پی پی پی اس وقت بینظیر کی قیادت میں بہت اچھی پوزیشن میں ہوتی، اور بعد میں بینظیر بھٹو کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا تھا کہ جس سے پنجاب کے ووٹ بنک کو جسے اُن کے والد ذوالفقار علی بھٹو نے 1937 کے الیکشن کے 33 سال بعد 1970 کے انتخابات میں نہایت واضح اکثریت حاصل کر کے فتح کیا تھا اُس ووٹ بنک کو انہوں نے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں بنیادی طور پر کھو دیا، جب جنرل ضیاالحق نے نوجوان نواز شریف کی صورت میں مصنوعی انداز میں پنجاب کی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی سے چھیننے کی کامیا بی کی ابتدا کر دی تھی اور کراچی میں ایم کیو ایم شہری ووٹ کو اپنے قبضے میں لے رہی تھی۔

1988 میں اِن بنیاد ی اقدامات کے باوجود اگر عام انتخابات میں منظم اور انجینئرڈ، دھاندلی نہ کروائی جاتی جس کے بعد میں ثبوت اور حقائق بھی سامنے آئے تو بھی پیپلز پارٹی نہ صرف مرکز میں مضبو ط حکومت بنا لیتی بلکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی یا تو کمزور یا مخلو ط حکومت بناتی یا کم ازکم بہت طاقتور اپوزیشن کے طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موجود رہ کر میاںنواز شریف کو مزید مضبوط نہ ہونے دیتی اور پنجاب سے کچھ زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کر کے زیادہ اکثریت سے وفاقی حکومت بناتی لیکن 1988 کے انتخابات میں انجینئرڈ دھاندلی کی بنیاد پر پنجاب کا وسیع ووٹ بنک پیپلز پارٹی کے ہا تھ سے نکل گیا، اس کے بعد اس ووٹ بنک کو بینظیر دوبارہ اس طرح حاصل کر سکتیں تھیں کہ وہ وفاق میں کمزور حکومت بنانے کی بجائے مضبوط اپوزیشن میں آتیں اور یا 1988 کے عام انتخابات  کے وقت ہی کم سے کم نعرے کی حد تک یہ مطالبہ کر دیتیں کہ 1973 کے آئین کو پہلے 5 جولائی 1977 کے وقت کی صورت میں بحال کیا جائے لیکن افسوس یہ ہے کہ اُن کے اردگرد جمع ہونے والی شخصیات میں کئی ایک ملکی اسٹیبلشمنٹ سے رسم و راہ رکھتے تھے تو کچھ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے بھی رابطوں میں تھے۔

بھٹو ملک کے وہ وزیراعظم تھے جنہوں نے جمہوریت کو مکمل طور پر آزاد کروایا تھا مگر اب جو دور جنرل ضیا الحق کے بعد شروع ہوا تھا، وہ ماضی کی سیاست سے بالکل مختلف تھا اب قومی سطح پر چاروں صوبوں کی بنیاد پر اگر چہ پیپلز پارٹی نے ووٹ حاصل کئے تھے اور پی پی پی کا یہ نعرہ بھی تھا کہ چاروں صوبوں کی زنجیر بینظیر، بینظیر، مگر ایسا تھا نہیں، جہاں تک بات بھارت پاکستان تعلقات کی تھی تو اب ایک مرتبہ پھر بھارت مشکل پوزیشن سے نکلنے کے لیے عالمی سطح پر اپنے تعلقات کو استعمال کر رہا تھا اور پاکستان اچانک بڑے سانحے سے گزرنے کے بعد کمزور پارلیمنٹ کی بنیاد پر اور گیارہ سال بعد جمہوریت کی بحالی پر سیاسی اعتبار سے مستحکم نہیں تھا، پاکستان کا مالی، اقتصادی ریکارڈ قرضوں افراطِ زر، سونے کی فی دس گرام قیمت، روپے کی ڈالرکے مقابلے میںقیمت جیسے اشارات کی بنیاد پر اسی زمانے سے تنزلی کا شکار ہوا یعنی پاکستان کے پہلے 41 سال اقتصادی، معاشی لحاظ سے بہتر تھے اور پھر صورت ابتر ہونے لگی، یوں 1988-89 میں ملک پر اقتصادی انداز سے بھی عالمی دباؤ میں اضافہ ہوا۔

اس کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ بھارت پاکستان تعلقات میں72  برسوں میں بھارتی وزراء اعظم نے پاکستان کے آٹھ دورے کئے اور اندرا گاندھی نے پاکستان کا کوئی دورہ نہیں کیا تھا جب کہ اُن کے بیٹے راجیو گاندھی نے بینظیر بھٹو کے اقتدار میں آتے ہی 29 دسمبر سے31 دسمبر1988 پاکستان کا دورہ کیا اور پھر اس کے بعد راجیو گاندھی نے اپنا دوسرا دورہ 16 اور17 جولائی 1989 ء میں کیا، اور اس دوارن پاک بھارت بہتر تعلقات کی باتیں عام ہوئیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ خالصتان تحریک اور کشمیر میں مجا ہدین کی تحریک بھی سرد ہونے لگی تو دوسری جانب پاکستان کے لیے افغانستان میں مسائل میں اضافہ ہونے لگا اور حقیقت میں پاکستان تاریخ کے ایک بحرانی دور میں داخل ہو گیا۔        (جاری ہے)

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔