انٹرنیٹ فلاسفر

نصرت جاوید  بدھ 23 اکتوبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پاکستان ہی نہیں دُنیا کے تقریباً سارے اہم ممالک کے حکمران سوشل میڈیا سے بہت ناراض ہوگئے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے فیس بک اور ٹویٹر کی جو سہولتیں دریافت ہوئیں انھوں نے بہت سارے لوگوں کو بیک وقت صحافی، مفکر اور مختلف امور کا خود ساختہ ماہر بنادیا۔ ان کے خیالات پڑھنے کے لیے آپ کو اپنے کمپیوٹر یا اسمارٹ فون کا صرف ایک بٹن دبانا ہوتا ہے اور ’’پیغام‘‘ مل جاتا ہے۔ آپ کو وہ پیغام پسند آجائے تو ایک اور بٹن دباکر مزید پھیلادیجیے۔

اوباما وہ پہلے امریکی سیاست دان تھے جنھوں نے انٹرنیٹ کی ان سہولتوں کا بھرپور استعمال کیا اور ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے کے ساتھ نوجوان رضا کاروں کی ایک ایسی کھیپ تیار کرلی جنھوں نے دن رات جنونی انداز میں ان کی صدارتی مہم چلائی اور وہ تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوگئے۔ چار سال کے لیے ایک بار پھر صدر منتخب ہوجانے کے بعد البتہ ان دنوں وہ سب سے زیادہ پریشان انٹرنیٹ کے ذریعے پھلائی باتوں ہی سے نظر آرہے ہیں۔

چند روز قبل تک Shut Downکے نام پر جو معاشی بحران انھوں نے بھگتا وہ Tea Partyکے جیالوں نے انٹرنیٹ پیغامات کے ذریعے پیدا کیا تھا۔ اسی لیے تو اس بحران سے نبردآزما ہونے کے فوراً بعد انھوں نے جو پہلی تقریر کی اس میں لوگوںسے فریاد کی کہ وہ انٹرنیٹ پر Blogsلکھنے والوں کی باتوں میں آنے کی بجائے خود غوروفکر کی عادت ڈالیں۔ کسی بھی معاملے کی زیادہ سے زیادہ جہتیں سمجھنے کی کوشش کریں اور جان لیں کہ سیاسی اور ریاستی معاملات اتنے سادہ نہیں ہوا کرتے جیسا نظر آتے ہیں۔

اوباما جیسے لوگوں کی ’’انٹرنیٹ فلاسفروں‘‘سے ناراضگی میں پوری طرح سمجھ سکتا ہوں۔ ہمارے اپنے وطن میں بھی ’’تبدیلی‘‘ لانے کے خواہاں چند جنونیوں نے گزشتہ چند مہینوں سے کافی طوفان مچارکھا ہے۔ میں ذاتی طورپر اکثر اس طوفان کا نشانہ بنا رہتا ہوں۔ اس سب کے باوجود یہ دعویٰ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ ’’انٹرنیٹ جنونی‘‘ درحقیقت ٹھوس حقائق اور معلومات کے ضمن میں موجود اس خلاء کا فائدہ اٹھاتے ہیں جو حکومتیں اور ریاستی قوت کی حامل قوتیں اپنی مکارانہ خاموشی اور پورا سچ نہ بولنے کی وجہ سے پیدا کرتی ہیں۔ خود اوباما کے بارے میں اس کے بہت سارے چاہنے والے کالم نگار اب تواتر سے یہ کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ امریکا آج کل شتر بے مہار کی طرح بے سمت دوڑتا نظر آرہا ہے تو اس کی وجہ اوباما کی متکبرانہ خاموشی ہے۔ وہ یقیناً ایک ضرورت سے زیادہ ذہین شخصیت ہیں۔ مگر اب انھوں نے ’’جاہلوںسے بات کیا کرنی‘‘ والا رویہ اپنا لیا ہے۔ وہ تو اب اپنے قریب ترین لوگوں سے بھی دل کھول کر باتیں کرنا چھوڑچکے ہیں۔ ان کی متکبرانہ خاموشی انٹرنیٹ پرانٹ شنٹ بنیادوں پر اٹھائے طوفان کو مزید جاندار بنادیتی ہے۔

پتہ نہیں کیوں جب بھی اوباما کے بارے میں ایسی چیزیں میں امریکی اخبارات میں پڑھتا ہوں تو ذہن خود بخود اپنے نواز شریف صاحب کی طرف مڑجاتا ہے۔ باتونی وہ کبھی بھی نہیں رہے۔ ہمیشہ تول کر بولتے اور لوگوں کی زیادہ سنتے رہے۔ اپنی اس عادت کے باوجود اپنی پچھلی دونوں حکومتوں میں ان کا میڈیا میں بڑا چرچا رہتا تھا۔ ان کی ’’آنیاں جانیاں‘‘ تو کبھی کبھار ضرورت سے کہیں زیادہ بھی ہوجایا کرتی تھیں۔

تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد وہ میڈیا کی حد تک کسی غار میں بیٹھے محسوس ہورہے ہیں۔ کوئی ایسا چلہ کرتے ہوئے جس کی بدولت ان کے ہاتھ کوئی کھل جا سم سم والا منتر آجائے اور وہ پاکستان کے تمام مسائل کو چٹکی بجاتے ہی حل کردیں۔ انھیں کون بتائے کہ حکمرانوں کو مسائل حل کرنے کے لیے چٹکیوں کی نہیں ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حکمت عملی کو آپ خاندانی حکیموںکے آبائی نسخوں کی طرح چھپاکر نہیں رکھتے۔ لوگوں کے پاس جاتے ہیں اور پوری ایمان داری سے ان کے مسائل کا اعتراف کرتے ہوئے عاجزی اور خلوص کے ساتھ ان کے حل کے نسخے پیش کرتے ہیں اور پھر یہ درخواست کہ مشکل کی اس گھڑی میں ان کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر راحتوں کو تلاش کیا جائے۔

چونکہ میاں صاحب نے لوگوں کے ساتھ کسی ٹھوس سیاسی مکالمے کا آغاز ہی نہیں کیا اس لیے ان کے وزراء کی اکثریت بھی اپنے اپنے غاروں میں جا بیٹھی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس ہورہے ہوں تو وہاں چوہدری نثار علی خان صاحب خوب گرجتے برستے ہیں۔ مگر ان اجلاسوں کے درمیان وقفے آجائیں تو کبھی کبھار پریس کانفرنس کردینے کے علاوہ منظر سے بالکل غائب ہوجاتے ہیں۔ خواجہ آصف ٹاک شوز میں اب بھی تواتر سے آتے ہیں۔ انھیں اپنی بات کہنا بھی خوب آتا ہے۔ مگر یوں محسوس ہورہا ہے کہ ان دنوں کوئی بات ہے جو انھیں کھل کر کھیلنے نہیں دے رہی۔ اسلام آباد کے غیبت بھرے ڈرائنگ روموں میں اس حوالے سے بہت کچھ کہا جارہا ہے۔ میں اگرچہ بڑی شدت سے یہ سمجھتا ہوں کہ جو کچھ کہا جارہا ہے وہ درست ہو تو بھی خواجہ صاحب جیسے دبنگ آدمی کو بے بس ہوا نہیں دکھا سکتی۔ بات کچھ اور ہے اور ان باتوں سے کہیں زیادہ گہری جو ڈرائنگ روموں میں کہی جارہی ہیں۔ اسحاق ڈار کی بھی ان دنوں میڈیا میں مسلسل رونمائی کی بہت ضرورت ہے۔ مگر وہ زیادہ تر غیر ملکی سفر میں مصروف رہتے ہیں۔

سرتاج عزیز صاحب کبھی بھی میڈیا کے فن کار نہیں رہے۔ اپنی بات بڑے موثر انداز میں سمجھا سکتے ہیں مگر کیمرے کے بغیر اور ’’آف دی ریکارڈ‘‘۔ معلومات اور مکالمے کے اس ہولناک خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند طاقتور وزراء ہیں جو آج کل وزیر اعظم کے کان میں سرگوشیاں کرتے چلے جارہے ہیں کہ اگر اب کی بار نواز شریف کی حکومت لوگوں کو کوئی ’’رونق‘‘ لگاتی نظر نہیں آرہی تو اس کی وجہ صرف اور صرف پرویز رشید اور ان کی وزارتِ اطلاعات ہے۔ وزیر اعظم کے کان میں یہ شکایات ڈالنے والے سمجھ نہیں رہے کہ وزارتِ اطلاعات اب وہ نہیں رہی جو نواز شریف کی گزشتہ دو حکومتوں میں ہوا کرتی تھی۔ اب دن رات چلنے والے چینل آگئے ہیں۔

انھیں سرکاری اشتہارات نہیں Ratingsچاہیے اور Ratingsفی الحال سیاپا فروشی سے ملتی ہے۔ سیاپا روکنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے پورا سچ بولنا شروع کریں۔ لوگوں کو کھل کر بتائیں کہ ہماری تمام تر داد فریاد کے باوجود امریکی ڈرون حملے روکنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہورہے۔ انھیں روکنے کا طریقہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے پاس بھی نہیں جو نائن الیون کے بعد ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف ایک مفصل قرارداد منظور کرچکی ہے جس پر عمل کرنا اس کے ہر رکن کے لیے لازمی ٹھہرایا گیا ہے۔ ڈرون کے سلسلے میں اگر ہم اقوام متحدہ سے شفا نہ حاصل کرپائیں تو پھر ڈرون کو طیاروں کے ذریعے گرانا ہوگا۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ سب بھی کھل کر اپنے عوام کو بتادیجیے۔ ہوسکتا ہے وہ شیر کی ایک دن کی زندگی کے لیے تیار ہوں اور اقبال کے سچے مومن کی طرح بے تیغ لڑنے پر آمادہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔