بھیس بدل کر بن گئیں مرد

مرزا ظفر بیگ  اتوار 17 نومبر 2019
وہ خواتین جنہوں نے مردوں کا روپ دھار کر تاریخ میں نام کمایا۔

وہ خواتین جنہوں نے مردوں کا روپ دھار کر تاریخ میں نام کمایا۔

پوری انسانی تاریخ میں خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور جس طرح قدم قدم پر ان کا استحصال کیا گیا، اس کے نتیجے میں عورتوں کے لیے زندگی کے کسی بھی شعبے میں خود کو منوانا ممکن نہیں رہا تھا۔ دوسری طرف عورت چوں کہ بہ طور عورت کم زور یا شرمیلی ہوتی ہے تو اسے مختلف گائیڈ لائنز بھی اختیار کرنی پڑتی ہیں۔

اگر اس دور کی عورت نے ان حدود کو توڑا تو اسے پاگل، دیوانی بھی کہا گیا اوریہ بھی کہ یہ عورت کہلائے جانے کے قابل ہی نہیں ہے۔ لیکن جب کبھی تاریخ میں حالات خواتین کے حق میں نہ ہوئے تو پھر انہوں نے اپنی حدود و قیود کو توڑا اور ایک باغی بن کر باہر نکلیں ۔ ذیل میں ہم ایسی چند باہمت اور روایت شکن خواتین کی کہانیاں بیان کررہے ہیں جنہوں نے اپنا روپ بدل کر اور خود کو مردوں کے روپ میں ڈھال کر وہ سب کام کیے جو وہ عورت کے روپ میں نہیں کرسکتی تھیں۔ ان سب خواتین نے تاریخ میں اپنا بڑا نام پیدا کیا۔

٭   Elisa Bernerström

ایلزا برنر اسٹورم نے 1808 اور 1809 کے درمیان سویڈش فوج میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے اس وقت مرد کا روپ دھارا جب ان کا ملک روس سے لڑرہا تھا۔ایلزا ایک ملازمہ کی حیثیت سے کام کرتی تھی کہ اس کی ملاقات برنارڈ سرویئنس نامی فوجی سے ہوئی جو اس وقت اسٹاک ہوم میں مامور تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہوگئی اور انہوں نے شادی کرلی، لیکن جب رجمنٹ نے لڑائی چھوڑدی تو ایلزا کے لیے یہ مشکل کھڑی ہوگئی کہ وہ اپنے محبوب کے بغیر کیسے رہ سکے گی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہے اور اسی کے سامنے مرے، چناں چہ اس نے اپنی صنف چھپالی اور فوج میں شامل ہوگئی۔ اس نے اپنی اصل شناخت اپنی حقیقی محبت کے لیے برقرار رکھی، مگر Elisa Bernerström نے خود کو ایک ذہین فوجی بھی ثابت کردیا تھا۔ اسے میدان جنگ میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار پر اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ گولہ بارود جمع کرکے اپنے ساتھی فوجیوں تک پہنچاتی تھی، مگر بعد میں اس کا راز کھل گیا اور اسے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ پہلے تو اس کے شوہر کے بارے میں سمجھا گیا کہ وہ دوران جنگ مرچکا ہے، مگر بعد میں پتا چلا کہ وہ تو ایک جنگی قیدی بن چکا ہے۔ جنگ کے بعد وہ دونوں اسٹاک ہوم میں مل گئے۔ایلزا وہ واحد عورت نہیں تھی جس نے سویڈش فوج میں ملازمت کی، بلکہ وہ ان میں شامل تھی کہ جس کی بہادری کا اعتراف میدان جنگ میں کیا گیا۔

٭   Rena Kanokogi

Rena Kanokogi ایک معروف یہودی امریکی جوڈو ایکسپرٹ تھی، لیکن 1959میں اسے اندازہ ہوا کہ ایک عورت ہونے کی حیثیت سے وہ نہیں چل سکتی تو اس نے اپنا روپ بدلا اور ایک مرد بن کر YMCA judo tournament میں حصہ لیا اور جیت بھی گئی۔ اس نے اپنے مقابلے پر آنے والے تمام حریفوں کو شکست دی۔ لیکن جب یہ راز کھلا تو اس پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ جیتا ہوا میڈل واپس کردے۔ اس سب کے بعد بھی اس عورت نے ہمت نہ ہاری اور یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ جوڈو کی تربیت حاصل کرنے جاپان ضرور جائے گی۔ پھر وہ تاریخ کی پہلی خاتون ٹرینر بنی جس نے مردوں کے ساتھ ٹوکیو کے Kodokan Institute میں جوڈو کی ٹریننگ دی۔ وہ پہلی فیمیل ورلڈ چیمپئن شپ کی بانی بھی بنی جب یہ مقابلے میڈیسن اسکوائر گارڈن کے فیلٹ فورم پر منعقد کیے گئے تھے۔

لگ بھگ پچاس سال بعد 2009 میں جب وہ اپنے پہلے مقام والے میڈل سے محروم ہوئی تو رینا کو  New York State YMCA نے ایک گولڈ میڈل عطا کیا جو جوڈو کے کھیل میں اس کی خدمات کا اعتراف تھا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے Rena Kanokogi نے کہا تھا:’’یہ میڈل مجھ سے کبھی واپس لیا نہیں جانا چاہیے تھا، مگر ہم ایک غلط کو صحیح کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو شاید ٹھیک ہی ہے۔‘‘ تین ماہ بعد اس کا انتقال ہوگیا۔

٭  Joan of Arc

جان آف آرک نیو آرلیانز کی ملازمہ کی حیثیت سے جانی جاتی تھی، اس نے ایک ایسے نظریے پر کام کیا جس کا خواب اس نے خود دیکھا تھا جس کے نتیجے میں اس نے تاریخ کو بدل ڈالا۔ جان آف آرک ایک کسان لڑکی تھی جس نے خود کو ایک محافظ کے روپ میں ڈھال کر ایک مرد کی طرح زندگی گزاری تاکہ سو سالہ جنگ کے دوران انگلش فوج کے خلاف فرانسیسی فوج کی قیادت کرسکے۔جان ایک شان دار لیڈر ثابت ہوئی اور شاہ چارلس VII ہفتم اس کا چیمپئن تھا۔

ایک محاصرے کے بعد اور کئی دوسری فتوحات کے بعد اس نے امتیاز حاصل کیا۔ جس کے نتیجے میں چارلس کی تاج پوشی ممکن ہوسکی۔جان آف آرک بعد میں ایک برگنڈی گروہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئی جو فرانسیسی امراء کا ایک گروپ تھا جو انگریزوں کے اتحادی بن گئے تھے۔ چناں چہ جان آف آرک کو ان کے حوالے کردیا گیا اور انہوں نے اس پر مختلف الزامات لگاکر ایک مذہبی مقدمے میں پھنسادیا۔ اس پر یہ الزام بھی تھا کہ وہ جان بوجھ کر طویل عرصے تک مرد بنی رہی، چناں چہ 1430 میں اسے مجرم قرار ے کر زندہ جلادیا گیا۔اس وقت جان آف آرک کی عمر صرف 19  سال تھی۔ بعد میں جان آف آرک کو بے قصور قرار دے دیا گیا بلکہ اسے اس کی بہادری کا بعدازمرگ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ اپنی موت کے بعد سے وہ فنون لطیفہ اور دیگر ثقافتی کاموں میں ایک مقبول ترین شخصیت ثابت ہوئی۔

٭    Norah Vincent

Norah Vincent ایک صحافی ہے جس نے ایک “gender spy.” بننے کا فیصلہ کیا تو وہ 18 ماہ تک ایک مرد بنی رہی۔ وہ یہ چاہتی تھی کہ وہ مرد بن کر یہ دیکھ سکے کہ آیا اس حیثیت میں کیا اس کے ساتھ مختلف سلوک کیا جائے گا یا نہیں۔ چناں چہ Norah Vincent نے خود کو مرد بنانے کے لیے کافی تگ و دو کی اور اپنے چہرے پر ایسے ماسک لگائے کہ خود کو بدنما بنالیا، ساتھ ہی اس نے آواز بدلنے کے لیے خصوصی کلاسیں بھی لیں تاکہ وہ کسی عورت کے بجائے کسی مرد کی طرح بولنا سیکھ سکے۔ اس نے لنگوٹ بھی کس لیا تاکہ وہ واقعی کوئی مرد لگ سکے۔ اس موضوع پر اس نے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا عنوان تھا:  “Self-Made Man: One Woman’s Year Disguised As A Man”  یہ کتاب 2006میں شائع ہوئی تھی۔ اس نے اپنے سماجی تجربات کی تصویر کشی کی اور یہ بتایا کہ ایک عورت ہونے کے کیا فائدے ہیں اور ایک مرد ہونے کے کیا نقصانات ہیں۔

Vincent نے لکھا تھا:’’مرد بڑی مشکل میں ہیں۔ ان کے ساتھ مختلف مسائل ہیں اور عورتوں کی مشکلات بالکل دوسری ہیں۔ مردوں کو ہماری ہمدردی کی ضرورت ہے، انہیں ہماری محبت کی بھی ضرورت ہے۔ مرد اور عورت دونوں کو ہی ایک دوسرے کی شدید ضرورت ہے۔‘‘

٭   Kathrine Switzer

Kathrine Switzer نے دوران گفتگو ان یادوں اور باتوں کا تذکرہ کیا جو وہ بوسٹن مراتھن میں اپنے کوچ کے حوالے سے کرتی تھی۔ خواتین کو اس ضمن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے، لیکن اگر وہ کرسکتیں تو ، کوچ کا کہنا تھا کہ تم اس میں جیت سکتی تھیں۔ Kathrine Switzer نے 1967میں ایک نئے نام یعنی K.V. Switzer کے نام سے اس میں حصہ لینے کے لیے سائن کیے تھے تاکہ وہ اس کھیل میں شرکت کرسکے۔ وہ پہلی خاتون ہے جس نے دنیا کے اس مشہور runner’s competition میں حصہ لیا تھا۔

اپنے ویب پیج پر اس موقع کو یاد کرتے ہوئےSwitzer نے مراتھن سے پہلے کے لمحات کا تذکرہ کیا اور کہا کہ ایک ریسر جس کا نام ٹام تھا، اس نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ اپنی لپ اسٹک صاف کردیتی تو شاید پہچانی نہ جاتی، مگر اس نے انکار کردیا۔ جب اسپورٹس رپورٹرز نے مراتھن کے بعد اس سے سوال کیا تو Switzer نے جواب دیا کہ وہ دوڑنا چاہتی تھی اور لمبی ریس میں شریک ہونا چاہتی تھی، زیادہ اچھی کام یابی حاصل کرنا چاہتی تھی اور اگر اس کا کلب اس پر پابندی لگادیتا تب بھی وہ دوبارہ کم بیک کرتی۔

Kathrine Switzer اس خاص سبب یا وجہ کا حصہ ہے کہ ان خواتین کے لیے حالات کیسے بدلے جو ایسی ریس میں حصہ لینا چاہتی تھیں اور خاص طور سے طویل ریس میں شرکت کرنا چاہتی تھیں۔Boston Marathonمیں حصہ لینے کے کچھ ہی عرصے بعد عہدے داران نے مراتھن میں خواتین کی شرکت پر سے پابندی اٹھالی تھی۔

کیتھرین نے ایک خاتون رنر کی حیثیت سے تاریخ رقم کردی۔ اس نے1974 میں  New York City Marathon میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بعد میں اس نے 2017 میں بوسٹن مراتھن کے دونوں مقابلوں میں حصہ لیا تاکہ وہ اس تاریخی دوڑ کی پچاس ویں سالگرہ مناسکے۔

٭   Malinda Blalock

Sarah Malinda Blalock وہ خاتون ہے جس نے Confederate Army میں خود کو رجسٹر کرایا تھا تاکہ امریکی سول وار میں حصہ لے سکے، اس کی وجہ یہ تھی کہ جب اس کے شوہر William Keith Blalock نے چھبیس ویں نارتھ کیرولینا رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی تو خود Malinda Blalock بھی اس طرف مائل ہوگئی۔ لیکن اس نے اس کام کے لیے 1862 میں Samuel Blalock کا نام استعمال کیا۔ Malindaکو اپنے شوہر کی حفاظت کا خیال تھا، کیوں کہ اس دور میں نئے شادی شدہ جوڑوں کے لیے شرط تھی کہ ان کی شادی ہوئے صرف ایک سال گزرا ہو۔ چناں چہ اس نے اسی وفاقی یونٹ کے ساتھ مارچ کیا جس میں اس نے شمولیت اختیار کی تھی۔ اس نے بتایا کہ اسے اس میں شامل ہونے کے لیے اپنے شوہر کے بھائی کا کردار ادا کرنا تھا، تاکہ وہ اس میں شامل ہوسکے۔

دوسری طرف Blalocks پر دھیان نہیں دیا گیا کہ ایک ریاست کے مشرقی حصے کے اعتبار سے ان کی پوشاک کیا ہونی چاہیے تھی اور اس میں دشمن کی نقل و حرکت بھی دیکھنی تھی۔ تاہم ایک رات کو کیتھ اور ملندا بالوک کو دشمن فوجیوں کی تلاش کا مشن سونپا گیا ۔ مگر اسی دوران لڑائی شروع ہوگئی تو ملندا کے کندھے میں گولی لگی اور اس انجری کی وجہ سے ہی اس کے یونٹ کو اس کے راز کا پتا چل گیا۔ کیتھ شاہ بلوط کے درخت کی آڑ میں لڑھک گئی تو طبی امداد دینے والوں نے سوچا کہ غالباً وہ اپنے بخار اور چیچک کی وجہ سے ایسا کررہا ہے اس لیے انہوں نے اسے گھر جانے کی اجازت دے دی۔لیکن جب ملندا نے اسے جوائن کرنے کی کوشش کی اور اپنے ’’بھائی‘‘ کی نگہ داشت کرنی چاہی تو یونٹ کے کرنل نے منع کردیا اور اس پر زور دیا کہ وہ اپنا جرم قبول کرلے۔ بعد میں The Blalocks واپس ہوگئے اور کیتھ نے ملندا کی مدد سے ایک یونین رجمنٹ میں شمولیت اختیار کرلی۔

٭    Sarah Emma Edmonds

Sarah Emma Edmondsایک خاتون جس نے امریکی سول وار میں حصہ لینے کے لیے ایک مرد کا روپ ڈھالا تھا۔Sarah Emma Edmondsکینیڈا میں پیدا ہوئی۔ اس نے ایک میل فیلڈ نرس اور ایک جاسوس بننے کے لیے یونین آرمی میں ایک رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ ایک سرگرم اور پرجوش یونیسٹ تھی اور اس مقصد کے لیے لڑنا چاہتی تھی، چناں چہ اس نے سیکنڈ مشی گن انفینڑی میں شمولیت اختیار کی ۔سارہ کو یہ کام دیا گیا تھا کہ اسے رجمنٹ کے لیے ایک میل کیریئر کی حیثیت سے کام کرنا ہے۔ اسے جاسوسی کے مشن انجام دینے کی ہدایت دی گئی تھی۔

اس نے اپنی یادوں میں لکھا کہ اس کے ساتھ دشمن کی لائنوں کے پیچھے کافی استحصال کیا گیا۔ وہ ایک اسٹریچر لے جانے والے کی حیثیت سے کام کرتی تھی اور میدان جنگ سے زخمی فوجیوں کا اٹھاکر اسپتال پہنچاتی تھی، بعد میں وہ ایک اسپتال اٹینڈنٹ بن گئی تھی۔1863 میں Sarah Edmonds کو ملیریا ہوگیا تو اس نے چھٹی لینے کی کوشش کی، مگر چھٹی نہ مل سکی، وہ اپنا علاج کرانا چاہتی تھی، لیکن اسے یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں اس کا راز نہ کھل جائے۔چناں چہ اس نے اپنے ساتھیوں فرینکلن کو چھوڑا تو اس پر بھگوڑا ہونے کا الزام لگادیا گیا۔ اس نے جون 1863 سے جنگ کے اختتام تک United States Christian Commission میں ایک نرس کی حیثیت سے کام کیا۔ اس نے اپنی یادیں “Nurse and Spy in the Union Army”میں جمع کیں اور اس کتاب سے ہونے والی ساری آمدنی مختلف سولجر گروپس کو عطیہ کردی۔

٭     Saint Marina

یہ آٹھویں صدی کی بات ہے جب میرینا نے ایک لڑکے کا روپ دھارا تاکہ وہ ایک خانقاہ میں اپنے والد کے ساتھ رہے۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس دور میں عورتوں کو خانقاہوں کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ بس یہی وہ مقام تھا جب ایک نوجوان لڑکی کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل کر رہ گئی۔

میرینا ایک راہب بن گئی اور اس نے Marinusنام اختیار کرلیا۔ اس خانقاہ میں کئی سال گزارنے کے کئی سال اس نے اپنے والد کے ساتھ سفر کیے۔ اس کا راز اس وقت خطرے میں پڑگیا جب ایک سرائے کے مالک کی بیٹی نے اس پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا کہ میرینا نے اسے حاملہ کردیا ہے۔ لیکن بہ جائے اس کے کہ اصل حقیقت سامنے لائی جاتی، میرینا کو خانقاہ سے نکال دیا گیا اور اس کے بعد میرینا نے خود ہی اس بچے کی پرورش کی، چناں چہ اس کی اصل اور حقیقی شناخت اس کی موت تک نہ کھل سکی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میرینا نے اپنا راز کھولنے کے بجائے وہ بچہ خود پالا۔ اس کی اصلیت کے بارے میں کوئی نہ جان سکا، میرینا 270 میں دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔پیدائشی اور کنواری سینٹ اور Antioch کی شہید کو آج سب لوگ گردوں کے مریضوں کے لیے ایک پیٹرن سینٹ کہہ کر پکارتے ہیں۔

٭     Saint Mulan

کلاسک اینیمیٹڈ ڈزنی فلم ’’مولان‘‘ ایک قدیم چینی داستانی کردار پر بنائی گئی ہے جو لگ بھگ پانچویں صدی میں ہوا کرتا تھا۔ یہ اس وقت کی کہانی ہے جب چین پر یلغار ہوتی ہے اور مولان نامی کی ایک لڑکی اپنے بوڑھے اور کم زور باپ کی جگہ فوج میں شامل ہوتی ہے، کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ اس کا بوڑھا باپ میدان میں لڑ نہیں سکتا۔

مولان نے فوج میں شامل ہونے کے بعد کوئی دس سال تک جنگ میں حصہ لیا۔ اسے کنگ فو، تلوار بازی اور تیراندازی میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ روایات کے مطابق مولان کو ایک سرکاری عہدہ دیا گیا لیکن وہ صرف ایک اونٹ چاہتی تھی تاکہ اپنے گھر جاسکے۔ جب وہ روایتی زنانہ لباس پہنتی ہے تو اس کے ساتھی فوجی سمجھ گئے کہ وہ پورے وقت تک ایک عورت ہی رہی ہے۔

صدیوں تک فلم بین اور ناظرین اس انوکھی لڑکی کے سحر میں جکڑے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہانی بار بار یعنی کئی بار بیان کی گئی جن میں ڈرامے بھی شامل ہیں، اوپیراز بھی اور فلمیں بھی۔ ’’مولان‘‘ کا پہلا آن اسکرین ورژن 1927 میں آیا تھا۔ڈزنی اینیمیٹڈ فلم  “Mulan” اس کہانی کو معروف اور مقبول ثقافت میں لائی ہے۔ ایک سیکوئل “Mulan II” 2004میں آیا تھا اور ایک لائیو ایکشن فلم جس میں  Liu Yifei نے مولان کا کردار کیا ہے، یہ فلم 2020 میں ریلیز کردی جائے گی۔

٭   Hannah Snell

یہاں کے لوگ عام طور سے یہ کہتے ہیں کہ Hannah  Snell کو فوجی بننے کا بہت شوق تھا، اسی لیے اپنے بچپن میں وہ اکثر فوجی بنی رہتی تھی۔ اس نے اپنی پوری زندگی ایک برطانوی فوجی جیمس گرے بن کر گزاری جس نے 1700 کے عشرے میں بڑی بہادری کے کارنامے انجام دیے تھے۔ ہوا یوں کہ اس نے اپنے برادر نسبتی سے ایک مردانہ سوٹ حاصل کیا اور پھر اس کا نام اختیار کرلیا تاکہ میدان جنگ تک پہنچ سکے۔

Hannah کوئی بارہ مرتبہ زخمی ہوئی جس میں ایک بار اس کی جانگھ میں زخم آئے۔ اس نے اس موقع پر اپنی شناخت کیسے چھپائی اور اپنا علاج کیسے کرایا، یہ ابھی تک ایک بڑا راز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک مقامی عورت سے کہا تھا کہ وہ اس کی گولی نکال دے اور رجمنٹ کے سرجن کے پاس نہیں گئی تھی۔

Hannah Snell نے اپنی شناخت اپنے بحری جہاز کے ساتھیوں کے سامنے اتفاقی طور پر کھول دی تھی۔ اس کی کہانی “The Female Soldier”لندن سے دو مختلف ایڈیشنز میں شائع ہوئی تھی۔ اسے باعزت طور پر ڈسچارج کیا گیا اور پنشن بھی دی گئی جو اس زمانے میں ایک حیرت انگیز اور نادر واقعہ تھا۔اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد Hannah ایک شراب خانے میں ملازم ہوگئی۔ بعد میں دماغی اور جسمانی صحت خراب ہونے پر اسے ایک ادارے میں داخل کردیا گیا جہاں 1791میں وہ دنیا سے رخصت ہوگئی۔

٭   Mary Read

پیدائش:1690ء۔ میری ریڈ ان دو خواتین میں شمار کی جاتی ہے جن پر بحری قزاقی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ میری نے اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ اس وقت ایک مرد کی حیثیت سے گزارا جب اس نے برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی اور اسی مرد کے روپ میں وقت گزارا۔ اس نے اس دوران سمندر کا رخ بھی کیا جسے تاریخ داں قزاقی کا سنہرا دور کہتے ہیں، یہ زمانہ اٹھارویں صدی کے وسط کا ابتدائی دور تھا۔ لیکن اس کی فوجی زندگی بدلنے والی تھی، کیوں کہ جب اس کے بحری جہاز کو ویسٹ انڈیز میں قزاقوں نے پکڑا تو انہوں نے میری ریڈ کو زبردستی اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ شروع میں تو وہ اس کے لیے تیار نہ تھی، مگر بعد میں اس نے اپنی قزاق والی اس زندگی سے خوب انجوائے کیا۔

اس تہلکہ خیز مہم کے دوران میری ریڈ اپنی ایک اور بحری قزاق ساتھی اینی بونی کی پارٹنر تھی جو بڑی بے رحم اور سفاک خاتون تھی اور ان دونوں نے اس حوالے سے بڑی زبردست شہرت اور مقبولیت بھی حاصل کی تھی۔ ان کی سفاکی اور بے رحمی کا یہ عالم تھا کہ یہ دونوں بحری جہاز پر سوار کسی بھی وقت کچھ بھی کرنے کو تیار رہتی تھیں۔ یہ دونوں خواتین اور ان کے عملے کو بہاماز کے گورنر نے یہ حکم دیا کہ اس جہاز کے ان دونوں خواتین کو بہ طور خاص اور پورے عملے کو برطانوی حکومت کے حوالے کیا جائے، کیوں کہ یہ سب تاج برطانیہ کے لیے خطرہ بنتے جارہے تھے۔

چناں چہ دونوں خواتین کو گرفتار کرکے ان کو سزائے موت سنادی گئی، مگر اس وقت دونوں خواتین امید سے تھیں تو ان کی سزا کچھ عرصے کے لیے روک دی گئی، بعد میں ریڈ تو اپریل 1721 میں بخار کے بعد جیل میں ہی مرگئی اور دوسری کا کچھ پتا نہ چل سکا۔

٭    Deborah Sampson

Deborah Sampson کا تعلق Massachusetts سے تھا اور وہ انقلابی جنگ میں حصہ لینے کے لیے اتنی زیادہ پرعزم تھی کہ اس نے دو بار فوج میں شامل ہونے کی کوشش کی۔ اپنی دوسری کوشش کے دوران اس نے “Robert Shirtliffe,” کا نام استعمال کیا اور کام یابی سے لگ بھگ دو سال تک جنگ لڑی۔ اس کا قد پانچ فیٹ سات انچ تھا جو خاصا متاثر کن تھا۔ وہ اس دور کی خواتین کے مقابلے میں واقعی کافی دراز قد تھی۔

Deborah Sampson نے Fourth Massachusetts Regiment جوائن کی تھی اور اسے کیپٹن جارج ویب کی فوج میں بھیجا گیا تھا۔ اس کو ایک خطرناک کام دیا گیا تھا کہ وہ غیرجانب دار علاقوں پر نظر رکھے اور ان کی حفاظت بھی کرے۔ ساتھ ہی اسے یہ ہدایت بھی دی گئی تھی کہ وہ مین ہٹن میں برطانیہ کے فوجیوں اور ان کے لیے گولہ بارود اور اسلحہ کی فراہمی بھی دیکھے۔

ڈیبورا کی شناخت نے اس کے لیے بچاؤ آسان کردیا تھا، مگر اس کے لیے کئی اہم کالز ناگزیر تھیں۔ اس کی پیشانی پر ایک تلوار سے کاری ضرب لگائی گئی اور ساتھ ہی اس کی ٹانگ پر پستول سے فائر بھی کیا گیا۔ ڈیڑھ سال تک ملازم کے بعد ڈیبورا وبائی مرض میں مبتلا ہوگئی تو اسے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کی شناخت کھل گئی۔ اکتوبر 1783میں اسے پورے اعزاز کی ساتھ رخصت کردیا گیا۔ جنگ کے بعد اس کی زندگی عام طور سے ایک کسان والی زندگی تھی۔1802میں اس نے پورے ملک کا دورہ کیا اور اپنے تجربات کے بارے میں لوگوں کو بتایا۔ وہ پہلی امریکی خاتون تھی جس نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ وہ اپنے لیکچرز کے دوران مکمل اور ریگولر ملٹری یونی فارم میں ہوتی تھی۔

٭     Mary Ann Evans

میری این ایوانز انیسویں صدی کی ایک مصنفہ تھی جسے یہ فکر تھی کہ اس کے کام کو مردوں کے معاشرے میں اہمیت نہیں دی جائے گی، کیوں کہ وہ ایک عورت تھی۔ چناں چہ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے چھ ناول George Eliot کے قلمی نام سے شائع کروائے گی۔

اس وقت کی زیادہ تر خواتین رائٹرز ہلکے پھلکے اور رومانی ناولوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتی تھیں۔ اس لیےMary Ann Evans نے کوشش کی کہ اس کے کام کو اس دور کی دیگر فیمیل رائٹرز سے ہٹ کر دیکھا جائے اور لوگ اس کے کام پر ایک ایڈیٹر یا ایک نقاد والی نظر بھی رکھیں۔ یہ بھی سوچا گیا تھا کہ ایک قلمی نام استعمال کرنے سے اس کی نجی زندگی عوامی اسکروٹنی سے بچ جائے گی، کیوں کہ وہ شادی شدہ جارج ہنری لوئس کے ساتھ بھی وابستہ تھی، اور لوئس ہی وہ واحد شخص تھا جس نے میری این کی لکھنے پر خوب حوصلہ افزائی کی تھی۔

Eliot نے Westminister Review کے لیے بھی لکھا تھا جو فلسفیانہ بنیادوں کا ایک جرنل تھا اور بعد میں وہ اس کا ایڈیٹر بھی بن گیا تھا۔ اس کی زیر ادارت درج ذیل ناول شائع ہوئے تھے:

“Adam Bede” (1859)

“The Mill on the Floss” (1860)

“Silas Marner” (1861)

“Romola” (1862-63)

“Middlemarch” (1871-72)

اور  “Daniel Deronda” (1876)

متعدد تحریریں پراونشیئل انگلینڈ میں سیٹ کردی گئی تھیں اور پھر وہ اپنے  realism اور نفسیاتی وجدان یا بصیرت کے لیے بھی جانے گئے۔ اس کی سب سے معروف مثال “Middlemarch,” ہے جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اس کی ہیروئن ایک غلط وقت میں تاریخ میں رہ رہی ہے۔

٭     Charley Parkhurst

یہ اولڈ ویسٹ کا سب سے شان دار اور زبردست اسٹیج کوچ ڈرائیور تھا اور بعد میں بہت سے لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب انہیں یہ پتا چلا کہ وہ ڈرائیور کوئی مرد نہیں بلکہ ایک عورت تھی۔ Charley Parkhurst ایک یتیم خانے میں پلی بڑھی تھی جہاں سے وہ بھاگ گئی اور پھر اس نے ایک لڑکے کا روپ دھارا تاکہ اصطبل وغیرہ میں کام کرسکے۔ اور یہی وہ جگہ تھی جہاں سے اس نے کوچ چلانی سیکھی، اس عورت کو عام طور سے یا تو ایک آنکھ والی چارلی کہا جاتا تھا یہ پھر اسے چھ گھوڑوں والی چارلی بھی کہا گیا تھا۔ وہ دیکھنے میں پستہ قد تھی مگر عادت اور فطرت میں بہت مضبوط اور توانا تھی۔ اس نے ایک ماہر اور باصلاحیت کوچ ڈرائیور کی حیثیت سے بڑی شہرت حاصل کی تھی، مگر جب اس کا راز کھلا تو اسے جارجیا بھاگنا پڑا تھا۔ بعد میں چارلی کو 1851میں مغرب کی طرف کیلی فورنیا جانا پڑا جہاں پہنچ کر ایک بار Charley Parkhurst نے ایک مشہور کوچ ڈرائیور بننے کی کوشش شروع کردی جس کے نتیجے میں اس کے پاس متعدد میل کوریئر بھی آگئے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1868 میں وہ پہلی خاتون تھی جس نے کیلی فورنیا میں صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالا تھا۔

1879ء میں وہ زبان کے سرطان کی وجہ سے مرگئی تو ڈاکٹرز کو یہ پتا چلا کہ Charley Parkhurst کیا تھی جس کے ہاں ابتدائی دنوں میں بچہ بھی پیدا ہوا تھا۔

٭      Dorothy Lawrence

ڈوروتھی لارنس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ایک جنگی نامہ نگار اور صحافی بننے کا خواب دیکھا تھا۔ لیکن جب اس کے ایڈیٹرز نے اسے یہ بتایا کہ اس کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا تو اس نے ایک تحقیقی صحافی بننے کا ارادہ کرلیا، اس نے فرانس کے دیہی اور مضافاتی علاقوں میں سائیکل چلائی اور اپنی شناخت چھپانے کے لیے خصوصی لباس بھی زیب تن کیا، یہاں تک کہ اس نے اپنی پیلی جلد کو چھپانے کے لیے فرنیچر پالش بھی استعمال کی۔ جب وہ Leicestershire Regiment میں بھرتی ہونے گئی تو اس نے اپنی دستاویزات میں جعلی طریقے سے تبدیلی کرائی اور ایک برطانوی فوجی ہونے کا دعویٰ کیا، ڈوروتھی لارنس یا ڈینس اسمتھ جیسا کہ اس کے فوجی اسے جانتے تھے، اس نے محاذ پر اگلے مورچوں کے دورے کیے اور ایک بارودی سرنگیں صاف کرنے والی کمپنی میں ایک انجینئر کی حیثیت سے کام کیا۔ میدانوں میں بارودی سرنگیں بچھانے کے دس دن بعد اس نے اپنے کمانڈنگ افسر کے سامنے اعتراف کرلیا کہ وہ ایک عورت ہے، کیوں کہ اسے اندیشہ تھا کہ وہ پکڑی جائے گی تو بہت برا ہوگا۔ چناں چہ اسے ایک جاسوسہ کی حیثیت سے گرفتار کرلیا گیا۔ ادھر فوج کو اندیشہ تھا کہ کہیں ڈوروتھی کی طرح دوسری عورتیں بھی نہ کریں چناں چہ انہوں نے ڈوروتھی سے ایک حلف نامہ سائن کرالیا کہ وہ اپنے تجربات کبھی نہیں لکھے گی، مگر کئی سال بعد اس نے اپنی پوری کہانی لکھ بھی دی اور شائع بھی کرادی۔

٭   Billy Tipton

Billy Tipton کو تاریخ میں ایک مشہور جاز میوزیشئین کا مقام حاصل ہے جس نے پیانو اور سیکسافون دونوں ہی بجائے تھے۔ اس کی پیدائش کا سنہ 1914 تھا۔ اس کا پیدائشی نام  Dorothy Lucille Tipton تھا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہائی اسکول بینڈ پر ایک اسپاٹ نہیں لگاسکتی، کیوں کہ وہ ایک لڑکی تھی۔ بلی نے ایک پروفیشنل میوزیشیئن کے طور پر کام کیا اور پھر اس نے ایک دن یہ طے کیا کہ وہ اب مرد بن کر زندگی گزارے گی۔

1940 تک Tiptonنے خود کو ایک مرد کے بہ طور پیش کیا اور اپنی جنس چھپانے کے لیے اپنے سینے کو پوشیدہ رکھنے کا اہتمام بھی کیا۔اس نے متعدد بینڈز کے ساتھ کام کیا اور اس کی کئی خواتین کے ساتھ طویل وابستگی بھی رہی، لیکن ان میں سے کسی کو یہ پتا نہ چل سکا کہ وہ کوئی مرد نہیں بلکہ ایک عورت ہے۔ Tipton نے 1957 میں جاز اسٹینڈرڈز کی دو البمز ریکارڈ کیں جن میں یہ گیت بھی شامل تھے:

“Can’t Help Lovin’ Dat Man,”

“Willow Weep For Me,”

“What’ll I Do” اور

“Don’t Blame Me.”

بتایا جاتا ہے کہ ان البمز کی 17,000 سے بھی زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں جو اس زمانے میں ایک آزاد امیدوار کے لیے ایک قابل قدر کارنامہ تھا۔ Tipton نے Kitty Oakes کے ساتھ تین بیٹے گود لیے اور نہ تو Tipton کو اور نہ ہی Oakes نے کبھی Tipton کے راز کو جانا، البتہ انہیں1989 میں 74 سال کی عمر میں اس کی موت کے وقت اس کا یہ راز کھل ہوگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔