چھری کانٹا

جاوید چوہدری  بدھ 23 اکتوبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

پاکستان کی ایک کاروباری شخصیت فوجی حکمرانوں اور سیاسی بادشاہوں دونوں کے ساتھ کام کر چکی ہے‘ میں نے جنرل اسلم بیگ سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک اور ملک معراج خالد سے لے کر میاں نواز شریف تک ملک کی تمام اہم شخصیات کو ان کے ساتھ بیٹھتے‘ ان سے مشورہ کرتے اور مشکل وقت میں ان سے مدد مانگتے دیکھا‘ یہ ملک کی واحد کاروباری شخصیت ہیں جو ملک میں سیاستدانوں اور حکمرانوں سے زیادہ مقبول بھی ہیں اور بعض معاملات میں طاقتور بھی‘ میں نے ان سے ایک بار پوچھا ’’آپ نے فوجی اور سیاسی حکمرانوں میں کیا فرق پایا‘‘ انھوں نے اس کی ایک انوکھی توجیہہ پیش کی‘ ان کا کہنا تھا ’’ فوجی حکومتوں اور سیاسی حکمرانوں میں چھری‘ کانٹے اور پلیٹ کا فرق ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا مطلب‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’فوج اپنے کیڈٹس کو سب سے پہلے کاکول اکیڈمی میں چھری کانٹے سے کھانا کھانا سکھاتی ہے‘ فوجی افسر آنے والی زندگی میں اس چھری کانٹے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں۔

یہ لوگ جب اقتدار میں آتے ہیں تو بھی یہ چھری کانٹے کا استعمال ترک نہیں کرتے ‘ یہ کبھی پوری ڈش‘ پوری دیگچی یا پوری دیگ ہڑپ کرنے کی کوشش نہیں کرتے جب کہ ان کے مقابلے میں ہمارے عام شہریوں کو کھانا کھانے کی تمیز نہیں سکھائی جاتی‘ آپ کسی دعوت میں چلے جائیں‘ آپ کو سوٹڈ بوٹڈ‘ پڑھے لکھے اور مہذب لوگ کھانے پر جھپٹتے دکھائی دیں گے‘ لوگ پلیٹ کوکھانے کا ڈھیر بنالیں گے‘ یہ اس پلیٹ کو میز تک پہنچانے کا تردد بھی نہیں کریں گے‘ یہ بوفے اسٹینڈ پر کھانے کی پراتوں پر کھڑے ہو کر کھانا شروع کر دیں گے‘ آدھا کھانا فرش پر گر ے گا‘ شرٹ پر سالن کے چھینٹے ہوں گے‘ چاول کے دانے داڑھی میں پھنس جائیں گے اور ہاتھ قورمے سے تر ہوں گے‘ یہ لوگ جب ترقی کر کے سیاست میں آ جاتے ہیں تو آپ کو یہ رویہ حکومت میں بھی دکھائی دیتا ہے‘ یہ لوگ اقتدار کے ایوان میں داخل ہوتے ہی دیگوں پر بھوکوں کی طرح پل پڑتے ہیں‘ یہ اپنی ضرورت سے زیادہ پلیٹ بھر لیتے ہیں اور بوفے اسٹینڈ پر کھڑے کھڑے دونوں ہاتھ پلیٹ میں ڈال لیتے ہیں۔

چنانچہ ان کا کھایا پیا دور سے نظر آ جاتا ہے‘‘ ان کا کہنا تھا‘ آپ ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک چاروں فوجی ڈکٹیٹروں کے اثاثے جمع کر لیں اور اس کے بعد آپ کسی ایک سیاسی خاندان کے اثاثوں کی تفصیل اکٹھی کرلیں‘ آپ کو اس سیاسی خاندان کے اثاثے چاروں فوجی آمروں کے مجموعی اثاثوں سے زیادہ ملیں گے‘‘ ان کا کہنا تھا ’’ میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتا فوجی آمر یا ان کے ساتھی کرپٹ نہیں ہوتے‘ یہ بھی کرپٹ ہوتے ہیں مگر یہ لوگ جب بھی کھاتے ہیں‘ یہ چھری کانٹے سے کھاتے ہیں‘ یہ پوری دیگ اجاڑنے کی کوشش نہیں کرتے‘ یہ خاندان کے لیے اثاثے بناتے ہیں اور نہ ہی بیرون ملک محلات تعمیر کرتے ہیں‘ ان کی کرپشن چند کروڑ تک محدود ہوتی ہے جب کہ سویلین حکمران پورا خزانہ کھاجاتے ہیں‘‘ ان کا کہنا  تھا ’’ آپ کسی ملٹری ڈکٹیٹر کے بعد یہ نہیں سنیں گے خزانہ خالی ہے جب کہ ہر سویلین حکومت کے آخر میں خزانہ خالی ہو جاتا ہے‘ کیوں؟‘‘۔

میں نے ان سے پوچھا ’’ کیا ملک میں پانچویں مارشل لاء کا امکان ہے‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’ یہ فیصلہ میاں نواز شریف نے کرنا ہے‘ اگرمیاں نواز شریف دو ڈھائی سال میں ڈیلیور نہ کرسکے تو پورے ملک کے عوام کراچی کے لوگوں کی طرح فوج کا مطالبہ کریں گے اور یہ مارشل لاء پچھلے مارشل لائوں سے مختلف ہو گا کیونکہ یہ فوجی حکمران جب بھی واپس جانے لگیں گے‘ عوام ان کے قدموں میں بیٹھ کر درخواست کریں گے‘ آپ خدا کے لیے واپس نہ جائیں‘‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کے ہوتے ہوئے پانچواں مارشل لاء ممکن نہیں ہوگا‘‘ انھوں نے ایک اور قہقہہ لگایا اور دعویٰ کیا ’’ مجھے خطرہ ہے آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا بھی مارشل لاء کا مطالبہ کرنے والوں میں شامل ہو جائے گا‘ آپ جب پروگرام نہیں کر سکیں گے‘ جب آپ کی ڈی ایس این جی اور رپورٹرز کو سڑکوں سے اٹھا لیا جائے گا‘جب ہر میڈیا گروپ میں ولی خان بابر جیسے درجنوں رپورٹروں کی تصویریں لگی ہوں گی اور پولیس آپ کے دفتروں‘ آپ کے کیمروں کی حفاظت نہیں کر سکے گی اور جب حکومت عدالت کے کسی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرا سکے گی تو کیا جج اور میڈیا فوج کو دعوت نہیں دیں گے‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ مجھے اس تبصرے سے اختلاف تھا مگر میں خاموش رہا۔

ہم اس تھیوری سے ہزار اختلاف کر سکتے ہیں‘ ہمیں کرنا بھی چاہیے‘ آج کے دور میں مارشل لائوں کا انتظار کرنا یا فوجی حکمرانوں کی اخلاقیات کی تعریف کرنا بے وقوفی بھی ہے اور نالائقی بھی لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے لوگ آج جنرل پرویز مشرف کے دور کو یاد کر رہے ہیں‘ ہم لوگوں کو لاکھ یقین دلائیں آج کے حالات جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں مگر لوگ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے‘ لوگ کہتے ہیں مشرف کے دور میں مہنگائی بھی کم تھی‘ لاء اینڈ آرڈر بھی کنٹرول میں تھا‘ بے روزگاری اور لوڈ شیڈنگ بھی نہیں تھی‘ ڈالر بھی 60 روپے کا تھا اور ملک معاشی لحاظ سے بھی ترقی کر رہا تھا‘ ہم لوگ انھیں بتاتے ہیں وہ ترقی مصنوعی تھی‘ لوگ اس کے جواب میں کہتے ہیں‘ اگر وہ ترقی مصنوعی تھی تو یہ حکومتیں چند دن کے لیے مصنوعی ترقی کرلیں‘ یہ چھ سال میں کیوں کچھ نہیں کر سکے؟ اور ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔

مجھے ایک کورین کمپنی کا نمائندہ بتا رہا تھا‘ کوریا کے قومی دن کی تقریب میں ایک تگڑے وفاقی وزیر نے مشاہد حسین سید سے پوچھا ’’ شاہ جی کیا ہم دسمبر نکال جائیں گے‘‘ مشاہد حسین سید نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’ آپ دو دسمبر نکال لیں گے لیکن تیسرے پر پھنس جائیں گے‘‘ اور یہ سوال اور جواب حکومت کے چوتھے مہینے میں ہو رہے ہیں‘ آپ اس سے حکومت کے مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے بارے میں بہترین اور جامع تبصرہ چوہدری شجاعت حسین نے کیا‘ چوہدری صاحب نے کہا ’’پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کچھ کرنا نہیں چاہتی تھی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت سے کچھ ہو نہیں رہا‘‘ یہ تبصرہ قرین قیاس ہے کیونکہ پچھلی حکومت کرپٹ تھی اور موجودہ حکومت نااہل ہے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس مخلص اور تجربہ کار وزراء موجود ہیں مگر بحرانوں کے اس دور میں صرف سیاسی تجربہ اور ذاتی اخلاص کافی نہیں‘ آپ کو اہلیت بھی چاہیے اور بدقسمتی سے میاں صاحب نے اپنے وزراء کو جو وزارتیں عنایت کی ہیں ان میں سے اسحاق ڈار کے سوا کسی شخص کو اپنے پورٹ فولیو کا تجربہ نہیں‘ خواجہ آصف بجلی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

چوہدری نثار داخلہ کے ایشوز نہیں سمجھتے‘ خواجہ سعد رفیق کو ریلوے کے بارے میں معلومات نہیں‘ شاہد خاقان عباسی کو پٹرولیم کی سمجھ نہیں اور میرے انتہائی محترم دوست رانا تنویز دفاعی پیداوار کے بارے میں نہیںجانتے چنانچہ ان لوگوں نے جب سے وزارتیں سنبھالی ہیں بیورو کریسی نے انھیں آگے لگا لیا اور یہ روزانہ کی بنیادوں پر ایسی غلطیاں کر رہے ہیں جن سے عوام کے معاشی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگ چار ماہ میں غصے سے کھول رہے ہیں‘ میاں صاحب جانتے تھے یہ 2013ء میں ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے چنانچہ یہ اگر 2009ء یا 2010ء میں وزارتوں کا فیصلہ کر لیتے اور مستقبل کے وزراء کو ٹریننگ اور پلاننگ کا ٹاسک دے دیتے تو میاں صاحب کے وزراء آج اپنی اپنی وزارت کے ماہر بھی ہوتے اور یہ ڈیلیور بھی کر رہے ہوتے مگر آپ نے پرانے بادشاہوں کی طرح اقتدار کا ہما اڑایا اور یہ بدنصیب پرندہ جس جس کے سر پر بیٹھ گیا‘ آپ نے اسے پوشاک فاخرہ پہنا کر مسائل کے سمندر میں دھکا دے دیا اور ان بے چارے وزیروں کے ساتھ پوری قوم بھی بھنور میں پھنس گئی‘ یہ ایک المیہ ہے لیکن اس سے بڑا المیہ وزراء کے اعتراضات ہیں‘ میاں صاحب کے وزراء اپنی نااہلی کے استروں کو مالا میں پرو کر وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ یہ گلہ کر رہے ہیں‘ پرویز رشید میڈیا کو ہینڈل نہیں کر پا رہے۔

ہمیں شیخ رشید‘ محمد علی درانی یا قمر زمان کائرہ جیسا مجاہد صفت وزیر اطلاعات چاہیے جو ریت میں کشتیاں چلا دے‘ یہ لوگ پرویز رشید کو ہٹوانا چاہتے ہیں مگر حکومت پرویز رشید کو ہٹا کر مزید غلطی کرے گی کیونکہ میڈیا اگر اس وقت حکومت کو تھوڑی بہت سپورٹ دے رہا ہے تو اس کی بڑی وجہ پرویز رشید ہیں‘ یہ کالم نگاروں اور اینکرز کے ذاتی دوست ہیں اور یہ لوگ پرویز رشید کی حیا کی وجہ سے خاموش ہیں‘ حکومت نے جس دن حیا کا یہ پردہ اٹھا دیا حکومت چھ ماہ میں وہاں پہنچ جائے گی جہاں پرویز مشرف سات سال اور آصف علی زرداری چار سال بعد پہنچے تھے‘ حکومت یہ بھول رہی ہے دنیا کی بہترین میڈیا اسٹرٹیجی پرفارمنس ہے‘ آپ نے جس دن پرفارم کرنا شروع کر دیا‘ آپ کو کسی میڈیا منیجر کی ضرورت نہیں رہے گی‘ آپ آج ڈالر کو ساٹھ روپے پر لے آئیں‘ بجلی کی قیمت نصف کر دیں یا پٹرول کی قیمت کنٹرول کر لیں ملک کا پورا میڈیا آپ کا پی آر او بن جائے گا لیکن آپ اگر بیڈ گورننس اور نااہلیت کے انبار لگاتے جائیں گے تو آپ خواہ گوئبلز کو بھی اپنا ایڈوائزر بنا لیں لوگ آپ کے کلمے پر بھی یقین نہیں کریں گے مگر حکومت اپنا فوکس ٹھیک کرنے کی بجائے میڈیا کو فوکس کر رہی ہے اور یہ وہ غلطی ہے جس کا شکار ماضی کی تمام حکومتیں ہوتی رہیں اور آخر میں عزت سادات سے بھی محروم ہو گئیں۔

میاں صاحب کو چاہیے یہ خود دیگ میں ہاتھ ڈالیں اور نہ کسی کو ڈالنے دیں اور یہ اس رکھوالی کے ساتھ ساتھ اچھے ’’کُک‘‘ کا بندوبست بھی کریں کیونکہ ہمارے ملک کو اس وقت ایمانداری سے زیادہ اہلیت کی ضرورت ہے‘ آپ کے پاس اگر اہل لوگ ہوں گے تو آپ ملک چلا لیں گے ورنہ دوسری صورت میں آپ کے ساتھ ساتھ جمہوریت بھی رخصت ہو جائے گی اور چھری کانٹے والے واپس آ جائیں گے اور یہ لوگ اگر پانچویں بار آئے تو بیس پچیس سال تک واپس نہیں جائیں گے کیونکہ انھیں اس بار عوام کی حمایت حاصل ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔