ورلڈ پولیو اریڈیکیشن ڈے اور حقائق

روبینہ عامر  بدھ 23 اکتوبر 2013

دروازے پر دستک ہوئی۔ کھولنے پر حیرت کا جھٹکا لگا۔۔۔۔ یہ کیا پولیو کی ٹیم؟ میں نے پوچھا بھئی پچھلے سات ماہ سے کہاں تھے آپ لوگ؟ سامنے کھڑی خاتون جو دیکھنے میں ہی بیچاری مفلوک الحال لگ رہی تھیں کہنے لگیں۔۔ باجی ہم اس علاقے کے نہیں لانڈھی سے آئے ہیں۔ آپ کو اگر کچھ معلوم کرنا ہے تو اس علاقے کی لیڈی ہیلتھ ورکر سے معلوم کریں۔ ذہن میں مچلتے بہت سے سوالوں کو دبائے میں نے پوچھا کہ بھئی لیڈی ہیلتھ ورکر تو مہم کے دوران علاقے میں ہی ہوتی ہیں لیکن کبھی نظر نہیں آئیں۔ اس سوال کا ان کے پاس شاید کوئی جواب نہیں تھا اس لیے خاموشی سے ادھر ادھر دیکھتی رہیں۔

خیر میں نے ٹیم کے ذریعے ہی لیڈی ہیلتھ ورکر صاحبہ کو پیغام بھجوا دیا کہ ہمارے علاقے میں ہونے والی انسداد پولیو مہم تسلی بخش نہیں اور اگر ہو سکے تو مل کر شکایات سن لیں ۔۔۔۔ مگر وہ دن ہے اور آج کا دن لیڈی ہیلتھ ورکر صاحبہ کا کچھ پتہ نہیں۔ کراچی کے ماڈل ٹائون کے اس علاقے میں مجھے شفٹ ہوئے دو سال ہونے کو آئے۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اس دوران میرے گھر پر انسداد پولیو مہم کی ٹیم صرف تین بار آئی۔ ہاں ہر مہم کے بعد میرے گھر کے دروازے پر انتہائی خاموشی سے زیرو بٹا زیرو کے مارک کا اضافہ ضرور ہو جا تا ہے۔ ایک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ میں دو بچوں کی ماں بھی ہوں، اپنی صحافتی زندگی میں طویل عرصے تک شعبہ صحت کی رپورٹنگ کر نے کی وجہ سے اس بات کا مجھے گہرا شعور حاصل ہوا ہے کہ روٹین ایمیونائیزیشن کے بعد چلائی جانے والی انسداد پولیو مہم کے دوران پانچ سال تک کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا کتنا ضروری ہے۔ لہٰذا ہر مہم کے بعد قریبی اسپتال سے اپنے بچوں قطرے پلوا دیے۔ لیکن کیا معاشرے میں موجود تمام خاندانوں میں اتنا شعور ہے؟ کیا میری طرح ہر ماں باپ کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ذمے داری پوری کر سکیں۔ اور اگر نہیں توکیا کراچی جیسے شہر میں ناقص پولیو مہم کا کوئی جواز یا justification دی جا سکتی ہے؟

پاکستان اس وقت پولیو وائلڈ وائرس کے خلاف جنگی صورت حال سے دو چار ہے۔ فاٹا اور خیبر پختون خوا سے لے کر پنجاب اور پھر کراچی تک ہر وہ بچہ جس نے روٹین ایمیونائیزیشن نہیں لی پولیو کے رسک پر ہے۔ اس کی صحت، مستقبل اور اہل خانہ کے خواب تک خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔ پولیو ایک درد انگیز بیماری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کے ناقابل بیان اندورنی حالات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہجرت ہو رہی ہے۔ اور پولیو وائرس بھی اس ہجرت کے ساتھ ساتھ بڑی آسانی سے ادھر ادھر پھر رہا ہے۔ اور تباہیاں پھیلا رہا ہے۔ پولیو اریڈیکیشن اینڈگیم (end game &)اسٹرٹیجک پلان کے مطابق اس وقت تک ملک میں پولیو کے چھیالیس کیسز کنفرم ہو چکے ہیں جس میں فاٹا میں چونتیس، سندھ میں چار، پنجاب میں دو اور خیبر پختونخوا کے چھ کیسزز شامل ہیں۔

فاٹا کے دو لاکھ ساٹھ ہزار بچوں تک پولیو ٹیم پہنچ ہی نہیں پا رہی اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ طالبان کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کے بعد خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر بیشتر علاقوں میں بھی کھل کر مہم نہیں چلا ئی جا رہی۔ اس لیے مریضوں تعداد مزید بڑھنے کے امکانات ہیں۔ دو ہزار آٹھ تا دو ہزار گیارہ میں پہلے ہی اس وبا کا بہت بڑا آئوٹ بریک ہو چکا ہے۔ حکومت کا منصوبہ ہے کہ دو ہزار اٹھارہ تک ملک سے پولیو وائرس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائیگا، مگر کیسے؟ ایک موثر حکمت عملی کے فقدان سے پولیو کی واپسی کے خطرات سے صرف نظر کرنا نہ صرف سخت اندوہ ناک ہو گا بلکہ محکمہ جاتی اور انتظامی سطح پر کسی قسم کی کوتاہی مجرمانہ غفلت کے زمرے میں شمار ہو گی۔ اس لیے زمینی حقائق حالات کی کوئی اور ہی تصویر دکھا رہے ہیں۔

ملک سے پولیو وائرس نا ختم ہونے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ جہاں طالبان ہیں وہاں بظاہر دیگر چھوٹی وجوہات بھی ہیں۔ مثلاً پیدا ہونے کے ابتدائی نو مہینے تک پلائے جانے والے حفاظتی قطرے جسے روٹین ایمیونائیزیشن بھی کہتے ہیں کیا ہر بچہ حاصل کر پا رہا ہے؟

سندھ میں رپورٹ ہونے والے دو کیسز میں بچوں کی روٹین ایمیو نائیزیشن زیرو تھی۔۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ پولیو سے بچائو کے لیے چلائی جانے والی اضافی خوراکوں کی مہم میں ٹیموں کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ایسے علاقوں میں بھی جہاں سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں بہت سے بچے قطرے پینے سے محروم رہ جا تے ہیں۔ جن ویکسینیٹرز کو مہم کی تربیت دی جاتی ہے عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ غائب ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہہ غیر تربیت یافتہ ورکرز سے کام لیا جاتا ہے جس کے نقصانات سامنے تو آتے ہیں مگر منظر عام پر نہیں آ پاتے۔ انکیچمینٹ ایریا میں لیڈی ہلیتھ ورکرز اور ویکسینٹرز ذمے داری سے کام کر رہے ہیں یا نہیں۔ کیا ان کی مناسب مانیٹرنگ ہو رہی ہے۔ مجھے اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ ایک ویکسینیٹر یا ایک ہیلتھ ورکر آسانی سے اس بات کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ جس وقت ٹیم کسی کے گھر پہنچی تو شاید اس وقت اہل خانہ گھر سے باہر ہوں، بچے اسکول گئے ہوئے ہیں تو اس کا کوئی انتظام ہو۔ اگر بچہ بیمار ہو تو کیا اس کی بیماری اس نوعیت کی ہے کہ اس کے لیے ویکسین فائدہ مند رہیگی یا نہیں۔ اور اگر نہیں تو اس سلسلے میں والدین کے ساتھ بات چیت کی جائے۔ بس لکیر کے فقیر بنے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کھل گیا تو بنا سوال جواب کیے کسی بھی طرح قطرے ڈالے اور چل دیے۔

انتہائی کم اجرت پر کام کرنے والے ورکرز سے بہتر کارکردگی کی توقع رکھنا خود اس ٹیم سے زیادتی ہے۔ یونیسیف عالمی ادارہ صحت اور حکومت پاکستان کے صحت کے وفاقی اور صوبائی ادارے کیا کر رہے ہیں۔ طالبان کی دھمکیاں کچھ علاقوں تک محدود ہیں مگر وہ علاقے جہاں آزادانہ مہم چلائی جا رہی ہے وہاں رپورٹ ہونے والے کیسز کے بارے میں کون جواب دہ ہے۔ کیا پولیو مہم کی ناکامی کے لیے صرف طالبان کو ذمے دار قرار دینا درست ہے۔ اربوں روپے انسداد پولیو مہم پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو اور ذمے دار کوئی بھی، پاکستان کے ننھے مستقبل بڑی تیزی کے ساتھ معذور ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر اداروں کی کارکردگی یہی رہی اور طالبان کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو دو ہزار اٹھارہ تک کتنے ہی مستقبل کے معمار اور تابندہ ستارے معذور ہو جائیں گے اور پاکستان کا مستقبل صحت کے عالمی افق پر ہمیشہ ایک معذور اور بے سمت پولیو پالیسی کے باعث موضوع بحث بنا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔