- مسلمانوں کو بابری مسجد کی جگہ متبادل زمین دینے کے خلاف انتہا پسند ہندو جماعت عدالت پہنچ گئی
- کیا آپ تیزی سے بوڑھے ہورہے ہیں؟ بلڈ ٹیسٹ سے معلوم کیجیے!
- روس میں تین لاکھ ڈالر سے کرسمس ٹری بنادیا گیا
- صرف دو جزیروں پر پلاسٹک کے ڈھیر سے 5 لاکھ ہرمٹ کیکڑے ہلاک
- وزیراعظم عمران خان کا نیشنل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک کا افتتاح
- کوئٹہ میں تبلیغی جماعت کی گاڑی کو حادثہ، 4 افراد جاں بحق اور 6 زخمی
- ساﺅتھ ایشن گیمز میں پاکستان نے مزید 2 سونے کے تمغے جیت لئے
- سندھ میں گورنرراج وفاقی حکومت کا خواب ہے، بلاول بھٹو زرداری
- پرندوں کا غیرقانونی شکار کرکے فیس بک پرتصاویر شیئر کرنے والوں کیخلاف مہم تیز
- چین میں قومی ترانے کے دوران جھنڈے کی طرف نہ دیکھنے پر کھلاڑی پر جرمانہ
- وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا صوابی یونیورسٹی کیلیے 10 کروڑ روپے گرانٹ کا اعلان
- کرپشن کے خلاف جہاد میں پوری قوم کو شرکت کرنا ہوگی، وزیر اعظم
- شاہی قلعہ کے مختلف حصوں سے سیکڑوں برس پرانی باقیات برآمد
- روس پر اولمپکس اور فٹبال ورلڈ کپ کھیلنے سمیت تمام عالمی مقابلوں پر پابندی
- حجاج کی جمع کروائی گئی رقم پر بینکوں سے سود لیا جاتا ہے، وزارت مذہبی امور
- پاک ایران فورسزکی بارڈر پرمشترکہ پیٹرولنگ سے متعلق ڈان اخبار کی خبرغلط ہے، آئی ایس پی آر
- برطانیہ میں اسکول کی باحجاب مسلم طالبہ پر تشدد، ویڈیو وائرل
- کابل ایئرپورٹ انتظامیہ کے حیلے بہانے؛ پی آئی اے کی پرواز کئی گھنٹے روکے رکھی
- سندھ کابینہ نے اسٹوڈنٹ یونین کو بحال کرنے کا بل منظور کرلیا
- بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے؟
ٹرمپ کا جنگی جرائم کے مرتکب 3 امریکی فوجیوں کی سزا ختم کرنے کا اعلان

افغانستان اور عراق میں شہریوں کے قتل میں ملوث اہلکاروں کی سزا معاف کی گئی ہے۔ فوٹو : فائل
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنگین جنگی جرائم میں ملوث امریکی فوج کے 3 افسران کی سزائیں ختم کر کے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے قتل اور جنگی جرائم کے مرتکب 3 اعلیٰ سطح کے امریکی فوج کے افسران کو معاف کر دیا ہے، جس کے بعد ان افسران کی سزا ختم ہوجائے گی اور انہیں رہا کردیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ کے حکم سے فائدہ اُٹھانے والوں میں امریکی فوج کے فرسٹ لیفٹیننٹ کلنٹ لورینس بھی شامل ہیں، جنہوں نے 2012 کو افغانستان میں 3 افغان شہریوں پر فائرنگ کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں 2 شہری ہلاک ہو گئے تھے، شہریوں کے غیر مسلح ہونے کے باوجود کلنٹ لورینس نے اپنے ماتحتوں کو افغان شہریوں کی گرفتاری کے بجائے گولیوں سے بھون ڈالنے کا حکم دیا تھا۔
معصوم شہریوں کو ہلاک کرنے کا حکم دینے کے جرم میں فرسٹ لیٹیننٹ کلنٹ لورینس کو 19 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ گزشتہ 6 سال سے اپنی سزا کاٹ بھی رہے تھے تاہم اب امریکی صدر کے حکم کی تعمیل میں کلنٹ لورینس کو رہائی مل جائے گی۔
صدر ٹرمپ نے اس کے ساتھ ساتھ امریکی فوج کے اعلیٰ سطح کے سابق رکن اور ویسٹ پوائنٹ کے گریجویٹ میٹ گولسٹین کے لیے بھی معافی کا اعلان کیا، جن پر 2010 میں طالبان کے ایک مبینہ بم ساز کو گرفتار کرنے کے بجائے فائرنگ کر کے قتل کرنے کا الزام تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں گولسٹین کو امریکی فوج کا ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا کہ گولسٹین کو اپنے ہی ملک کی جانب سے سزائے موت سے بچایا ہے۔
علاوہ ازیں صدر ٹرمپ نے امریکی بحریہ کے ایک افسر ایڈورڈ کیلاگھر کے عہدے سے تنزلی کے حکم نامے کو بھی واپس لے لیا جن پر عراق میں داعش کے زخمی کم سن شدت پسند کو چاقو کے وار سے قتل کرنے کے علاوہ متعدد معصوم شہریوں کو قتل کرنے کے بعد لاشوں پر کھڑے ہوکر تصاویر بنانے کا بھی الزام تھا۔
ادھر امریکی بحریہ کے سابق ایڈمرل جیمز اسٹیوریڈس کا جنگی جرائم میں ملوث فوجی اہلکاروں کی رہائی کے حکم نامے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اچھی مثال قائم نہیں۔ ان اہلکاروں کو فوجی ٹرائل کے بعد سزائیں دی گئی تھیں اور صدارتی حکم سے فوجی ٹرائل سسٹم پر حرف آتا ہے۔
دوسری جانب نیٹو اتحادی افواج کے سابق کمانڈر پیٹ بٹی گیگ نے بھی امریکی صدر کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے فوجی اہلکاروں کو معافی دینا فوجی نظام پر سوالیہ نشان کھڑا کرنے کے مترادف اور نظم و ضبط اور قانون کی عمل داری کی توہین ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔