سیاسی اشتہارات پر پابندی کے بعد ٹوئٹر نے اپنی نئی پالیسی پیش کردی

ویب ڈیسک  پير 18 نومبر 2019
ٹوئٹر نے ہر قسم کے سیاسی اشتہارات پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ٹوئٹر نے ہر قسم کے سیاسی اشتہارات پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کیلیفورنیا: ٹوئٹر نے چند روز قبل ہر قسم کے سیاسی اشتہارات کے ٹویٹس پر پابندی کے بعد اب سیاسی اشتہارات سے متعلق نئی پالیسی بھی پیش کی ہے۔

ٹوئٹر جیسی اہم سوشل میڈیا ویب سائٹ کی جانب سے یہ اہم قدم اٹھانے پر سی ای او جیک ڈورسی کی تعریف کی جارہی ہے۔

’’ہم نے دنیا بھر میں سیاسی اشتہارات پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی پیغامات کی مقبولیت کو خود ہی کوششوں سے پروان چڑھایا جائے نہ کہ اسے سوشل میڈیا پر خریدا جائے۔‘‘

اس کے بعد خود امریکی صدارتی امیدوار ایلزبتھ وارن اور انسٹاگرام کے سربراہ ایڈم موسیری نے سوالات اٹھائے ہیں کہ یہ طریقہ کس طرح کام کرے گا۔

مسئلہ یہ ہے کہ ٹوئٹر پر بہت سے سیاسی گروپ، مزدوروں کی انجمنیں اور تنظیمیں بھی موجود ہیں اور ان پر پابندی کے بغیر سیاسی اشتہارات کو بند کرنا عبث ہے۔ تاہم اس کے بعد ٹوئٹر نے سیاسی اشتہارات سے متعلق اپنی نئی پالیسی جاری کردی ہے۔ یہ پالیسی مکمل پابندی کے پہلے بیان سے قدرے مختلف ہے لیکن اس میں سیاسی مہم کے اشتہارات کو محدود کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

تاہم نئی پالیسی میں لکھا ہے کہ ووٹ کی اپیل کرنے والے، سیاسی حوالہ جات اور موضوعات، سیاسی چندے، اور ان جیسے امور کی تائید والے سارے اشتہارات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ دوسری جانب منتخب امیدوار، سیاسی جماعتوں اور حکومتی عہدیداروں کے اشتہاروں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔

لیکن اگر عوام کا ایک گروہ ٹوئٹر پر کسی سیاسی جماعت کے اقدامات کو چیلنج کررہا ہے تواس کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ عوامی احتجاج ہر ایک کا حق ہے۔ اس کے جواب میں ٹوئٹر نے ایک نئی کیٹگری شامل کی ہے جسے ’اشتہار برائے مقصد‘ کہا گیا ہے۔ اس کے تحت ٹوئٹر تعلیم، آگہی، عوامی شمولیت، معاشی ترقی، ماحولیات اور سماجی برابری کے اشتہار کی اجازت دیدے گا۔ لیکن اسے سیاسی مقاصد کےلیے استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کرانی ہوگی۔

دوسری جانب خود ٹوئٹر نے بھی ایسے اشتہارات کی پہنچ اور رسائی کو محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں جیو ٹارگٹنگ بھی کی جائے گی جس کے تحت کسی بھی ٹوئٹر پیغام کو ایک محدود علاقے تک ہی پھیلنے دیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔