کیا دن تھے (دوسرا اورآخری حصہ)

نادر شاہ عادل  پير 18 نومبر 2019

والد صاحب کو مکان کی تعمیرکرنا تھی، مجھے یاد ہے، 1973ء میں سیمنٹ کی ایک بوری کی قیمت پانچ روپے تھی، جب سو بوریوں کا ٹرک گھر کے سامنے آیا تو ڈرائیور کے ہاتھ میں پرچی تھی کہ سیمنٹ کی بوری کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اب فی بوری33  روپے کے حساب سے اضافی پیسے دینا ہونگے۔

یاد پڑتا ہے برانڈ نیو 70ہنڈا کی قیمت 6 ہزار اور ٹرک بھرے ریت کی قیمت 20 روپے تھی، عید کے دن جوتے خریدے تو وہ بھی 20 روپے میں، لنڈا بازار سے ہر چیز سستی ملتی تھی، 2 روپے کے جوگر ملتے، 5 اور 10روپے کے گرم کوٹ اور2 روپے میں سویٹر دستیاب تھے۔ سنیما کا ٹکٹ 6 آنے کا تھا، جس میں گیٹ کیپر لڑکوں کو بڑی اسکرین کے سامنے نیچے فرش پر بٹھا لیتا  تھا، آخری مووی جو بڑے اسکرین پر کسی سینما میںدیکھی وہ ’’ریڈر آف دی لاسٹ آرک‘‘ تھی، ٹکٹ 30 روپے تھا۔ گدھا گاڑی سے ریت، اینٹیں اور جالیوں کی کل قیمت 10 روپے تھی، لیاری میں کھانے پینے کی چیزیں وافر مقدار میں دستیاب تھیں۔

چھوٹا گوشت لی مارکیٹ سے  پندرہ بیس روپے کلو مل جاتا۔ مہنگائی کے دنوں میں بھی  بکری کا گوشت 40-50 روپے فی کلو دستیاب تھا، کوئی اسپیلائزیشن نہیں تھی کہ دل، گردے، چانپ، مغز الگ ملیں گے، جو مرضی آپ قصائی سے فرمائش کریں۔ خشک میوہ جات کی دکانیں اور ٹھیلے لی مارکیٹ اور ایمپریس مارکیٹ میں موجود تھے، چلغوزہ جس کی بوریوں کی چوری کی شرم ناک داستانیں انسانیت اور معیار شرافت و تجارت کے منہ پر طمانچہ ہیں، ٹھیلے پر ملتا تھا، رات کو خشک میوہ جات اور مونگ پھلی کے ٹھیلے اور ریڑھی والے گلی گلی گھوم کرگھنٹی بجا کر بادام، گڑ، انجیر، گرم چنے، ریوڑیاں، تل کے لڈو، خوبانی وغیرہ سستے داموں بیچتے تھے، یہ غریبوں کا کھا جا تھا۔ مزدور گھرانا بھی رات کو چلغوزہ خرید لیتا تھا۔

میں 1992ء میں لیمارکیٹ کے ایک ٹھیلے والے سے 25 روپے فی کلو سندھڑی اور لنگڑا آم خرید لیتا تھا۔ وہ گزشتہ سال 150روپے فی کلو آم دے رہا تھا۔ کراچی کی مشہور لسّی طارق روڈ پر 11 روپے کی تھی۔ عام لسی9  روپے کی تھی، علاقے میں اماں حوا کی نمکین لسی اور ساگو دانا 5 روپے کا تھا، چوہدری فرزند علی کی صدر پر قلفی 5 روپے کی تھی۔ ابتدائی دنوں میں گنے کا رس ایک روپے کا اور گاجرکا جوس دو روپے میں ملتا تھا۔ ایک آنے کی گنڈیری عام طور پر جگہ جگہ ملتی تھی۔

لیاری میں چند دالیں مشہور تھیں، ماک ، بانک لیک اور ’مور ثوابی‘ ایسی دالیں تھیں جو آج بھی  ملتی ہیں، ان دالوں کو صبح ناشتے میں استعمال کیا جاتا ہے، طاقت اور لذت میں بے مثال ہیں۔ مشہور فلمی ڈانسر ایمی منیوالا کا گرانڈ ہوٹل ڈرگ روڈ اور ملیر کے قریب واقع تھا، اسی سے متصل ایک بنگلے پر کوئٹہ ٹینک ہوتا تھا، ہم اتوارکو اس سوئمنگ پول میں نہانے جاتے۔ ایک روپیہ اس کی فیس تھی۔

جس بس پر سفرکرتے اس کا کرایہ 25پیسے تھا۔ پچاس ساٹھ روپے میں ہوٹل میں سب کھانا کھا لیتے تھے۔ ملوک ہوٹل مشہور تھا، اس کا مالک لال محمد اسپورٹس مائنڈڈ تھا۔ دولت رام کا ’’چابو‘‘ حلوہ اور حبشی حلوہ آج کے حلوے کو شرماتا ہو گا۔ چھوٹا سا پیس دو روپے میں کاغذ پر رکھ کر ملتا تھا۔ سری اور کلیجی کا سالن گلی میں عام طور پر دستیاب تھا۔ سیخ کباب کی قیمت ایک روپے تھی۔ مٹن کے چار ٹکڑے سیخ میں پروئے ہوئے ہوتے، تلی (نیمپس) کی مانگ تھی۔ ایک بارچیل چوک میں عذیر بلوچ نے ہمیں ایسی ہی خصوصی ڈش پیش کی تھی۔ صرف بھنی ہوئی گلی میں تیار چیزیں ان کے کمانڈو لائے تھے۔

آج بیروزگاری، پژمردگی اور غربت کا یہ عالم ہے کہ کراچی سمیت لیاری میں ہزاروں خاندان مفلسی کے مارے ہوئے ہیں، گداگروں کی ٹولیاں صبح سے رات گئے بھیک مانگتی ہیں۔ بوڑھی نانی اور دادی اماں بسوںکے دھکے کھاتی ہیں،کوئی سوشل سیکیورٹی نہیں ہے،گھریلو ملازمائیں بس پر پانچ آنے نہ ہونے پر نیچے اتاری جاتی ہیں، جونا مسجد کلری کی کچھی مارکیٹ میںآپ کو بلوچ بابا سوکھی ہوئی مچھلی کا  سر فروخت کرتے نظر آئیں گے، ان خواتین اور مردوں میں مچھلی خریدنے کی استطاعت نہیں، یہ لوگ  20-30 روپے میں مچھلی کا صرف سرگرم پانی میں ابالتے ہیں، اس میں نمک اور سرخ مرچ ڈال کر اپنا سالن تیارکرتے ہیں، کئی بوڑھی عورتوں اورگھریلو ملازماؤں کو یہ کہتے سنا کہ ہم نے زمانہ ہوا پیسوں سے گوشت خرید کر کھایا نہیں ، ناشتے میں سلیمانی چائے میں پاپے یا کھارا بسکٹ کھا کر گھرسے نکلتی ہیں۔

جن گھروں میں پونچا، ڈسٹنگ اور برتن اور کپڑے دھوتی ہیں وہاں مالکان ہزاروں کا پیزا منگاتے اور کھاتے ہیں،کچن کو تالا لگاتے ہیں اور باہرکھانا کھانے ہیں، اس مچھلی کے سر کو خوب چھباتے ہیں، خشک نمکین مچھلی بھی آج کل مہنگی ہے، سب سے بڑا ظلم سمندر کی تازہ مچھلی کے داموں کا ہے، انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ساحل بحیرہ عرب پر فش ہاربر پر ملنے والی مچھلی شہر میں رعایتی داموں پر ملنی چاہیے، تاکہ عام آدمی سردیوں میں با آسانی سرمئی، پاملیٹ، روہو ، کسی، دوتھر، ہیرا، مربا،کاشک خرید کے بچوں کو کھلا سکے۔ مارکیٹ میں پلا مچھلی کی نسل تباہ ہو گئی۔

اشرافیہ نے ماہی گیری کی صنعت سے اربوں ڈالرکے زرمبادلہ کے چکر میں غریب سے چاول مچھلی کی خوراک بھی چھین لی،  غربت اور تنگ دستی کے باعث سفید پوش ملازمت پیشہ لوگ صبح چائے پراٹھا سے ناشتہ کرتے ہیں، ابتدا میں چائے پانچ روپے کی اور پراٹھا بھی پانچ روپے کا تھا، مگر آج ریٹس مختلف ہیں، ایک انڈہ پراٹھا30 روپے کا ہے اور نارمل چائے پراٹھا 20 روپے یا کہیں چینک کی چائے یا الگ بالائی کے باعث 40-50 میں بھی دستیاب ہے۔ برنس روڈ پر میں نے کھیر، ربڑی،دھاگا کباب اور نہاری و حلیم سستے داموں خریدی تھی، پلیٹ میں کھیر 5 روپے کی آتی تھی، پھر 14روپے کی ہوئی اب کچھ نہ پوچھئے، مٹھائی 700 سے 1200روپے فی کلو ہو گئی ہے۔

1992ء میں روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کا بیورو چیف تھا۔ ایک دن میری بھتیجی عینی نے مجھے فون کیا کہ ان کی ایک کلاس فیلو سبق سناتے ہوئے بے ہوش ہو کر فرش پر گر پڑی، میں نے وجہ پوچھی تواس نے بتایا بچی نے کلاس ٹیچر سے کہا کہ وہ دو دن سے بھوکی تھی، چکرا کر گرگئی۔ ہماری ایک خبر سے اس بچی زبیدہ بلوچ کے لیے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نے کمشنر کراچی محمد سلیم خان سے کہا کہ وہ اس بچی کا بالغ ہونے اور شادی کی عمر تک پہنچنے تک ایک لاکھ روپے کا وظیفہ مقررکریں۔ لاہور سے اس بچی کے لیے کالم نگار ہارون الرشید نے اپنے ایک دوست کے ذریعے لندن سے کچھ رقم بھی دفتر بھیجی۔

اب ہم غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے روز و شب کو دیکھتے ہیں اور ریاست مدینہ کے  جدید سیاسی بیانیے کا زمینی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں تو غربت کی حقیقت ’’سر بازار می رقصم‘‘ کا تماشا دکھاتی ہے۔ آج توکچھ لوگ کراچی میں غربت کے تصور کو مانتے ہی نہیں، ان کا کہنا ہے کہ کسی اسپتال، کسی ہوٹل، کسی مٹھائی کی دکان، ملبوسات، پرفیوم،جوتوں اور جنک فوڈ کے مراکز پر نظریںدوڑائیں تو ’’غریبی نام تھا جس کا گئی تیمورکے گھر سے‘‘ والی کہانی سامنے آتی ہے۔ سماجی سطح پر غربت، محرومی، بیروزگاری، بیماری، ناخواندگی، غلامی، آزادی،جمہوریت، انسانیت، مروت اور ہمدردی کے سارے فلسفے زمیں بوس ہیں، جو دکاندار اور ٹھیلے والے بارہ ربیع الاول کو ٹماٹر 200  سے 300 روپے میں فروخت کررہے تھے۔

ٹماٹر کی قیمت مذاق بنی ہوئی ہے، دعوی ہے معیشت مستحکم اسٹاک مارکیٹ میں ٹھہراؤ آ گیا ہے۔ کیا اقتصادی نظام بدلا ہے؟پلیز آیندہ منظرنامہ کو دیکھیں اور جمع خاطر رکھیں عوام ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی صورت ہی بنے رہیں گے۔ سماجی ماحول کی تبدیلی شرط اول ہے، طبقاتی کشمکش عروج پر ہے، ارباب اختیار استحصالی سیاسی و معاشی نظام کو بیخ و بنیاد سے اکھاڑ پھینکنے کی تیاری کریں، ضرورت اس بات کی ہے کہ  حکمران کارل مارکس کو نہ پڑھیں۔ اتنی فرصت تو ان کے  پاس ہے بھی نہیں کہ داس کیپیٹال کا مطالعہ کریں، ہاں اتنا کر سکتے ہیں کہ حضور پاک ؐ کے اس قول  پر صدق دل سے  عمل کریں جس میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دو۔ اگر اس اصول کو معاشی پالیسی کا بنیادی پتھر سمجھا گیا تو یقین جانیے انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ختم ہونے میں شاید وقت لگے لیکن ہوس زر کے جس گھوڑے پر اہل حرص  بغیر لگام کے سوار ہیں اسے لگام ڈالی جا سکتی ہے۔ غربت مہنگی عیاشی ہے،قوم اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔