ہمارا کائناتی مقام

محمد شاہ زیب صدیقی  پير 18 نومبر 2019
ہماری کائنات پراسراریت کا منبع ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہماری کائنات پراسراریت کا منبع ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہماری کائنات یقیناً حیرتوں کا سمندر ہے۔ البرٹ آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کے باعث ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ ہماری کائنات دراصل زمان و مکاں کی چادر پر مشتمل ہے۔ یا اگر یہ کہا جائے کہ بنانے والے نے ہماری کائنات کو زمان و مکاں کے جالوں سے بُنا ہے تو شاید ٹھیک ہوگا۔ کیونکہ جب کوئی مادہ اِن جالوں میں آتا ہے تو اِن جالوں کے تانے بانے میں کھِنچاؤ پیدا ہوتا ہے، جسے ہم کشش ثقل کہتے ہیں۔

ہماری کائنات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہم جب بھی کسی کائناتی گوشے کا مطالعہ کررہے ہوتے ہیں تو دراصل ماضی میں جھانک رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ زمان و مکاں کے اس سمندر میں کوئی بھی شے روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر نہیں کرسکتی اور ہم چونکہ کسی بھی واقعے کو دیکھنے کےلیے روشنی کے محتاج ہوتے ہیں، لہٰذا ہم کبھی بھی کائنات کی موجودہ حالت نہیں دیکھ پاتے۔ یہاں تک کہ ہم جو سورج دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ بھی 8 منٹ ’’قدیم‘‘ ہوتا ہے۔ کیونکہ سورج سے چلنے والی روشنی 8 منٹ اور 20 سیکنڈ میں ہم تک پہنچتی ہے۔ اگر کبھی سورج اچانک سے بجھ جائے تو 8 منٹ اور 20 سیکنڈز تک ہمیں علم ہی نہیں ہوپائے گا کہ سورج بجھ چکا ہے۔ جہاں کائنات کی موجودہ حالت ہمیں ورطۂ حیرت میں ڈبوئے ہوئے ہے، بالکل ویسے ہی کائنات کا ماضی بھی حیران کن ہے۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ آج سے 13.8 ارب سال قبل کچھ بھی نہیں تھا۔ ہماری کائنات کا وجود ان کوانٹم لہروں کے باعث ہوا جو ایٹم سے کروڑوں گنا چھوٹی ہوتی ہے اور کائنات میں ہر مقام پر بنتی رہتی ہیں۔ اس دوران کسی ’’انفلیٹان‘‘ نامی ذرے نے ان کوانٹمی لہروں کو مائیکرو لیول سے بڑھا کر کائناتی لیول تک بڑا کردیا۔ اس واقعے کو بِگ بینگ کہا جاتا ہے۔ اسی خاطر آپ کو سائنسی طالبعلم کبھی بھی بِگ بینگ کو دھماکا کہتا دکھائی نہیں دے گا، بلکہ وہ اس واقعے کو زمان و مکاں کا اچانک سے پھیلاؤ کہے گا۔ بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ میں یہ کوانٹمی لہریں جنہیں quantum fluctuations کہا جاتا ہے، اپنے سائز سے بڑھ کر کائنات جتنی بڑی ہوگئیں۔

بگ بینگ واقعے کے بعد کائنات کا درجہ حرارت لامتناہی حد تک گرم تھا، جس وجہ سے کائنات پر لاکھوں سال تک اندھیرے کا راج رہا۔ یہ کائنات کا تاریک دور کہلاتا ہے۔ اس دوران کائنات مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبی رہی۔ لیکن 3 لاکھ 80 ہزار سال بعد کائنات پھیل کر اس حد تک ٹھنڈی ہوگئی کہ ہائیڈروجن کے ایٹمز کو stable ہونے کا موقع ملا۔ جس وجہ سے ہائیڈروجن کے ایٹمز نے مل کر پہلا ستارہ بنایا۔ یوں کائنات میں ہر سو روشنی کی کرن پھیل گئی۔ اس پہلی روشنی کو آج بھی ہم حساس آلات کی مدد سے نوٹ کرسکتے ہیں۔

کائنات کے پھیلاؤ کے باعث روشنی کی یہ لہریں بہت کمزور ہوچکی ہیں۔ ان کو ‘’’کائناتی ریزموجی پس منظر تابکاری‘‘ یا Cosmic Microwave Background Radiations کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کچھ سائنسدان انہیں بگ بینگ کی گونج بھی قرار دیتے ہیں، کیونکہ جب آپ کا ٹی وی یا ریڈیو خراب ہوتا ہے تو اس دوران جو آواز آپ کو سنائی دیتی ہے وہ انہی لہروں کی ہوتی ہے۔

پہلے ستارے نے کائنات میں ایک نئے عہد کی نوید سنائی اور اس کے بعد سے آج تک ستارے پیدا ہورہے ہیں اور ختم ہوکر اپنے وجود سے کائنات کو رنگین بناتے جارہے ہیں۔ ہمارا اندازہ کہتا ہے کہ ایک انسان رات کو عام آنکھ سے 4500 ستارے دیکھ سکتا ہے اور یہ سب کے سب ایک ہزار نوری سال کے احاطے میں آتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہماری کہکشاں ملکی وے تقریباً 2 لاکھ نوری سال تک وسیع ہے اور ہماری کائنات میں 2 ہزار ارب کہکشائیں موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم عام آنکھ سے کائنات کو تو چھوڑیں، صرف اپنی کہکشاں ملکی وے کا ایک فیصد حصہ بھی نہیں دیکھ پاتے۔

یہ حقیقت ہے کہ کائنات کی وسعتیں اس کو پراسرار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہماری کائنات کتنی وسیع ہے؟ اس کا اندازہ ایسے لگائیے کہ ہماری زمین جس ستارے کے گرد چکر لگارہی ہے، اس کو ہم سورج کہتے ہیں۔ جب اربوں ستارے مل کر کوئی گروپ بناتے ہیں تو اس کو کہکشاں کہا جاتا ہے۔ ہم ’’ملکی وے‘‘ نامی کہکشاں میں رہتے ہیں۔ اس میں سورج جیسے 400 ارب ستارے موجود ہیں۔ یوں یہ ایک درمیانے سائز کی کہکشاں ہے۔ ہماری پڑوسی کہکشاں کا نام ’’اینڈرومیڈا‘‘ ہے، جس میں ایک ہزار ارب ستارے موجود ہیں اور ہم سے دگنے سائز کی ہے۔ بہرحال، جیسے ستارے مل کر کہکشاں بناتے ہیں، ویسے ہی کہکشائیں مل کر ایک لوکل گروپ بناتی ہیں۔ مجموعی طور پر کائنات پھیل رہی ہے مگر لوکل گروپ میں موجود کہکشائیں ایک دوسرے کی کشش ثقل میں جکڑی ہوتی ہیں۔ جس وجہ سے یہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور نہیں ہورہیں۔

دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کہکشاؤں کے مابین کشش ثقل اتنی زیادہ ہے کہ یہ فی الحال ڈارک انرجی (کائنات پھیلانے والی قوت) کو شکست دے رہی ہیں۔ ہم جس لوکل گروپ کا حصہ ہیں، اس میں 54 کہکشائیں دریافت ہوچکی ہیں اور یہ سب ایک دوسرے کی جانب 123 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے بڑھ رہی ہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اگلے ایک کھرب سال میں ان سب کا ٹکراؤ ہوجائے گا اور ایک دیوہیکل کہکشاں وجود میں آجائے گی۔

جیسے کہکشائیں مل کر لوکل گروپ بناتی ہیں ویسے ہی لوکل گروپس مل کر کلسٹرز بناتے ہیں۔ ہمارا لوکل گروپ ’’وِرگو کلسٹر‘‘ کاحصہ ہے، جو 100 لوکل گروپس پر مشتمل ہے۔ ایک عرصے تک ہمارا گمان تھا کہ ’’وِرگو کلسٹر‘‘ سے آگے ایسا کچھ دریافت نہیں ہوپائے گا لیکن 2014 میں سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد اعلان کیا کہ ہمارا ’’وِرگو کلسٹر‘‘ بھی دراصل ایک عظیم سپر کلسٹر کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس عظیم سپر کلسٹر کو لانیاکیا (Laniakea) نام دیا گیا۔ 2015 کی تحقیق کے مطابق ہماری قابل مشاہدہ کائنات میں ایسے 1 کروڑ سپر کلسٹر موجود ہوسکتے ہیں۔ قابل مشاہدہ کائنات سے باہر کے علاقے میں کتنے سپر کلسٹر موجود ہیں، اس سے متعلق ہمیں نہیں معلوم۔

سو اب اگر کبھی آپ سے کوئی آپ کا پتہ معلوم کرے تو آپ لازمی بتائیے گا کہ ہم قابل مشاہدہ کائنات میں ’’لانیاکیا سپر کلسٹر‘‘ کے کنارے پر موجود ’’ورگو کلسٹر‘‘ کے ایک ’’لوکل گروپ‘‘ میں ’’ملکی وے‘‘ نامی کہکشاں کے کنارے پر موجود ’’سورج‘‘ نامی ستارے کے تیسرے سیارے ’’زمین‘‘ پر ’’پاکستان‘‘ نامی ملک میں رہتے ہیں۔

ہماری کائنات پراسراریت کا منبع ہے، اس کی وسعتیں دیکھ کر پہلا سوال یہی ذہن میں آتا ہے کہ ہم اتنی بڑی کائنا ت میں کیسے پہنچے؟ ہمارا یہاں مقصد کیا ہے؟ زندگی صرف زمین پر کیوں موجود ہے؟ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ ہم رات کو جب آسمان دیکھتے ہیں، دکھائی دینے والے تمام ستارے کائناتی صحرا میں ریت کے ذرے کی مانند ہیں۔ اصل کائنات تو ان سے زیادہ خوبصورت اور رنگین ہے۔ ان علاقوں میں کیا راز چھپے ہوسکتے ہیں، ہمیں ان کا اندازہ تک نہیں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد شاہ زیب صدیقی

محمد شاہ زیب صدیقی

بلاگر شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں جبکہ یوٹیوب پر اردو زبان میں سائنسی ڈاکومنٹریز بنانے کے ساتھ مختلف ویب سائٹس پر سائنسی بلاگز بھی لکھتے ہیں۔ ان کے فیس بک آئی ڈی hellozaib پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔