72 سال سے بچھڑے بہن بھائیوں کا ملاپ

آصف محمود  جمعرات 21 نومبر 2019
1947 میں بٹوارے کے ہنگاموں میں بینتھ سنگھ کا خاندان بھی بٹ گیا تھا۔ (فوٹو: بلاگر)

1947 میں بٹوارے کے ہنگاموں میں بینتھ سنگھ کا خاندان بھی بٹ گیا تھا۔ (فوٹو: بلاگر)

بابا گورونانک کا 550 واں جنم دن منانے پاکستان آنے والے بھارتی مہمان واہگہ بارڈر کے راستے واپس لوٹ رہے تھے۔ واپس جانے والوں میں کئی ایسے تھے جن کے چہروں پر نظر آنے والی افسردگی اور دکھ عکاس تھے کہ ان کےلیے بابا نانک کی اس دھرتی سے واپس جانا کتنا مشکل ہورہا ہے۔ ان مہمانوں میں زیادہ تر کی عمریں 40 سال سے اوپر ہی ہوں گی۔ واپس جانے والوں میں کسی کو اپنے سامان کی فکر تھی اور کوئی امیگریشن اور کسٹم کلیئرنس میں مصروف تھا۔

سکھ مہمانوں کے اس ہجوم میں ایک بزرگ ایسے بھی تھے جو اپنے سامان اور امیگریشن کے عمل سے بے نیاز ایک طرف بیٹھے رو رہے تھے۔ میں نے انہیں دیکھا تو یہ سمجھا شاید ان کا کوئی سامان گم ہوگیا ہے، یا کوئی مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستان سے واپس جاتے ہوئے کوئی مہمان اس طرح روتا ہوا واپس جائے یہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں ان کے قریب گیا اور ست سری اکال کے بعد پوچھا بزرگو آپ کیوں پریشان ہیں، رو کیوں رہے ہیں؟ کوئی مسئلہ ہے تو بتائیں؟

سفید داڑھی اور چہرے پر ابھرتی جھریوں والے اس بزرگ نے میری طرف دیکھا اور بولے ’’نئیں پتر، مینوں کوئی مسئلہ نئیں۔ بس اپنی قسمت اتے رو رہیا واں‘‘ ( نہیں بیٹے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں بس اپنی قسمت پر رو رہا ہوں)۔ میں ان کا جواب سن کا متجس ہوگیا۔ ’’بزرگو کیا ہوا آپ کی قسمت کو؟ آپ تو گورو نانک کے در پر ماتھا ٹیک کر آئے ہیں پھر قسمت کو کیوں کوس رہے ہیں؟‘‘ میرے سوال پر 73،74 سال کے اس بزرگ نے بتایا کہ انہیں اپنی بہنوں سے بچھڑنے کا دکھ ہے۔ ان کی دو بہنیں اور ان کے خاندان یہاں رہتے ہیں۔

انہوں نے جب یہ بتایا تو مجھے یاد آیا پچھلے سال بھی ایک بزرگ پاکستان آئے تھے اپنی بچھڑی بہنوں سے ملنے۔ میں اس وقت ان سے مل نہیں سکا تھا مگر ان کی ساری کہانی یاد تھی۔ اس سے پہلے کہ میں ان سے کوئی سوال کرتا وہ خود ہی بول پڑے۔ کہنے لگے میرا نام بینتھ سنگھ ہے۔ میں ڈیرہ بابانانک کے قریب واقع گاؤں پراچہ کا رہنے والا ہوں۔ یہ گاؤں گورداسپور میں واقع ہے۔ 1947 میں جب تقسیم ہوئی تو بٹوارے کے ہنگاموں میں میرا خاندان بھی بٹ گیا تھا۔ میں اور میری ایک بہن بھارت میں رہ گئے، جبکہ میری والدہ، والد اور باقی لوگ پاکستان آگئے تھے۔ بٹوارے کے وقت میری عمر صرف ڈیڑھ سال تھی۔ مجھے تو اس وقت کے کوئی مناظر اور واقعات معلوم نہیں ہیں لیکن چاچا بہادر سنگھ مجھے بتایا کرتے تھے کہ اس وقت کیا ہوا تھا۔ میں مسلمان خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ میرے والد کا نام ابراہیم اور والدہ کا نام اللہ رکھی تھا۔ جب 1947 کی تقسیم کے بعد ہنگامے شروع ہوئے تو ان کے گاؤں میں بھی فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ درجنوں قتل ہوگئے تھے۔ خود میرے بڑے پانچ بھائی بھی مارے گئے تھے۔ ایک بہن اور میں زندہ بچے تھے۔ ہمیں سردار بہادر سنگھ نے ہی پال پوس کر جوان کیا، ہماری شادیاں کروائیں۔

بینتھ سنگھ نے بتایا کہ 15 برس قبل انہیں معلوم ہوا تھا کہ ان کی والدہ اور دو بہنیں پاکستان میں ہیں اور زندہ ہیں۔ وہ گزشتہ برس ان سے ملنے پاکستان آئے تھے بابا نانک کے جنم دن پر۔ اس وقت ان کی اپنی بہنوں سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی اور اس کے بعد اب ایک سال بعد دوبارہ ان سے ملا تھا۔ جدائی کا یہ ایک سال میں نے اور میری بہنوں نے کیسے گزارا یہ لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔

بینتھ سنگھ وہی بزرگ تھے جو گزشتہ برس پاکستان آئے تھے اور لاہور ریلوے اسٹیشن پر ان کی اپنی بہنوں کو الوداع کرتی ہوئی ویڈیوز نے سب کو رلا دیا تھا۔ لیکن اس وقت ان کا نام بے انت سنگھ بتایا گیا تھا۔ لیکن یہ شاید تلفظ کی غلطی کی وجہ سے تھا۔ پاسپورٹ پر ان کا نام بینتھ سنگھ ہی لکھا تھا لیکن پنجابی لہجے میں بولتے وقت وہ بے انت سنگھ بول جاتے تھے۔

میں بینتھ سنگھ کی کہانی خود ان کی زبانی سننا چاہتا تھا۔ اس دوران میں نے ان کےلیے امیگریشن سینٹر میں موجود ایک مہربان کے ذریعے چائے اور بسکٹ بھی منگوا لیے تھے۔ ان کو حوصلہ دیا تھا کہ اگر 72 سال کی جدائی رب نے ختم کردی ہے تو اب میل ملاپ ہوتا رہے گا۔

بینتھ سنگھ بتانے لگے کہ پندرہ سولہ سال قبل ان کے گاؤں کے ایک ریٹائرڈ فوجی مکھن سنگھ ان کے گھر آئے اور بتایا کہ پاکستان سے ان کے نام ایک چھٹی آئی ہے۔ اللہ رکھی نامی خاتون نے خط لکھا تھا۔ خط میں اس نے سردار مکھن سنگھ سے معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ 1947 میں اس کی ایک بیٹی اور بیٹا ادھر ہی رہ گئے تھے، ان کی کوئی خیر خبر ہے تو بتائیں۔ چاچا مکھن سنگھ میرے والد کے دوست تھے۔ انہوں نے جب بتایا کہ میری ماں اور بہنیں پاکستان میں زندہ ہیں تو یقین نہیں آرہا تھا۔ آہستہ آہستہ خط وکتابت کا سلسلہ بڑھنے لگا۔ چاچا مکھن سنگھ نے میری اور میرے پریوار کی تصاویر انہیں بھیجیں اور وہاں سے ماں جی نے اپنی، میرے والد اور بہنوں کی تصویریں بھیجیں۔ پھر موبائل پر رابطہ ہونے لگا۔ اس دوران میں نے کئی بار ویزا اپلائی کیا، مگر ویزا نہ ملا۔ یہ کام بھی بالآخر مکھن سنگھ نے کیا۔ انہوں نے پچھلے سال میرا ویزا لگوایا اور میں پاکستان آیا تھا۔ تب پہلی بار ننکانہ صاحب میں اپنی بہنوں معراج بی بی اور الفت بی بی اور ان کے بچوں سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس بار جب میں پاکستان آیا اور ننکانہ صاحب پہنچا تو میری بہنیں جنم استھان کے گیٹ کے باہر ہی کھڑی تھیں۔ ہم نے وہاں متعلقہ انتظامیہ سے بات کی اور تحریری درخواست کے بعد مجھے اپنی بہنوں کے ساتھ ان کے گھر جانے کی اجازت مل گئی تھی۔

بینتھ سنگھ نے بتایا کہ ان کی دونوں بہنوں کی پیدائش پاکستان میں ہی ہوئی تھی۔ اب انہوں نے اپنی بہنوں اور ان کے بچوں کو بھارت آنے کی دعوت دی ہے۔ وہ مارچ میں بھارت جائیں گی۔ میں اپنی حکومت سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ ان کو ویزے جاری کرے تاکہ وہ بھی اپنے بھتیجے، بھتیجیوں اور خاندان کے دیگر لوگوں سے مل سکیں۔

بینتھ سنگھ کے مطابق انہیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ ان کی بہنیں مسلمان اور وہ سکھ ہیں۔ وہ چونکہ بہت چھوٹے تھے اور ایک سکھ سردار بہادر سنگھ نے ہی ان کی اور ان کی بہن کی پرورش کی تھی، اس وجہ سے وہ سکھ بن گئے۔ ان کی بہن فوت ہوچکی ہے، جبکہ پانچ بھائی 1947 میں قتل ہوگئے تھے۔ اب یہ دو بہنیں ہی زندہ ہیں۔ ان کی بہنوں کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مذہب مختلف ہیں مگر خون تو ایک ہے۔ اس وجہ سے وہ دونوں طرف کی حکومتوں سے درخواست کریں گے کہ انسانی ہمدردی کے تحت اس خاندان کو ویزے دیے جائیں تاکہ یہ ایک دوسرے سے مل سکیں۔

بینتھ سنگھ نے بتایا کہ اب جب کرتارپور راہداری کھل گئی ہے تو ان کےلیے بہنوں سے ملنا آسان ہوگا، کیونکہ ان کا گاؤں ڈیرہ بابا نانک کے قریب ہے اور وہ ویزا قریبی کوریڈور کے ذریعے گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور آسکتے ہیں، جہاں وہ اپنی بہنوں اور ان کے خاندان سے مل سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس راہداری سے جہاں سکھ اپنے گورو کے در پر ماتھا ٹیک سکتے ہیں اور درشن کرسکتے ہیں، وہیں یہاں پاکستان میں بسنے والے اپنے رشتے داروں اور پیاروں سے بھی گوردوارہ دربارصاحب کے دامن میں ملاقات کرسکیں گے۔

اس دوران سکھوں کی بڑی تعداد کی امیگریشن اور کسٹم کلیئرنس مکمل ہوچکی تھی۔ بینتھ سنگھ نے اپنا سامان اٹھایا، جس میں بہنوں کی طرف سے دیے گئے تحائف کھسے، کپڑے، گرم چادر، ناریل کا ہار اور دیگر سامان موجود تھا۔ چند لمحوں بعد بینتھ سنگھ اپنے دیگر ہم وطنوں کے ہمراہ زیرو لائن کراس کررہے تھے، اس امید کے ساتھ کہ بہت جلد ان کی بہنیں اسی راستے سے انھیں ملنے گورداسپور آئیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2000 سے شعبہ صحافت جبکہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے اِس ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔