ہندو یونیورسٹی میں مسلمان استاد کیوں؟

عاطف خالد بٹ  منگل 19 نومبر 2019
ہندو طلبا مسلمان استاد پروفیسر خان کو ہٹانے کے لیے احتجاجی پوجا کررہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ہندو طلبا مسلمان استاد پروفیسر خان کو ہٹانے کے لیے احتجاجی پوجا کررہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

بنارس ہندو یونیورسٹی میں ان دنوں جو مسئلہ طلبا اور انتظامیہ کے مابین تناؤ کا باعث بنا ہوا ہے، وہ سنسکرت پڑھانے کے لیے ایک مسلمان استاد پروفیسر فیروز خان کا تقرر ہے۔ اطلاعات کے مطابق یونیورسٹی کے وائس چانسلر راکیش بھٹناگر نے پروفیسر خان کی تقرری کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام امیدواروں میں سب سے قابل پروفیسر ہیں اور مذہب کے نام پر ان کے ساتھ تفریق نہیں برتی جاسکتی۔ دوسری جانب طلبا کا کہنا ہے کہ ایک مسلمان ہندوؤں کو دھرم اور سنسکرت کی تعلیم نہیں دے سکتا، اور جب تک پروفیسر خان کو ہٹایا نہیں جاتا وہ ان کی تقرری کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے رہیں گے۔ طلبا نے پروفیسر خان کی تقرری منسوخ کروانے کےلیے خصوصی پوجا کا اہتمام بھی کیا ہے۔

اسی حوالے سے ماضی کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے معروف ماہر اور استاد ڈاکٹر احمد حسن دانی 1944 میں بنارس ہندو یونیورسٹی سے سنسکرت میں ایم اے کرنے والے پہلے مسلمان طالبعلم تھے۔ ڈاکٹر دانی کو یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں بہت دقت پیش آئی تھی، کیونکہ یونیورسٹی کے قواعد کے مطابق وہاں صرف ہندو یعنی سناتن دھرمی، آریہ سماجی، جین اور بودھ ہی داخلہ لے سکتے تھے۔ خیر، دانی صاحب کا داخلہ ہوگیا اور انھوں نے ایم اے سنسکرت میں اول بدرجۂ اول کامیابی حاصل کی۔ یونیورسٹی میں روایت یہ چلی آرہی تھی کہ سنسکرت میں اول بدرجۂ اول ایم اے کرنے والے طالبعلم کو وہیں لیکچرار مقرر کردیا جاتا تھا۔ دانی صاحب نے ایم اے میں کامیابی کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے انھیں لیکچرار مقرر کیا جائے، لیکن انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے ان سے معذرت کرلی کہ آپ مسلمان ہیں اس لیے آپ کو اس یونیورسٹی میں تدریس کے کام پر مامور نہیں کیا جاسکتا۔

بھارت ہی میں گزشتہ برس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس یونین ہال میں لگی ہوئی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر بھی تنازعے کا باعث بنی تھی۔ اس سلسلے میں ہندو یوا واہنی نامی تنظیم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کے مابین جھڑپ بھی ہوئی، جس میں درجنوں افراد زخمی ہوئے تھے۔ قائداعظم کی مذکورہ تصویر 1938 سے اسٹوڈنٹس یونین ہال میں لگی ہوئی تھی۔ لیکن اس مسئلے کو ایک مخصوص وقت پر بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے رکن پارلیمان ستیش گوتم نے ہوا دی تھی جنھوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایک خط لکھ کر دریافت کیا تھا کہ محمد علی جناح کی تصویر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آج تک کیوں لگی ہوئی ہے؟

بھارت اور پاکستان کے ریاستی تشخص، سماجی ڈھانچے اور طبقاتی صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو جو واقعہ گزشتہ برس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پیش آیا یا جو کچھ ان دنوں بنارس ہندو یونیورسٹی میں ہورہا ہے، بالکل ایسی ہی یا اس سے ذرا مختلف صورتحال پنجاب یونیورسٹی یا پشاور یونیورسٹی میں بھی پیش آسکتی ہے، بلکہ ہمارے ہاں مختلف تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات آئے روز ہوتے ہی رہتے ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم اپنے ہمسایوں سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ تاہم بعض اوقات ایسے واقعات بھی پیش آجاتے ہیں جو حالات کی تمام تر سنگینی کے باوجود تازہ ہوا کے جھونکے محسوس ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ پنجاب یونیورسٹی میں تقریباً تین برس پہلے اس وقت پیش آیا تھا جب وہاں ڈاکٹر بھیم راؤ رام جی امبیدکر کے سماجی فلسفے پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا اور یونیورسٹی کے الرازی ہال میں اس تقریب کے انعقاد کے دوران قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصویروں کے درمیان باباصاحب امبیدکر کی تصویر بھی آویزاں کی گئی تھی۔

فارسی زبان میں یونیورسٹی کو دانش گاہ اور کالج کو دانش کدہ کہا جاتا ہے، یعنی یہ دونوں جگہیں ایسے مراکز ہیں جہاں فہم و فکر کو جِلا بخشی جاتی ہے۔ میں بطور استاد یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں، بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے مراکز کو ایسا بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم ان سے حاصل کردہ پیداوار کو معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے استعمال میں کرسکیں۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جسے اپنا کر ہم اپنے ہمسایے کو زندگی کے ہر میدان میں مات دے سکتے ہیں اور اقوامِ عالم میں سر اٹھا کر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر ہم بھی اپنے تعلیمی اداروں کو انتہا پسندوں کے ایسے گڑھ بنا دیں گے جو کسی بھی مذہبی یا غیر مذہبی نظریے کو بنیاد بناکر نہ صرف خود کو تباہ کریں گے بلکہ ملک کے مستقبل کےلیے بھی سمِ قاتل ثابت ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔