ولی عہدی ، خاندانی حکمرانی

ظہیر اختر بیدری  منگل 19 نومبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستانی سیاستدانوں کا من بھاتا کھاجا جمہوریت ہے، جاگتے میں ہی نہیں سوتے میں بھی یہ لوگ جمہوریت کے راگ الاپتے رہتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جمہوریت اس ملک میں برائے نام ہی رہی ہے لیکن مرحوم بھٹو کے بعد ولی عہدی کا جو سلسلہ شروع ہوا، اب وہ مغلیہ دور کو مات دے رہا ہے۔

پچھلے دس سالوں میں خصوصاً ولی عہدی نظام اور خاندانی حکمرانی کا جو سلسلہ چل پڑا ہے اگر یہ یوں ہی جاری رہا تو عوام کی حکمرانی کے لیے سو دو سو سالہ انتظارکرنا پڑے گا۔ ورنہ یہ سلسلہ تو صدیوں تک طول کھینچ سکتا ہے۔ اس پر قیامت یہ کہ دوران حکومت عوام کی خدمت کرنے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے سارا وقت کرپشن میں گزارا جاتا رہا۔ نتیجہ یہ کہ پہلے سے کنگال عوام مزید کنگال ہوگئے۔

10 سال کا عرصہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کافی بڑا عرصہ ہوتا ہے بشرطیکہ حکومت کا ایجنڈا صرف اور صرف عوامی مسائل کا حل ہو۔ لیکن جو حکومتیں 24 ہزار ارب قرض لے کر بجلی کی لوڈ شیڈنگ جیسا معمولی مسئلہ حل نہ کرسکیں، اس سے عوامی مسائل کے حل کی توقع کرنا پتھر پر گھاس اگانے جیسی بات ہے اور یہ سارا کھیل اس لیے ہو رہا ہے کہ ملک کے عوام نے بے حسی کا برقعہ اوڑھا ہوا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ عوام کو مختلف حوالوں سے تقسیم در تقسیم کرکے ایسا رکھا ہوا ہے کہ وہ کرپٹ حکمرانوں سے لڑنے کے بجائے آپس ہی میں لڑتے رہتے ہیں اور اشرافیائی قیادت انھیں تقسیم در تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ سلسلہ عشروں سے چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔

عمران خان نے حکومت میں آکر سارا کھیل بگاڑ دیا ہے اس پر قیامت یہ کہ احتساب کا وہ کھیل شروع کیا گیا جو اشرافیہ کی صحت پر تو کوئی اثر نہیں ڈال رہا ہے۔ میڈیا نے کرپشن کی کہانیوں کو اتنا عام کر دیا کہ اب عوام کرپٹ مافیا کا نام سننا بھی نہیں چاہتی۔ ادھر اشرافیہ سخت بے چین ہے کہ کس طرح اس عمرانی حکومت سے چھٹکارا ملے، مشکل یہ ہے کہ عوام اب اشرافیہ کے قابو میں نہیں ہیں کہ انھیں سڑکوں پر لاکر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کریں اور کسی طرح حکومت کو چلتا کرکے اپنے لیے راہ ہموار کریں۔ لیکن عوام اب کرپشن کے حوالے سے اس قدر حساس ہوگئے ہیں کہ سابق اکابرین کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔

ان حقائق سے مایوس ہوکر ہماری  اشرافیہ نے ایک نیا کھیل کھیلنا چاہا، مولانا کو آگے بڑھایا کہ عوام سے زیادہ پختہ کار مذہبی کارکن اور مدرسوں کے لاکھوں بچے دستیاب ہوں گے اور ان کی طاقت سے حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن معاملہ ’’اے بسا آرزو کہ خاک شد‘‘ والا ہوگیا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ مایوسی حضرت کو ان دو اتحادی جماعتوں کی وجہ سے ہوئی جو مولانا کو چنے کے جھاڑ پر چڑھا کر خود بھاگ لیں۔ دھرنے میں شامل بہت بڑی تعداد موسم کی سختیوں سے چلی گئی تھی۔

مولانا ایک غیر معمولی شریف آدمی ہیں ان کی شرافت دیکھ کر شریف لوگ انھیں استعمال کرنا چاہتے ہیں اور مولانا کی سادگی کا عالم یہ ہے کہ بار بار دھوکا کھانے کے باوجود حضرت پھر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ دھرنا شروع ہونے سے قبل حضرت قبلہ بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ ہماری دونوں اتحادی جماعتیں ہماری تحریک میں ہمارے ساتھ ہیں لیکن جب کراچی سے تحریک کا آغاز ہوا تو ایک کارکن تحریک میں شامل نہ تھا اب تحریک کو شروع ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ ہو رہا ہے لیکن اتحادیوں کے کارکنوں کا دور دور تک پتا نہیں چونکہ بیکار بیٹھے بیٹھے کارکن بے زار ہو رہے ہیں لہٰذا اب یہ پروگرام بنایا گیا ہے کہ شاہ راہوں پر کارکنوں کو لے جایا جائے۔

یہ ایک خطرناک کھیل ہے جب آبادیوں میں کارکن آئیں گے تو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کارکن گاڑیاں روکیں گے تو مڈبھیڑ کا خطرہ ہوگا۔ ہزاروں اچھے کارکنوں میں چند برے کارکن بھی ہوتے ہیں وہ چھیڑ چھاڑ شروع کرسکتے ہیں اس کے علاوہ باہر کے لوگ بھی شرارت کرسکتے ہیں۔ ایک بار کہیں سے امن دشمنی کا آغاز ہوا تو پھر انجام کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے موقعوں پر شرپسند بھی لوٹ مار کے ارادے سے جلوسوں میں شامل ہوتے ہیں جن کو روکا نہیں جاسکتا۔

اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ہزاروں کارکنوں کو ایک کھلی جگہ جمع کرنا اور ان کی ہر ضرورت کا خیال کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہے لیکن کارکن اور بھاری سرمایہ ہو تو یہ ازحد مشکل کام بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا جاسکتا ہے۔ بفضل خدا مولانا کے پاس ٹرینڈ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہے اور سرمایہ، سرمایہ تو جیسے آسمان سے ٹپک رہا ہے بلکہ اتر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ کارکن بھی پرامن رہے اور اب کارکنوں کی تعداد کم ہے لیکن وہ بھی بڑے خلوص سے اپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ کارکنوں کو آسمان کے نیچے ایک کھلی جگہ پر ٹھہرایا گیا ہے۔

آج تک موسم گوارا تھا اب آہستہ آہستہ موسم بدل رہا ہے سردی میں شدت آ رہی ہے سخت بارشوں کا بھی خطرہ ہے اگر سردی بڑھ جاتی ہے بارشیں تیز ہوجاتی ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ چونکہ کارکن نظریاتی اور ٹرینڈ ہیں وہ سخت موسم کا شاید مقابلہ کرلیں، لیکن حضرت کے اعلان کے مطابق اگر کارکنوں کو شاہ راہوں پر لایا گیا تو صورتحال میں ایک معنوی تبدیلی آسکتی ہے اصل سوال یہ ہے کہ کیا مولانا ، وزیر اعظم عمران خان کو گھر بھیج سکیں گے؟ گھوڑا بھی یہیں ہے میدان بھی یہیں ہے بس چند دن کی بات ہے نتیجہ آپ کے سامنے ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔