گھر کا بھیدی

سلیم ملک  جمعرات 24 اکتوبر 2013
alimalik@hotmail.com

[email protected]

واہ کیا بات ہے، وہی عمران طاہر جسے ہم فرسٹ کلاس کرکٹ کھلانے کے لیے بھی تیار نہ تھے، وہ اکیلا آدھی پاکستانی ٹیم کو آئوٹ کر گیا،کھلاڑی فاسٹ بولرز کے ہاتھوں وکٹیں گنواتے تو بات سمجھ میں آتی لیکن دبئی کی وکٹ پر بیٹسمینوں کا ایک اسپنر کے جال میں پھنس جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ایشیائی بالخصوص پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں اسپنرز کو بہت اچھے انداز میں کھیلتی ہیں، فلپر اور گگلی کھیلنا تو ہمارے بیٹسمینوںکے بائیں ہاتھ کا کام ہے لیکن عمران طاہر نے ان دونوں ورائٹیز کے ذریعے ہی کپتان مصباح الحق سمیت دیگر اہم کھلاڑیوں کو پویلین کا راستہ دکھایا۔ میری رائے میں پروٹیز نے پاکستانی کھلاڑیوں کو آئوٹ نہیں کیا بلکہ وہ خودکراس شاٹس کھیل کر وکٹیں گنواتے رہے، ٹیم کو دبائو سے نکالنے کے لیے اوپنرز کا پہلا ہدف کم ازکم 10 اوورز وکٹ پر ٹھہرنا ہوتا ہے، ایسا تب ہی ممکن ہے جب بیٹسمینوں کو باہر جاتی ہوئی گیند کو چھوڑنے اور اندر آتی ہوئی بال کو روکنے میں مہارت ہو، یہ بنیادی فارمولہ اور نکتہ بتانا کسی اور کا نہیں بلکہ کوچ کا کام ہوتا ہے۔

میرا ڈیو واٹمور سے سوال ہے کہ وہ پی سی بی سے ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ کس بات کی وصول کر رہے ہیں جو اب تک کھلاڑیوں کو یہی نہیں بتا سکے کہ انھیں لمبے وقت تک وکٹ پر قیام کیسے کرنا ہے۔ ہمارے بیٹسمینوںکو آف سائیڈ کی لائن پر آنے والی گیند کو چھوڑنا ابھی تک نہیں آیا، غیر ملکی کوچ کچھ اور نہیں تو کم از کم پلیئرز کی اسی خامی کو ہی دور کر دیں۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں کوچ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، دنیا میں بس یہ فیشن چل نکلا اور اس کی اندھی تقلید میں ہم بھی اپنا روپیہ پیسہ اور ٹیلنٹ سب کچھ ضائع کر رہے ہیں۔ہمارا کوچ کھلاڑیوں سے ایک سخت گیر ہیڈ ماسٹر کی طرح کام لینا چاہتااور وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ جنھیں دھونس دھاندلی سے اپنے تابع کرنا چاہتا ہے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ عصر حاضر کے اسٹار کرکٹرز ہیں، لاکھوں ، کروڑوں دل ان کے لیے دھڑکتے ہیں، وہ جہاں جائیں چاہنے والے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ، جب ان کرکٹرز کو آپ آنکھیں دکھائیں گے تو وہ بھی آپ کی باتوں کی پرواہ نہیں کریں گے۔

میری ذاتی رائے ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں ٹیم کو کوچ کے بجائے مشیرکی ضرورت ہوتی ہے، پہلے آپ ہر کھلاڑی کی نفسیات کا بغور جائزہ لیں اور اس کے بعد منجھے ہوئے ماہرنفسیات کی طرح اس سے اس کی نفیسات کے مطابق کام لیں، مثال کے طور پر اگر کوئی کھلاڑی ایک غلطی بار بار دہرائے تو نشاندہی اس انداز میں کریں کہ اسے بُرا بھی نہ لگے اور وہ اپنی خامی پر قابو بھی پا لے۔ قومی ٹیم کی کپتانی کرنا کسی بھی کھلاڑی کے لیے اعزاز کی بات ہوتی ہے لیکن میں گرین شرٹس کی قیادت کے پیچھے بھاگا اور نہ ہی کبھی اس کی خواہش کی، بعض اوقات حالات کچھ ایسے ہو جاتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو وہ کام کرنا پڑتا ہے۔ کھلاڑیوں کے درمیان ناچاقی کی وجہ سے قومی ٹیم 2حصوں میں تقسیم ہوگئی، ایسی صورتحال میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے کپتانی کا کانٹوں بھرا تاج میرے سر پر سجا دیا، بورڈ کے ان احکامات کے بعد فاسٹ بولرز وسیم اکرم اور وقار یونس مجھ سے اتنا خفا ہوئے کہ انھوں نے بات کرنا تو درکنار میری طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا لیکن میں نے اپنی کپتانی کے دوران دونوں پیسرز سے ان کے کیریئر کی سب سے عمدہ بولنگ کرائی۔

میرا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ میں گیند ہاتھ میں تھامے وسیم اکرم کے پاس جاتا اور اس سے کہتاکہ وقار یونس نے مجھے کہا ہے کہ اس میچ میں وسیم سے زیادہ وکٹیں لینی ہیں، یہ لو گیند اچھی بولنگ کرو یا نہ کرو،اب تمہاری مرضی ہے۔ یہی جملے میں وقار یونس کے پاس بھی جا کر دہراتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میںدونوں ہی اپنی شاندار بولنگ سے مخالف ٹیم کو ڈھیرکر دیتے اور تیسرے بولر کی نوبت ہی نہ آتی۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ میری اس پلاننگ کا دونوں پیسرز کو معلوم ہی نہ ہو سکا اور جب میری سوچ ان پر آشکار ہوئی تو پاکستان ٹیسٹ میں زمبابوے جیسی کمزور ٹیم کے ہاتھوں بھی شکست سے دو چار ہو گیا۔مصباح الحق اچھے کھلاڑی اورکپتان تو ہیں لیکن وہ کھلاڑیوں سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام نہیں لے رہے، وہ خود تو کریز پر موجود رہتے ہیں لیکن دوسرے اینڈ پر موجود بیٹسمینوں کی درست رہنمائی نہیں کرپاتے، دبئی ٹیسٹ میں پاکستان ٹیم پہلے روز جس قدر بُرا کھیلی ہے میرے خیال میںاس کے بعد یہ ٹیسٹ افریقہ آرام سے جیت جائے گا،البتہ سعید اجمل اور ذوالفقار بابر دوسرے روز اپنی بولنگ کے ذریعے گرین کیپس کو میچ میں واپس لا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔