بیماری کے فوائد

خرم علی راؤ  منگل 19 نومبر 2019
بیماری کو مصیبت نہیں نعمت سمجھنا چاہیے کیونکہ بیماری کئی فوائد کی حامل ہوا کرتی ہے۔ -فوٹو: انٹرنیٹ)

بیماری کو مصیبت نہیں نعمت سمجھنا چاہیے کیونکہ بیماری کئی فوائد کی حامل ہوا کرتی ہے۔ -فوٹو: انٹرنیٹ)

بیماری کو ویسے تو بڑی ناگوار چیز اور زحمت اور بلا سمجھا جاتا ہے اور فی زمانہ تو خاص طور پر وطن عزیز میں متوسط اور غریب طبقے میں کسی کا بیمار پڑ جانا بھی کسی عذابِ جاریہ سے کم نہیں ہوتا اور علاج معالجے کے اخراجات بری طرح کمر توڑ دیتے ہیں۔ لیکن ان سب تلخ سچائیوں کے باوجود بیماری کے بھی بے شمار فوائد ہوتے ہیں۔

دینی لحاظ سے بھی کہا جاتا ہے کہ بیماری کو مصیبت نہیں نعمت سمجھنا چاہیے اور بیماری کئی فوائد کی حامل ہوا کرتی ہے، جیسے کہ بیماری سے گناہ دھلتے ہیں اور بیماری انسان میں مسکنت اور عاجزی پیدا کرتی ہے، تکبر کو توڑتی ہے اور بیمار افراد میں دردمندی اور احساسِ ہمدردی نسبتاً بڑھ جایا کرتا ہے۔ اور بھی بہت سے فضائل و فوائد دینی حوالے سے بیماری کے حوالے سے ملتے ہیں جو کہ برحق ہیں۔

ایک روایت کا مفہوم ہے کہ کوئی اللہ والے بیماری کے فضائل پر بیان کررہے تھے کہ اسی وقت کوئی شخص کسی بیمار کو لے کر دعائے صحت کےلیے آگیا۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے سوچا کہ ابھی تو حضرت صاحب بیماری کے فضائل بیان کررہے اور بیماری کو ایک نعمت بتا رہے تھے اور یہ بالکل برعکس معاملہ پیش آگیا، اب حضرت کیا کریں گے؟ تو اللہ والے حضرات کو حکمت و بصیرت عطا کی جاتی ہے۔ ان حضرت صاحب نے کچھ یوں دعا کی ’’اے اللہ! بیماری بھی تیری نعمت اور صحت بھی تیری نعمت، تو ایک نعمت سے دوسری نعمت کو بدل دے‘‘۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ بالکل حق و سچ ہیں، لیکن ہم گناہ گار دنیادار بندے ہیں اور دنیا داری میں گھرے ہیں تو پھر نوِید ہو بیماری کے کچھ دنیاوی فوائد بھی ہیں، جو ہر جگہ و ہر سطح پر محسوس ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دین داری سے دنیا داری زیادہ بھاری ہوتی ہے اور دنیا میں اس حیاتِ پرفریب کو بسر کرنا بھی ایک کارِعظیم اور جہد مسلسل سے کم نہیں ہے۔ تو آج بیماری اور بیمار پڑنے کے کچھ دنیاوی فوائد پر بات ہوجائے۔

دیکھیں ناں ہم سب چھوٹے و بڑے یقیناً اسکول، مدرسے اور دفتر سے چھٹی کرنے کےلیے کبھی نہ کبھی ضرور بیمار پڑے ہوں گے۔ پیٹ کا درد کیونکہ نظر نہیں آسکتا، چنانچہ بچپن میں اسے اسکولوں سے چھٹی کرنے کےلیے خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بیماری ایک ایسا ترپ کا اکا اور گیدڑ سنگھی ہے جو ہر جگہ چھٹی کرنے کےلیے کام آجاتا ہے۔ تو بیماری کا ایک فائدہ تو یہ ہوگیا اور پھر آپ دیکھیں کہ شعبہ صحت سے کتنے لوگ وابستہ ہیں اور اسپتالوں، لیبارٹریز، ادویہ اور جعلی ادویہ کی تیاری اور فروخت سے دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں افراد اپنی روزی کما رہے ہیں۔ تو یہ سب نظام بھی کسی درجے میں تو بیماری کے فوائد میں شمار کیا جا ہی سکتا ہے۔ پھر آپ یہ دیکھیں کہ وہ جو مرزا غالب کہہ گئے ہیں کہ ’’تنگ دستی اگر نہ ہو غالب… تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘ تو بیماری تنگ دستی کو بھی اسی طرح بھلا دیتی ہے جیسے بڑی مصیبت چھوٹی مصیبت کو، یا بالکل اسی طرح جیسے کسی غریب اور دائمی نزلے زکام یا قبض کے مریض کو اچانک کینسر تشخیص ہوجائے تو نزلہ، زکام اور قبض بھی غربت کے ساتھ فوراً فراموش ہوجاتا ہے۔ تو ترمیم کے ساتھ یہ شعر پھر کچھ یوں بھی تک بند کیا جاسکتا ہے ’’خوشحالی اگر نہ ہو غالب… بیماری ہزار نعمت ہے‘‘۔ کیونکہ بیماری غربت کو بھلا دیتی ہے ناں۔

بیماریاں کئی اقسام کی ہوتی ہیں، جیسے جسمانی بیماریاں، روحانی بیماریاں، اخلاقی بیماریاں، غیر اخلاقی بیماریاں وغیرہ اور ایسی بھی بیماریاں جن کے بڑے بڑے ماہرین قصبوں، دیہاتوں اور شہروں میں دیواروں پر موثر اور گارنٹڈ علاج کے اشتہار سجائے بیٹھے ہیں۔ لیکن وطن عزیز میں ہم نے بڑے فخر سے بیماری کی ایک ذرا سی نئی قسم ایجاد کرلی ہے اور ساری دنیا میں اس کے ڈنکے بج رہے ہیں کہ یہ کیا ایجاد کرڈالا پاکستانیوں نے، اور کف افسوس ملا جارہا ہے کہ ہم کیوں نہیں ایسا کرسکے اور بیماری کی وہ نادر و نایاب قسم ہے سیاسی بیماری۔ اور ہمارے بیمار بیمار سے سیاست دان اور ان کے ہمنوا اور کبھی کبھی کچھ بڑے کاروباری حضرات جن پر ان کے حاسد اور بدخواہ خوامخواہ مالی بدعنوانیوں کے الزامات لگاتے رہتے ہیں وغیرہ، اس کے مریض ہوا کرتے ہیں۔

خیر کاروباری حضرات کو ذرا فی الحال چھوڑیں لیکن ہمارے سیاست دان بھی واقعی بڑے عجیب لوگ ہیں، ایسی ایسی سنگین بیماریاں اپنے اندر چھپائے اپنے دورِ اقتدار میں خصوصاً اور دیگر ادوار میں بھی عموماً بس ملک و قوم کی خدمت میں دن رات اتنے مگن اور ایسے مصروف رہتے ہیں کہ اپنی صحت کی پروا کرنا بھی بھول جاتے ہیں۔ اور بار بار سمجھانے پر بھی جب قومی خدمت سے باز نہیں آتے اور آرام کی طرف ذرا توجہ نہیں دیتے۔ تو پھر مجبوراً انہیں یونہی ذرا دنیا دکھاوے کے طور پر جبری حراست میں لے کر زبردستی آرام کا موقع دیا جاتا ہے کہ سر جی! ذرا آرام کیجیے، بہت محنت کرلی ہے آپ نے، اور کچھ دوسروں کےلیے بھی چھوڑ دیں، یعنی محنت کرنا وغیرہ۔ تو پھر ان کی وہ چھپی ہوئی سنگین بیماریاں منظرِ عام پر آتی ہیں جو یہ بہادر اور حوصلہ مند لوگ خاموشی سے برسوں چھپائے پھرتے ہیں۔ اور پھر مزید یہ کہ سلام ہے ان دلیروں کو کہ یہ پھر بھی دورانِ علاج بار بار رسی تڑا کر اور اپنی بیماری کو بھلا کر قومی خدمت پر جانے کےلیے مصر رہتے ہیں اور علاج پر ذرا بھی توجہ نہیں دیتے۔ ان کا عزم یہی رہتا ہے کہ جان جاتی ہے تو جائے لیکن قوم کی خدمت و رہنمائی سے باز نہیں آنا ہے۔ کچھ تو اتنے زیادہ بیمار پڑ جاتے ہیں کہ پھر ان کا علاج اس ملک میں تو ممکن ہی نہیں رہتا اور پھر مجبوراً انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر علاج کےلیے بالجبر باہر بھیجنا پڑتا ہے۔

اچھا ایک عجیب سی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی بیمار نہ جانے کیوں پھر آسانی سے واپس بھی نہیں آتے، بلکہ باہر ہی، میرا مطلب ہے ملک سے باہر ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ شاید زبردستی علاج کروا دینے سے خفا ہوجاتے ہیں۔ لیکن شفیق اور مہربان اتنے ہیں کہ باہر ہی سے قوم کی خدمت کرنے اور قومی رہنمائی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور اسی میں جٹے رہتے ہیں۔ واقعی جذبۂ خدمت ہو تو ایسا ہو، ورنہ پھر نہ ہی ہو تو بہتر ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔