اپنی شہرت اور نام استعمال کرکے دین کی خدمت کرنا چاہتا ہوں، حمزہ علی عباسی

ویب ڈیسک  منگل 19 نومبر 2019
اسلام کا اولین کا تقاضہ یہ ہے کہ مخلوق کی خدمت کی جائے حمزہ علی عباسی فوتوفائل

اسلام کا اولین کا تقاضہ یہ ہے کہ مخلوق کی خدمت کی جائے حمزہ علی عباسی فوتوفائل

اداکار حمزہ علی عباسی  کا کہنا ہے کہ وہ اپنی شہرت، مقبولیت اور نام کو استعمال کرکے دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔

حال ہی میں حمزہ علی عباسی نے وائس امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے اداکاری چھوڑنے اور دین کی راہ اپنانے سے متعلق کھل کر گفتگو کی اور اپنے مستقبل کے منصوبوں سے بھی آگاہ کیا۔ میزبان نے حمزہ علی عباسی سے پوچھا کہ سوشل میڈیا پر جہاں ان کے اس فیصلے کو سراہا جارہا ہے وہیں کچھ لوگ تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آپ نے یہ سب  سستی شہرت کے لیے کیا ہے۔

میزبان کے اس سوال پر حمزہ علی عباسی نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ اگر مجھے پبلسٹی چاہیے ہوتی تو میرے خیال میں سب سے اچھا میڈیم تو ایکٹنگ ہی تھا اوراگر میں نے یہ سب صرف پبلسٹی کے لیے کیا تو میں بہت بڑا بیوقوف ہوں۔ بعد ازاں حمزہ علی عباسی نے کہا کہ اداکاری کے دوران انہیں اللہ تعالیٰ نے بہت شہرت سے نوازا اور ان کے تمام پراجیکٹ سپرہٹ ثابت ہوئے لہٰذا شہرت تو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی۔

حمزہ علی عباسی نے کہا جو لوگ میرے بارے میں ایسا سوچتے ہیں میں انہیں الزام نہیں دوں گا بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ وقت کے ساتھ انہیں احساس ہو کہ میں نے یہ راستہ پبلسٹی کے لیے اختیار نہیں کیا۔ دین کی راہ اپنانے کا مقصد یہ تھا کہ مجھے احساس ہوگیا ہے کہ موت کے بعد ہر انسان کی جواب دہی ہونی ہے جس کے بعد ہمیشہ کے لیے قائم رہنے والی دنیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں پچھلے ڈھائی سال سے صحیح طرح سو نہیں پایا یہ سوچ کرکہ میری آخرت میں جواب دہی ہونی ہے۔

میزبان کی جانب سے پوچھے جانے والے سوال کہ آپ نے دین کی خدمت کے لئے تبلیغ کا راستہ ہی کیوں اپنایا جس پر حمزہ نے کہا انسانیت کی خدمت کرنا ہر انسان پر فرض ہے اور اسلام کا اولین کا تقاضہ یہ ہے کہ مخلوق کی خدمت کی جائے اور میں نے ہمیشہ انسانیت کی خدمت کی ہے اور آگے بھی کروں گا۔ اور جہاں جہاں میں اپنے نام، اپنی شہرت کو استعمال کرسکتا ہوں دین کی خدمت کے لیے استعمال کروں گا۔

حمزہ علی عباسی نے کہا کہ لوگ ہمیشہ باہر تبلیغ کرنے جاتے ہیں اور کہتے ہیں اسلام پھیلانا ہے لیکن مجھے احساس ہوا کہ ہمارے گھر میں ہمارے اندر کچھ مسائل ہیں جن پر بات کرنے کو بھی بڑا خطرناک سمجھاجاتاہے۔ ہمارے ملک میں لوگ اسلام سے اور حضرت محمد ﷺ سے بے حد محبت کرتے ہیں اور دین کے لیے جان دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو لوگوں کے ان جذبات کو غلط راستے پر ڈال کر استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو لوگوں کو دین کے بارے میں صحیح راہ دکھائیں۔

حمزہ علی عباسی نے کہا بہت سے لوگ میرے نظریات کی وجہ سے کہتے ہیں کہ آپ کی زندگی زیادہ لمبی نہیں ہوگی جس پر میں کہتا ہوں کہ اس سے بڑی تو سعادت ہی کو ئی نہیں ہوگی کہ میں اللہ کی باتیں کرتے کرتے دنیا سے چلاجاؤں اسے تو شہادت کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ راستہ اس لیے چنا کہ ہمارے ملک میں لوگ عقل کے بجائے جذبات سے سوچتے ہیں لہذا میں وہ عزت جو اللہ نے مجھے دی ہے اسے استعمال کرکے لوگوں میں شعور پھیلاؤں گا۔ انسانیت کی خدمت اورلوگوں کے مذہب کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوالوں کے جواب دینے کے لیے میں نے یہ راستہ اختیار کیا اور شاید اسی کی وجہ سے مجھے آخرت میں تھوڑا اطمینان حاصل ہوگا۔

ماضی میں ’’می ٹو‘‘ پر کی گئی ٹویٹ پر حمزہ علی عباسی نے کہا کہ ہمارے دین میں مَردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے خواتین نے چاہے کیسا بھی لباس پہنا ہو مَردوں کو چاہیے کہ وہ اپنی نگاہوں میں شرم پیدا کریں اور اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔

انٹرویو کے آخر میں حمزہ علی عباسی نے کہا دین ایک پیغام کا نام ہے کہ یہ موت زندگی کے اختتام کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ابدی زندگی اس کے بعد شروع ہوتی ہے اور میرا کردار صرف اتنا ہے کہ میں جتنا اس چیز کو پھیلاسکوں پھیلاؤں۔ دوسری بات ہماری نوجوان نسل جو لادینیت کی طرف جارہی ہے ان کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرسکوں اور تیسری بات یہ کہ میرے نزدیک ہمارے معاشرے میں مذہب کے حوالے سے جو غلط تصورات آگئے ہیں ان کے بارے میں بات کرسکوں۔

حمزہ علی عباسی نے کہا  فلم ڈراما، پینٹنگ یہ حرام نہیں،حرام بدکاری ہے، ماضی میں میں نے فلم ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ میں کام کیا جس میں یہ چیز شامل تھی اور جس کے لیے میں معافی مانگ چکاہوں۔ میں نے اداکاری اس لیے نہیں چھوڑی کہ یہ حرام  ہے بلکہ اس لیے چھوڑی ہے کہ لوگ مجھے بطور مذہبی ایکٹیوٹسٹ سنجیدگی سے لیں۔ حمزہ علی عباسی نے مزید کہا کہ وہ مستقبل میں ڈراما اور فلم کی ہدایت کاری دیں گے اور اس میڈیم کے ذریعے اسلام کی جتنی خدمت کرسکتے ہیں کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔