بھارتی ہٹ دھرمی... آخر کب تک؟

میاں اصغر سلیمی  جمعرات 21 نومبر 2019
بھارتی لابی نے سازش کے ذریعے پاکستان کو ڈیوس کپ ٹائی کی میزبانی سے محروم کردیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بھارتی لابی نے سازش کے ذریعے پاکستان کو ڈیوس کپ ٹائی کی میزبانی سے محروم کردیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اعصام الحق کا شمار پاکستان کے بڑے ٹینس پلیئر میں ہوتا ہے۔ اپنے کھیل سے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہراتے اور بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ اعصام پاکستان کے واحد پلیئر ہیں جنہیں یو ایس اوپن کا مکسڈ ڈبلز فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل ہے۔ فرنچ اوپن، ومبلڈن اوپن کے سیمی فائنل بھی کھیل چکے ہیں۔ نومبر 2010 میں اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام کے خیرسگالی سفیر مقرر ہوئے۔ کھیلوں کے شعبے میں ملک وقوم کےلیے سر انجام دی گئی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

اعصام الحق کی شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر جب بھی کوئی بڑی کامیابی سمیٹتے ہیں تو انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے نہ صرف پرامن پاکستان کا پیغام دنیا بھر میں پہنچاتے ہیں بلکہ ملک کا روشن پہلو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاموش طبع ضرور ہیں لیکن حق سچ کی بات ڈنکے کی چوٹ پر کہہ جاتے ہیں۔ پاکستان نے رواں ماہ اسلام آباد میں بھارت کے خلاف شیڈول ڈیوس کپ ٹائی مقابلوں کی میزبانی کرنی تھی۔ بھارتی دباﺅ پر انٹرنیشنل فیڈریشن نے یہ ایونٹ پاکستان سے واپس لے کر نیوٹرل مقام پر کروانے کا اعلان کیا تو جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ مجال ہے کہ پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن یا حکومتی سطح پر ہی اس کی مذمت کی جاتی۔ لیکن اعصام الحق نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر آل انڈیا ٹینس ایسوسی ایشن اور آئی ٹی ایف دونوں تنظیموں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ممتاز پلیئر کے مطابق انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن کا پاکستان سے میزبانی واپس لینے کا فیصلہ غیر منصفانہ اور تعصب پر مبنی ہے، اگر فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو میں نہ صرف بھرپور احتجاج کروں گا بلکہ مقابلے پاکستان میں نہ ہونے کی صورت میں اس کا بائیکاٹ بھی کروں گا۔

اس حقیقت سے کسی صورت بھی انکار ممکن نہیں کہ نائن الیون کے واقعے نے پوری دنیا کو بری طرح متاثر کیا۔ کچھ عرصہ قبل نیوزی لینڈ میں ایک جنونی سفید فام باشندے نے جس بہیمانہ اور بے رحم انداز میں مسجد میں گھس کر مسلمان بچوں، بوڑھوں اور خواتین کا قتل عام کیا، اس کو یاد کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 17 اپریل 2017 کو سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ٹرک ڈرائیور کی طرف سے 4 افراد کو کچلا گیا۔ 19 دسمبر 2016 کو جرمنی کے شہر برلن میں کرسمس مارکیٹ میں ٹرک کے ذریعے ہونے والے حملے میں 12 افراد ہلاک اور 49 افراد زخمی ہوئے۔ فرانس کے شہر نیس میں 14 جولائی 2016 میں 84 افراد کو مار دیا گیا۔ بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز کا ہوائی اڈہ اور شہر کا میٹرو اسٹیشن مارچ 2016 میں تین دھماکوں کا نشانہ بنا۔ ان حملوں میں 34 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے۔ اسی طرح کی دہشت گردی کے بے شمار واقعات ایسے ہیں جن کو کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

سلام ہے ہماری پاک فوج کے بہادر افسروں اور جوانوں پر، جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اس ارض پاک کے چپے چپے کی حفاظت کی اور ضرب عضب کے بعد ردالفساد آپریشز کے ذریعے اس ملک سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا۔ پاک فوج کی ان بڑی کامیابیوں کے نتیجے میں اب پاکستان کا شمار دہشت گردی کے شکار ملکوں سے نکل کر پرامن ممالک میں ہونے لگا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور بارڈر کھول کر پوری دنیا کو پرامن پاکستان کا واضح پیغام دیا ہے۔ ننکانہ صاحب کے بعد اب ہزاروں بھارتی شہری روزانہ کی بنیاد پر کرتارپور آتے ہیں اور اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات ہونے کی وجہ سے ایک بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ گزشتہ ماہ برطانوی شاہی جوڑا بھی پاکستان آیا اور انہوں نے لاہور، اسلام آباد اور چترال سمیت پاکستان کے متعدد شہروں کی جی بھر کر سیر بھی کی۔

انٹرنیشنل کھیلوں کی اگر بات کی جائے تو کچھ عرصہ میں پاکستان میں بے شمار انٹرنیشنل ایونٹس ہوئے ہیں۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم نے کراچی میں ون ڈے اور لاہور میں ٹوئنٹی 20 سیریز کھیلی۔ پاکستان کی طرف سے ملنے والی سیکیورٹی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آئی لینڈرز نے اب پاکستان میں ٹیسٹ سیریز بھی کھیلنے کا اعلان کیا ہے۔ بنگلہ دیش کی خواتین اور انڈر 16 ٹیمیں بھی پاکستان میں ایکشن میں دکھائی دے چکی ہیں۔ کاکا، فیگو سمیت انٹرنیشنل اسٹار فٹبالرز بھی پاکستان آئے اور کراچی اور لاہور میں نمائشی میچز بھی کھیلے۔ پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کا مکمل میلہ پاکستان میں سجانے کی تیاریاں بھی زور وشور سے جاری ہیں۔ اس لیگ میں دنیا بھر کے متعدد کرکٹرز نے پاکستان میں کھیلنے کے لیے گرین سگنل بھی دیا ہے۔ آئندہ برس کے آغاز میں ہی پاکستان کبڈی ورلڈ کپ کی میزبانی بھی کرے گا۔

ظاہری بات ہے یہ بڑی کامیابیاں ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو کسی صورت بھی ہضم نہیں ہورہیں، اس لیے مخصوص بھارتی لابی ہر لمحے پاکستان کو نقصان پہچانے کے درپے ہوتی ہے۔ یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ بھارت نے 72 برس گزر جانے کے باوجود پاکستان کو دل سے قبول ہی نہیں کیا۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد بھارتی حکمرانوں کا خیال تھا کہ پاکستان کےلیے اتنی مشکلات پیدا کردی جائیں گی کہ وہ خود بھارت میں دوبارہ شامل ہونے کی درخواست کرے گا اور بھارت نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا کیا بھی۔ چند ماہ بعد ہی اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں، پانی کا مسئلہ کھڑا کردیا، پاکستان کا فوجی سازو سامان اور سرمایہ دینے سے انکار کردیا، مسلمان مہاجرین کا بے دریغ قتل عام کیا۔ اس طرح کے کئی اور حربوں اور ہتکھنڈوں کا استعمال کرکے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن بھارت اس ارض پاک کو جتنا دبانے کی کوشش کرتا رہا، پاکستان اتنا ہی مضبوط بن کر ابھرتا رہا۔ بھارت نے 1974 میں ایٹمی دھماکا کیا تو چند سال بعد پاکستان بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کرچکا تھا اور اس نے 28 مئی 1998 کو چاغی کے مقام پر یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کا چھٹا اور مسلم دنیا کے پہلے ایٹمی ملک بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

اب بھارت پاکستان کو کھیلوں کے عالمی میدانوں میں تنہا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس لیے بھارتی لابی نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن کے بل بوتے پر ڈیوس کپ ٹائی کی میزبانی سے محروم کردیا ہے۔ لیکن دوسرے شعبوں کی طرح کھیلوں میں بھی پاکستان کو تنہا کرنے کا بھارتی خواب کبھی بھی پورا نہیں ہوگا اور بھارتی حکام کو دوسرے شعبوں کی طرح اس میدان میں بھی منہ کی کھانا پڑے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Mian Asghar Saleemi

میاں اصغر سلیمی

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے، دو عشروں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، اسپورٹس رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ 12 برس سے ایکسپریس کے ساتھ وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔