حکومت کو ماضی سے نکل کر بہتر مستقبل کی جانب بڑھنا ہوگا

رضوان آصف  بدھ 20 نومبر 2019
اس قوم نے آپ سے مہنگائی کے بارے پوچھنا ہے اور فی الوقت آپکے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔

اس قوم نے آپ سے مہنگائی کے بارے پوچھنا ہے اور فی الوقت آپکے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔

 لاہور: پاکستان مسلم لیگ(ن) کے قائد اور پاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والے میاں نواز شریف گزشتہ روز علاج کیلئے بیرون ملک روانہ ہو چکے ہیں۔

سروسز ہسپتال میں علاج کے تنازعہ سے لیکر بیرون ملک جانے تک حکومت اور ن لیگ کے درمیان جاری محاذ آرائی میں کون جیتا اس کا فیصلہ تو مستقبل قریب میں ہوگا لیکن اس تمام تنازعہ میں عام آدمی کا حکومتی نظام پر اعتمادلڑکھڑا گیا ہے۔حکومت نے اس معاملے میں متعدد ’’یو ٹرن‘‘ لیئے کبھی یہ ظاہر کیا کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاج کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن رہی اور کبھی 7 ارب روپے کا ضمانتی بانڈ طلب کر کے معاملہ عدلیہ کی جانب بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

عمران خان نے ہزارہ موٹر وے کی افتتاحی تقریب میں جن الفاظ اور جس انداز میں تقریر کی کہ کسی طور بھی وزیر اعظم کے منصب کے شایان شان قرار نہیں دی جا سکتی، آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ انٹرنیشنل ہیرو وزیر اعظم کے طور پر جب منہہ ٹیڑھا کر کے اپنے اپوزیشن رہنما کی نقل اتارتا ہے تو درحقیقت وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپوزیشن کے دباو میں ہے۔کپتان کی تقریر سن کر اس شخص کی مثال یاد آگئی جو کسی کام کو نہ کرنا چاہتا ہو لیکن اسے ڈرا دھمکا کر یا دباو میں لا کر وہ کام اس سے کروا لیا جائے تو پھر وہ کسی نہ کسی طور اپنے اندر کی بھڑاس نکالتا ہے۔

حکومت سمیت سب کو معلوم ہے کہ میاں نواز شریف حقیقت میں سخت بیمار ہیں،عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر فیصل کو سروسز ہسپتال بھیج کر تمام رپورٹس چیک کروائی تھیں،اس وقت بعض وزراء میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کے حوالے سے ان کی تصاویر کو بنیاد بنا کر جو بیان بازی کر رہے ہیں وہ کسی طور مناسب نہیں ہے، تحریک انصاف کی حکومت کا سب سے بڑا پرابلم یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ’’شریف زرداری فوبیا‘‘ سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں وہ اپنی حکومت کو کامیابی سے آگے بڑھانے اور عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینے کیلئے منصوبہ بندی کرنے کی بجائے ماضی کے حکمرانوں کے ایسے احتساب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جس میں 15 ماہ تک اپنی اور حکومت کی تمام توانائیاں خرچ کرنے کے باوجود وہ کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہیں لا سکے ہیں۔

تحریک انصاف کے تمام وزراء بھی خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کرنے کیلئے عمران خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سخت بیانات دیتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس وقت تحریک انصاف میں یہ تاثر عام ہے کہ جو وزیر سابق حکمرانوں کے خلاف جتنا اونچا اور جتنا سخت بولے گا وہ اتنا ہی قرب حاکم کا حقدار ہوگا۔ایک یا ڈیڑھ ماہ قبل کی حکومت کے مقابلے میں آج کی حکومت بہت کمزور دکھائی دیتی ہے،مولانا فضل الرحمن کے دھرنے نے حکومتی شیلڈ میں کئی ڈنٹ ڈال دیئے ہیں، میاں نواز شریف کو روکنے کے تمام حربے ناکام ہونے کے سبب تحریک انصاف کو اب شدید دباؤ کا سامنا کرنا ہوگا۔

ان کا بیانیہ مجروح ہو چکا ہے اور جب میاں نواز شریف علاج مکمل کروا کر وطن واپس آئیں گے تو حکومت کو مزید سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ فی الوقت تو حکومتی بیانیہ اس رخ کی جانب تبدیل ہو گیا ہے کہ میاں نواز شریف علاج کروا کر شاید وطن واپس نہ آئیں لیکن اگر میاں نواز شریف علاج مکمل کروا کر واپس آگئے بے شک انہیں چار کی بجائے چند ہفتے مزید مہلت لینا پڑے تو ان کی واپسی کے بعد مسلم لیگ(ن) کے کارکن کا مورال کیا ہوگا اور تحریک انصاف کا ورکر کہاں کھڑا ہوگا۔ تحریک انصاف کے اقتدار کی کرسی جن چار ’’پایوں‘‘ پر کھڑی ہے ان کو دیمک لگ چکی ہے اور اب یہ اندر ہی اندر اسے کھوکھلا کرے گی اور پتا اس وقت لگے گا جب یہ کرسی اچانک زمین بوس ہو جائے گی۔

چوہدری برادران جس انداز میں فعال اور متحرک ہوئے ہیں وہ ’’معمول‘‘ کے مطابق نہیں ہے۔ پاکستانی سیاست میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی ایسے سیاستدان کے طور پر جانے جاتے ہیں جو بلا وجہ نہیں بولتے اور جب بولتے ہیں تو کسی نہ کسی وجہ سے بولتے ہیں۔ مسلم لیگ(ق) کو تحریک انصاف سے جو شکایات ہیں ان کا ادراک گزشتہ چند ماہ سے سبھی باخبر حلقوں کو ہے ،تحریک انصاف نے مسلم لیگ(ق) کے ساتھ جو وعدے کیے انہیں مکمل طور پر نبھایا نہیں گیا ہے۔

اس کے باوجود چوہدری برادران نے عمران خان کا ساتھ ابھی تک نہیں چھوڑا ہے ،گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کا سیاپا گروپ جس انداز میں چوہدری برادران کی تضحیک کر رہا ہے اسے روکنے کیلئے عمران خان کی جانب سے ’’شٹ اپ کال‘‘ ابھی تک سنائی نہیں دی ہے۔اداروں کے ترجمان ٹویٹ کریں یا حکومتی وزراء یہ بیان دیں کہ ’’سب ایک پیج پر ہیں‘‘ لیکن وافقان حال جانتے ہیں کہ سب اچھا نہیں ہے ،کہیں نہ کہیں کوئی دراڑ آچکی ہے ،بادشاہ گروں کا مزاج بدل رہا ہے، نئی تلاش کا آغاز بھی ہو چکا ہے لیکن ابھی حتمی فیصلوں کے ہونے میں کچھ وقت مزید لگے گا۔

شاید ایک آدھ لائف لائن ابھی باقی ہے جسے استعمال کا موقع دیا جائے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ اب نئے پاکستان میں نئے انداز کی گورننس لانا ہی تحریک انصاف کے مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے۔عوام کی بڑی اکثریت حکومت کے اقدامات سے نالاں ہے ،ریڑھی والے سے لیکر صنعتکار تک اور گریڈ ایک سے 22 کے افسر تک ہر کوئی پریشان اور خوفزدہ ہے۔بڑی فیکٹریوں میں ڈاون سائزنگ ہو گئی ہے تو چھوٹی فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، بڑے برانڈز کے مالکان نے اپنے آوٹ لٹس کی تعداد کم کرنا شروع کردی ہے کیونکہ خریداروں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔

کنسٹرکشن سیکٹر کی شدید مندی کے سبب 43 دیگر منسلک کاروبار ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ دیہاڑی دار مزدور بھی اب کئی کئی دن اڈے پر بیٹھے راہ تکتے رہتے ہیں کہ آج ان کی دیہاڑی لگوانے کوئی آئے گا یا نہیں۔اس تمام سیاسی اور معاشی صورتحال نے بطور سیاسی تنظیم تحریک انصاف کے ورکرز کو بہت مایوس اور پریشان کردیا ہے،ایک جانب پہلے ہی تنظیم سازی کے نام پر سرکس چل رہا ہے تو دوسری جانب کھلاڑیوں کیلئے اپنی حکومت کے اقدامات اور بیانات کا دفاع مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

عمران خان کو اب ماضی سے نکل کر ملک و قوم کے مستقبل کی جانب بڑھنا چاہئے ،احتساب کو ساتھ لیکر چلیں لیکن اپنی تمام توانائیاں اس پر خرچ نہ کریں کیونکہ اس قوم نے آپ سے مہنگائی کے بارے پوچھنا ہے اور فی الوقت آپکے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔