چیف جسٹس کاا یک ماہ مشرف وقاضی فائز کیسز کے لیے اہم

حسنات ملک  بدھ 20 نومبر 2019
جسٹس آصف سعیدکھوسہ پہلے جج تھے جنھوں نے آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف کے تحت سابق وزیراعظم نوازشریف کونااہل قراردیاتھا۔ فوٹو:فائل

جسٹس آصف سعیدکھوسہ پہلے جج تھے جنھوں نے آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف کے تحت سابق وزیراعظم نوازشریف کونااہل قراردیاتھا۔ فوٹو:فائل

 اسلام آباد:  چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کے عہدے کی باقی مدت سابق فوجی حکمران پرویزمشرف اورجسٹس قاضی عیسی کے مقدموں کیلیے اہم ہوگا۔

21دسمبر کو رٹائرہونے والے چیف جسٹس نے سیاسی ،عدالتی حکام کے خلاف فیصلے دیے ہیں۔ وہ این آراوکیس کے دوران 2010ء میں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کونااہل کرنے والے 7رکنی بینچ کاحصہ تھے۔

انھوں نے مذکورہ فیصلے میں اضافی نوٹ لکھا تھا۔وہ 2017ء میں پانامالیکس کامقدمہ سننے والے بنچ کابھی حصہ تھے،وہ پہلے جج تھے جنھوں نے آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف کے تحت سابق وزیراعظم نوازشریف کونااہل قراردیاتھا۔جسٹس کھوسہ نے ہائیکورٹ کے دوججوں کیخلاف بھی فیصلے دیئے تھے۔

انھوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن کی حیثیت سے اسلام آبادہائیکورٹ کے جج شوکت عزیزصدیقی کوہٹانے کی رائے دی تھی تاہم جسٹس کھوسہ نے پاناما کیس کی عدالتی کارروائی میں سازبازکے الزامات کی تفتیش نہیں کی تھی۔ان کے فیصلوں کے متعلق متضادآراء ہیں۔

وکلاء کے ایک گروپ کے مطابق کھوسہ کے دورمیں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ زیادہ مضبوط ہوئی ہے کیونکہ انھوں نے ملک میں جاری ’’ناہمواراحتساب‘‘ کانوٹس نہیں لیا۔دوسرے گروپ کے مطابق پرویزمشرف کیخلاف غداری کامقدمہ فعال کرنے میں ان کااہم کردارہے جوتاریخ میں یادرہے گا۔

پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقاراحمد ، جسٹس نذراکبراورجسٹس شاہدکریم پرمشتمل خصوصی عدالت اس مقدمے میں 28نومبرکومشرف کیخلاف فیصلہ سنائے گی تاہم جسٹس فائزعیسی کی قانونی ٹیم کے مطابق21دسمبرتک ان کے مقدمے کافیصلہ ہوناناممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔