سچ کہوں تو جگ روٹھے

فرحان تنیو  جمعـء 22 نومبر 2019
کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ معاشرتی اقدار کے ناپید ہوجانے سے متعلق کوئی سوال بھی کرسکے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ معاشرتی اقدار کے ناپید ہوجانے سے متعلق کوئی سوال بھی کرسکے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میرا معاشرہ جسے تیسری دنیا المعروف تھرڈ ورلڈ کے منافق معاشروں میں سے ایک کہا جائے تو کوئی فرق نہیں ہوگا، جہاں جگہ جگہ پروردگار کے گھر قائم ہوتے نظر آئیں گے، پر اللہ کے احکامات پر مبنی سماج کی پرچھائیاں دور دور تک بھی کہیں نظر نہیں آئیں گی۔ میرا معاشرہ جہاں عبادت الہی میں تو لوگوں کی کثیر تعداد مگن دکھائی دیتی ہے پر حقوق العباد کا حال یہ ہے کہ دوسروں کا مال ہڑپ کرنا، ناپ تول میں بے ایمانی کرنا، منافقت کا ہر معاملے میں بول بالا رکھنا روزانہ کی بنیاد پر کیے جانے والے اعمال ہیں، مگر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

میرے اردگرد کے لوگ خوش اخلاقی کو پس پشت ڈال کر جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو مارنے کو آتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں عوام کی اکثریت اسلام جیسے عظیم مذہب کے ماننے والوں کی ہے، مگر سوچ کا پیمانہ اس حد تک گر چکا ہے کہ کوئی بھی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ حیرت کے جزیروں میں غرق ہوجاتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ ایک ایسا ملک، جس کی بنیاد مذہب کے نام پر ڈالی گئی، وہاں مذہب کا نام ایک کل وقتی نفع بخش کاروبار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور فرقوں میں بٹے علما حضرات پوری سوسائٹی کو تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ مگر کسی میں اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ ان سب سے معاشرتی اقدار کے ناپید ہوجانے سے متعلق کوئی سوال بھی کرسکے۔

مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ہمارے ملک کے لوگ مغرب حتیٰ کہ عرب ممالک بھی بسلسلہ حصول روزگار جاتے ہیں تو وہاں کے قوانین کا مکمل طور پر احترام کرتے ہیں، یہاں تک کہ مزدور بھی دیار غیر میں قانون سے ڈرتے ہیں، عمل کرتے ہیں، مگر وہی لوگ جب واپس اپنے ملک آتے ہیں تو ان سے قانون کا احترام وغیرہ سب بھول جاتا ہے۔ تو کیا یہ کہنا بجا نہیں ہوگا کہ اپنے ملک سے زیادہ ہمارے لوگ پردیس سے محبت کرتے ہیں؟ اور ایسا کرنے سے کیا خاک اپنا ملک و معاشرہ ٹھیک ہوپائے گا۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ جن لوگوں نے تیس سال اقتدار کے مزے لوٹے، انہیں جب علاج کی نوبت پیش آئی تو اپنے ملک کے کسی اسپتال میں داخل ہونے کے بجائے لندن جانے کو ترجیح دی اور اوپر سے ظلم یہ کہ ایسے ہی لوگ عوامی لیڈر بھی بنے ہوئے ہیں۔ تو کیا ایسے ملک و معاشرے کی بدنصیبی پر نہ رویا جائے؟

ملک میں کہیں پر بھی کوئی منظم سسٹم نظر نہیں آتا۔ گھر سے باہر نکلو تو ایک سے بڑھ کر ایک پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کی بدترین پبلک ٹرانسپورٹ کا برسوں سے سامنا ہے شہریوں کو، مگر کوئی بھی اس کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کرتا۔ ٹریفک قوانین کی ہر سگنل، ہر روڈ، ہر شاہراہ پر بائیک رائیڈر سے لے کر مسافر بس کے ڈرائیور تک سب دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں، مگر قانون حرکت میں نہیں آتا، کیوں کہ سو رہا ہوتا ہے۔ میرے اس نام نہاد عظیم اسلامی معاشرے میں ایجوکیشن سے لے کر صحت تک تمام سہولیات کو غریب و مفلس عوام کی پہنچ سے دور رکھا گیا ہے اور وہ بھی مستقل بنیادوں پر۔ صحت و تعلیم کو اس حد تک بزنس زدہ کردیا گیا ہے کہ انسان حیران و پریشان ہوجاتا ہے کہ آخر کیسے اپنے بچوں کو کسی اچھے سے اسکول میں داخلہ دلوائے یا بیماری کی صورت میں کسی بہتر اسپتال میں علاج کے لیے لے جائے۔ مسیحا جلاد کا روپ دھارے ہوئے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت آئے دن مریضوں کی غلط آپریشنز کی وجہ سے ہونے والی اموات ہیں جو ہمیں بذریعہ پرنٹ و الیکٹرانک پتہ چلتی ہیں۔

خیر! کیا ہوا گر منافقت، جھوٹ، فریب، ریاکاری اور دھوکا دہی کا گراف حد سے تجاوز کرگیا ہے تو؟ ہر سال حج پر جانے والے پاکستانیوں کی تعداد تو دوسرے نمبر پر ہی ہے ناں!

کیا ہوا اگر بازار میں بسم اللہ، ماشاء اللہ، سبحان اللہ اور المدینہ یا المکہ کے نام سے بنائی گئی بڑی بڑی دکانوں پر بیٹھے باریش بزنس مین حضرات خالص چیز نہیں بیچ رہے تو پانچ وقت خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں سجدہ ریز تو ہوتے ہیں ناں، بڑی تعداد میں یا ہر ماہ درگاہ پر چادر تو چڑھا دیتے ہیں ناں۔

بہت سی ایسی باتیں نہ صرف میرے اور کئی دیگر ذہنوں میں بھی گردش کرتی رہتی ہیں جو کہ ادب، سائنس، فلسفہ سمیت مذہبی کتب کا بھی مطالعہ کرتے ہیں، کیوں کہ تمام معتبر مذہبی کتب میں ایک بہترین انسانی معاشرے کے قیام کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں انسانیت کی قدر ہو، جہاں مکمل عدل کا نظام رائج ہو، جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج نہ ہو، جہاں غریب اس بنیاد پر امیر کے آگے نہ جھکے کہ وہ اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کے بل پر اس کی عزت کسی بھی وقت تاراج کر سکتا ہے۔ برابری کی بنیاد پر قائم معاشرے کو ہی حقیقی انسانی معاشرہ کہا جاتا ہے جو کہ کم از کم ہمارے ملک میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔

ناپ تول میں کمی، جھوٹ، دھوکا دہی سے تو قرآن پاک میں بھی کئی ایک جگہوں پر سختی سے منع کیا گیا ہے۔ ملاوٹ سے روکا گیا ہے، مگر ان تمام چیزوں کا بغور جائزہ لیں اور دل کی سچائیوں سے سوچیں تو کیا ہمارا معاشرہ کہیں سے بھی اسلامی اقدار پر مبنی معاشرہ لگتا ہے؟ ایسی تمام باتیں یا ایسے سوالات کرنے سے بہت سے مذہبی دوست ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اور جانے کن القابات سے نواز بھی دیتے ہیں، مگر 72 برس گزر جانے کے بعد ہمیں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر بنایا گیا، اس میں ان تمام اقدار کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟ کوئی ہے جو ان تمام سوالات کے آج تسلی بخش جواب دے سکے؟

بہرحال اس حقیقت کا اعتراف ضرور کرنا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ نہ سچ کو برداشت کرنا جانتا ہے، نہ ہی ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا جانتا ہے۔

سچ کہوں تو جگ روٹھے، جھوٹ بولوں تو رام
کبیر بیچارہ کیا کرے دونوں کٹھن کام

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

فرحان تنیو

فرحان تنیو

بلاگر شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور مختلف اخبارات اور چینلز میں کام کرچکے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی /farhantunyostv اور ٹوئٹر ہینڈل @khantunio943 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔