دوسری کتاب

طارق محمود میاں  جمعرات 24 اکتوبر 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

جب میں فارم ہاؤس کے گیٹ پر پہنچا تو کچھ ضروری کاغذات کا ایک مہر بند پیکٹ میرے ہاتھ میں تھا۔ سکیورٹی گارڈز کے ایک مستعد دستے نے شتابی سے مجھے اپنے حصار میں لے لیا اور تقریباً گھسیٹتے ہوئے سکیورٹی کیبن تک لے گئے۔

جنرل صاحب جب سے پاکستان لوٹے تھے اور سرکار نے انھیں وافر فرصت مہیا کی تھی، وہ اسی وقت سے مجھ سے رابطے کی کوشش میں تھے۔ اس رابطے کی وجہ کچھ خفیہ قسم کی تھی۔ لیکن دوستو۔۔۔۔! میں ذرا صاف گو آدمی ہوں۔ ویسے بھی آپ سے کیا چھپانا۔ پاپی پیٹ کی خاطر انسان کیا کچھ نہیں کرتا۔ گھوسٹ رائٹر بننا ایک قبیح فعل سہی لیکن میری مالی مجبوری بھی ہے اور میں اسے رفاہ عامہ کا کام بھی سمجھتا ہوں۔ مثلاً عرصہ ہوا عصمت چغتائی پاکستان آئی تھیں تو کہنے لگیں دماغ کام نہیں کرتا۔ اس پر میں نے انھیں دو کہانیاں لکھ دیں۔ اسی طرح ’’فریڈرک فورسائتھ‘‘ نام کا ایک ناول نگار ہے۔ وہ افغانستان کے پس منظر میں ایک ناول لکھنا چاہتا تھا لیکن یہاں کے بارے میں اسے ککھ پتہ نہیں تھا۔ اس پر ہم دونوں نے ایک دوسرے سے ’’تعاون‘‘ کیا۔ یوں اس کے نام سے چھپا ہوا ناول ’’دی افغان‘‘ دراصل میرا ہی لکھا ہوا ہے۔ پھر گزشتہ برس کینیڈا کی ایک بوڑھی خاتون ’’ایلس منرو‘‘ کو کچھ کہانیاں لکھ کر دیں جو ’’ڈیرلائف‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شایع ہوئیں۔ میں نے سنا ہے کہ اسے اس دفعہ ادب کا کوئی انعام وغیرہ بھی ملا ہے۔ غالباً نوبل پرائز اس کا نام ہے۔

جنرل صاحب کا خیال تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی ایک اور کتاب منظر عام پر آئے۔ اس سلسلے میں انھوں نے رابطہ کیا تو میں نے مصلحتاً کچھ نخرے دکھائے اور کہا ’’ارے جناب! میں تو ایک بے کار سا آدمی ہوں آپ کرسٹینا لیمب سے بات کر لیں۔‘‘

جواب میں بولے ’’ارے نہیں بھئی! تم فائنل ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو تم جھوٹ بہت اچھا بول لیتے ہو اور دوسرے تمہاری زبان فلاوری بھی ہوتی ہے اور کچی پکی بھی۔ بالکل یوں لگے گا جیسے میں نے خود لکھا ہے۔‘‘

’’اور جنہوں نے پہلی کتاب لکھی تھی؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’اونہہ۔۔۔۔ان کی اور ان کے والد صاحب کی لکھی ہوئی کتاب فٹ پاتھ پر بہت جلد آ جاتی ہے۔ وہاں بھی نہیں بکتی۔ اور ہاں میں یہاں سے بہت جلد جانے والا ہوں۔ یہ کام اس سے پہلے ہو جانا چاہیے۔‘‘

میں نے پوچھا ’’معاوضہ کیا ملے گا؟‘‘

بولے ’’وہ کیوں؟‘‘

’’وہ اس لیے کہ میں ایک غریب آدمی ہوں۔۔۔۔ویسے کوئی پبلشر اس کے آپ کو دس ملین تو دے ہی دے گا۔۔۔۔دس ملین ڈالر‘‘۔ میں نے کہا۔

’’ہاں تو؟‘‘

’’بس اس کا دس فیصد میرا۔۔۔ایک ملین ڈالر کیش۔‘‘

اس پر وہ کچھ بڑبڑائے۔ میرا خیال ہے میری کچھ بے عزتی وغیرہ کی۔ پھر ذرا توقف سے بولے ’’ہاں ٹھیک ہے۔۔۔۔ڈن‘‘۔

یوں یہ سودا طے ہو گیا اور میں تین ماہ کی جاں گسل دماغی ورزش کے بعد آج فارم ہاؤس کے باہر کھڑا تھا۔ مہر بند پیکٹ میرے ہاتھ میں تھا۔

سکیورٹی کیبن میں انھوں نے میری جی بھر کے تلاشی لی اور بار بار انٹرکام پر اندر بات کرتے رہے۔ بات کرتے ہی وہ مجھ سے پیکٹ چھیننے کی کوشش کرتے تھے لیکن میں نے انھیں کامیاب نہ ہونے دیا۔ بالآخر پیکٹ تو بچ گیا لیکن انھوں نے میرے جوتے، جرابیں، کوٹ، ٹائی، کف لنکس، موبائل، گھڑی، چشمہ، بٹوہ، پین اور پتلون کی بیلٹ، سب کچھ چھین لیا۔ پھر طویل راہداریوں سے گزار کے اندر لے گئے۔ راستے میں جابجا اسکینر لگے تھے۔ تب ایک استقبالیہ میں میری پھر سے تلاشی لی گئی۔ یہاں ان بدبختوں نے میری قمیض، بنیان اور پتلون بھی اتار کے رکھ لی۔ اب میں صرف جانگیے میں ملبوس تھا۔ جنرل صاحب کے کمرے کے دروازے پر بھی دو دیوہیکل سیکیورٹی افسر کھڑے تھے۔ انھوں پہلے میرے ’’لباس‘‘ پر نظر ڈالی اور پھر ایک دوسرے کو دیکھ کے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بولے ’’سوری سر! ہم رسک نہیں لے سکتے۔ آپ کو یہ بھی اتارنا ہو گا‘‘۔ اس سے پہلے کہ میں بھاگ اٹھتا، انھوں نے اپنا کام کر دکھایا۔ اس پر میں جلدی سے پاس پڑے ہوئے ایک چھوٹے سے خالی کارٹن میں کود گیا اور اس سے اپنی عزت چھپا لی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ام الخبائث کی بوتلوں کا ڈبہ تھا۔ یوں جب میں اگلے کمرے میں جنرل صاحب کے سامنے حاضر ہوا تو میں نے ایک ہاتھ میں پیکٹ پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے کارٹن کو تھاما ہوا تھا۔ یوں جیسے کوئی ڈھیلی نیکر کو بچانے کی کوشش کر رہا ہو۔

جنرل صاحب سے ملاقات شروع ہوئی تو میں بس اتنا ہی بیٹھ سکا جتنی اس کارٹن نے اجازت دی کہ یہی میرا واحد لباس تھا۔ ہمارے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ اتنے اعلیٰ معیار کی تھی کہ ہمارے ملک کے سویلینز اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم دیر تک عوام کے ناشکرے پن اور احسان فراموشی کا ذکر کرتے رہے۔ کتاب کے بارے میں جنرل صاحب نے دریافت کیا ’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کتاب میں سُر پیدا کیا جا سکے۔ جدید دور ہے کسی چیپٹر میں طبلے کی آواز آئے اور کسی میں سارنگی کی؟‘‘

میں نے کہا ’’جانے دیں جنرل صاحب! آپ تو پچاس برس پرانی فوٹو البموں والی بات کر رہے ہیں ۔ تھوڑی دیر میں کہیں گے کہ کتاب سر پہ گلاس رکھ کے ڈانس بھی کرے۔‘‘

’’لیکن تم نے تھرل پیدا کرنے کے لیے پرائم منسٹر کی مجھ سے خفیہ ملاقات کی کہانی تو لکھی ہے ناں؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔

میں نے کہا ’’ہاں لکھی ہے۔۔۔۔ بلکہ میں نے لال مسجد سے آپ کے فارم ہاؤس تک کھودی جانے والی ایک خفیہ سرنگ کا ذکر بھی کیا ہے کہ کس طرح آپ کو اغوا کرنے کا ایک منصوبہ پکڑا گیا ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے اپنی روحانی طاقت سے ایک کُبڑے کی کمر پہ ہاتھ پھیر کے اس کا کُب سیدھا کر دیا تھا۔‘‘

جنرل صاحب بہت خوش ہوئے اور کتاب کے پیکٹ پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگے۔ پھر میں نے غور کیا تو وہ ہاتھ نہیں بلکہ کینڈی کی شکل کا ایک میٹل ڈیٹیکٹر تھا جسے وہ پھیر رہے تھے۔ میں نے کہا ’’میرے پیسے؟‘‘

وہ مسکرائے اور ایک بریف کیس کی طرف اشارہ کر کے بولے ’’گن لو‘‘۔ میں نے اسے کھول کے دیکھا تو وہ ڈالروں سے بھرا تھا۔

اتنے میں اچانک ایک چوبدار نے آ کے اطلاع دی کہ حضور والا وکیل شرف باریابی چاہتا ہے۔ اس پر جنرل صاحب تھوڑے سے سراسیمہ ہوئے۔ آہ بھر کے بولے ’’یہ شخص بہت بولتا ہے۔ آج کی شام برباد ہوئی۔ اب ہمیں پو پھٹے تک جاگنا ہو گا۔‘‘

میں نے کہا ’’سر! آپ کو اپنی فکر پڑی ہے۔ میری حالت نہیں دیکھ رہے۔ ایک ایک رونگٹا کھڑا ہے۔ وہ شخص آ گیا تو میری عزت، جو پہلے ہی منی سی ہے، بدنام ہو جائے گی۔‘‘

جنرل نے اپنے سینے پر ہاتھ مارا ’’میرے ہوتے ہوئے تمہاری عزت کو کوئی خطرہ نہیں‘‘۔

میں نے کہا ’’میرے کپڑے تو آپ بچا نہیں سکے۔ عزت خاک بچائیں گے۔ بس مجھے جانے دیں۔ میں وکیل کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘

انھوں نے کچھ دیر کو سوچا پھر ہونٹوں پر انگلی رکھ کے بولے ’’ہش۔۔۔۔خاموشی سے اٹھو اور میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔‘‘

میں نے بریف کیس اور کارٹن سنبھالا اور ان کے پیچھے چل دیا۔ باہر گھپ اندھیرا تھا۔ ہم لوگ تھوڑی ہی دیر میں پودوں اور جھاڑیوں میں گزرتے ہوئے عقبی فصیل تک پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کے جنرل صاحب نے دیوار پر ہاتھ ٹکا کے کمر کی سیڑھی بنائی اور کہا کہ کود جاؤ۔ میں کود گیا لیکن ام الخبائث کا خالی ڈبہ نیچے ہی رہ گیا۔ میں نے دیوار پر سے آواز دی ’’چلیے اب میرا بریف کیس پکڑا دیجیے‘‘

جواب میں انھوں نے مٹھی کو فضا میں بلند کر کے کچھ عجیب سا اشارہ کیا۔ یوں جیسے بالر کوئی وکٹ حاصل کرنے کے بعد کرتا ہے۔ پھر انھوں نے کمر پر سے میرے پیروں کی دھول جھاڑی اور بریف کیس اٹھا کے تیزی سے اندر چلے گئے۔

میں۔۔۔۔ایک بلڈی سویلین۔۔۔۔اس وقت فارم ہاؤس کی 14 فٹ اونچی دیوار پر بیٹھا ہوں۔ اس پر لگے ہوئے شیشے کے ٹکڑے میرے بدن میں کھب رہے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں۔۔۔۔ہاتھی جب زندگی سے ریٹائر ہوتا ہے تو وہ سوا لاکھ کا ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔جرنیل کتنے کا ہو جاتا ہو گا؟1

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔