3 کروڑ غلام

شیخ جابر  جمعرات 24 اکتوبر 2013
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

’’غلامی دنیا کے ہر ملک میں پائی جاتی ہے‘‘ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں آج بھی 3 کروڑ سے زائد افراد غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تخمینہ حالیہ دنوں میں ’’واک فری فائونڈیشن‘‘ کی اہم رپورٹ ’’گلوبل سلیوری انڈیکس 2013ء‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔ انجمن کے موجودہ سی ای او نے یہ کہہ کر بہت سوں کو چونکا دیا ہے کہ ’’اگرچہ غلامی غیر قانونی ہے لیکن افسوس کہ یہ قریباً ہر ملک میں پائی جاتی ہے، آپ کا خیال ہے کہ اگر ایک معیار پر مسئلے کی نشاندہی کر دی جائے اور ہر ملک کی سطح پر اسے اجاگر کیا جائے تو امید ہے پالیسی ساز اس اہم مسئلے کی جانب متوجہ ہوں گے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس اور تخمینے بھی کچھ اسی قسم کے ہیں، جن کے مطابق تین کروڑ تک افراد بطور غلام کام کرنے پر مجبور ہیں۔

’’واک فری فائونڈیشن‘‘ یا (ڈبلیو ایف ایف) گزشتہ برس مئی میں تشکیل دی گئی انجمن کا مرکزی دفتر آسٹریلیا کے مغربی ساحلی شہر پرتھ میں ہے۔ انڈریو فاریسٹ اور ان کی بیگم نکولا فاریسٹ نے اس انجمن کی بنیاد رکھی، نک گرونو موجودہ سی ای او ہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ ’’متعدد حکومتیں اس میں دلچسپی رکھتی ہیں جو ہم بیان کرنا چاہتے ہیں‘‘ جدید غلامی ایک چھپا ہوا، خفیہ جرم ہے، ہم اسے ظاہر کرنا چاہتے ہیں تا کہ حکومتیں اپنے علاقوں کو اس سے نجات دلوا سکیں۔ انجمن کو کئی اہم شخصیات کا تعاون حاصل ہے، مثال کے طور پر سابقہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن، برطانیہ کے سابقہ وزیراعظم ٹونی بلیئر، آسٹریلیا کے موجودہ وزیراعظم ٹونی ایبٹ، بل گیٹس، رچرڈ برانسن اور مو ابراہیم وغیرہ، ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ اگرچہ انڈیکس مکمل نہیں لیکن یہ ایک آغاز فراہم کرتاہے۔ گرونو اس بات کا اعتراف کرتے ہیں، آپ کا کہناہے کہ ’’ یہ بہت مشکل ہے (کہ درست اعداد وشمار حاصل ہوں) کیونکہ یہ ایک خفیہ جرم ہے، یہ قریباً ایسا ہی ہے جیسے گھریلو تشدد کے یا منشیات کی ترسیل کے اعداد وشمار جمع کرنا۔‘‘

موریطانیا کے بارے میں انڈیکس بتاتا ہے کہ وہاں بہت ہی برا حال ہے، وہاں نہ صرف یہ کہ غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی ہے بلکہ غلام کرائے پر اور تحفتاً بھی دیے اور لیے جاتے ہیں۔ موریطانیا میں آنے والی نسلیں تک غلام پیدا ہو رہی ہیں۔ یہ ایک گمبھیر صورت حال ہے۔ ڈبلیو ایف ایف کے جاری کردہ انڈیکس کے مطابق تعداد کے لحاظ سے بھارت کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ وہاں ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب غلام نہایت کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ چین میں غلاموں کی تعداد قریباً 30 لاکھ اور پاکستان میں قریباً21 لاکھ۔ رپورٹ کے مطابق 72 فیصد غلام ایشیا میں ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں جدید غلاموں کی تعداد کا تخمینہ 3 کروڑ کے لگ بھگ لگایا گیا ہے۔ اس میں سے تقریباً ’’نصف یعنی ایک کروڑ چالیس لاکھ کے لگ بھگ غلام صرف اور صرف بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ بھارت ایک جانب تو ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے، خلا میں قدم جمانے کی فکر میں ہے تو دوسری جانب وہ اپنے میزائل پروگرام کے ذریعے دنیا کے کونے کونے کو ہدف بنا لینا چاہتا ہے۔

وہ اسلحے کا بہت بڑا خریدار ہے۔ اس نے ایک بہت بڑی فوج رکھی ہوئی ہے۔ بھارت کے دھواں اگلتے کارخانے زمین اور زمین کے باسیوں کو بیمار کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کو ایک معاشی قوت بنانے میں پورا زور صرف کیے دے رہے ہیں لیکن اسے کیا کیجیے کہ غربت، بھوک، افلاس، قحط، بیماری، خودکشی اور مذہبی منافرت کے عفریتوں نے بھارت کو گھیر رکھا ہے۔ موجودہ گلوبل سلیوری انڈیکس کے بعد اس فہرست میں غلامی کا اضافہ بھی کرلیجیے، اب ذرا شعور کیجیے کہ اگر بھارت کو علاقے کا چوہدری تسلیم بھی کر لیا جائے اور یہ بھی مان لیا جائے کہ وہ بہت تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے تو ہمارا سادہ سا سوال ہے کہ ایسی ترقی کس کام کی جب آپ کے ملک میں کروڑوں افراد کو رات کو بھوکا سونا پڑتا ہو۔ ایسے راکٹ اور میزائل کس کام کے جن کی موجودگی میں آپ کے ملک میں ہر برس ہزار ہا افراد مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہوں۔ ایسے جوہری بم کس کام کے جن کی موجودگی میں آپ کے ایک کروڑ چالیس لاکھ شہری غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں؟ کیا اب بھی بھارت کے لیے اور دنیا کے لیے وقت نہیں آیا کہ وہ ترقی کے معنی اور منازل کی تشریح نو کریں؟

واک فری فائونڈیشن نے جدید غلامی کے حوالے سے بڑا وقیع کام کیا ہے۔ انھوں نے بڑی ہی محنت اور عرق ریزی سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی ایک اپنی اہمیت ہے۔ نیز ہیلری کلنٹن کے الفاظ میں یہ ایک اچھا آغاز ہو سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس آغاز سے آگے بڑھ کر بھی بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے۔ مثال کے طور پر غلامی کے اسباب کیا ہیں؟ کیوں روس، چین، امریکا، فرانس اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی غلامی ختم نہیں ہو سکی؟ جدید غلامی کو جدید معاشی اصطلاحات میں ’’ملٹی بلین ڈالر انڈسٹری‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس انڈسٹری سے ہر برس 35 کھرب امریکی ڈالر پیدا ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کتنی دیگر انڈسٹریز ہیں جو اتنا سرمایہ پیدا کرتی ہوں؟ سرمائے کی خدمت میں لگے ایسے کمائو پوت کو کیا سرمائے کے تحت رہتے ہوئے ختم کیا جا سکے گا؟ سرمایہ داریت میں ہر وہ عمل جو سرمائے کی بڑھوتری اور فروغ کا سبب بنے جائز اور درست ہے۔ کس اصول کے تحت سرمائے پر قدغنیں لگائی جائیںگی؟

پاکستان کے بارے میں انڈیکس ہمیں اطلاع دیتا ہے کہ یہاں 21 لاکھ کے قریب افراد غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا سب سے بڑا عمومی سبب زمیندارانہ نظام کو قرار دیا جاتا ہے۔ غلاموں کی اکثریت ان خاندانوں پر مشتمل ہے جو زمینداروں کی قید میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ملک میں آپ کی سرمایہ دارانہ جمہوریت چل ہی ان زمینداروں پر رہی ہے تو ان کے خلاف قانون کون بنائے گا؟ جب قانون ساز ہی زمیندار، جاگیردار اور وڈیرا ہے تو زمینداروں کے خلاف خاص کر غیر حاضر زمینداری کے خلاف قانون سازی کون کرے گا؟ جہاں تک رہی زیر بحث ’’گلوبل سلیوری انڈیکس‘‘ کی بات تو جناب! اصلاً یہ کارپوریٹ فارمنگ کا شاخسانہ معلوم دیتاہے جس پر تفصیلی اظہار خیال آیندہ سہی ابھی تو ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس انڈیکس اور ڈبلیو ایف ایف کو غلامی کے اسباب پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مسئلے کی جڑ تک پہنچے بغیر مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے۔

واک فری فائونڈیشن نے غلامی کے حوالے سے صرف چند اقسام اور ایک محدود تعریف تک خود کو مقید کر لیاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ غلامی کی گمبھیر ترین اقسام ابھی ڈبلیو ایف ایف کے حیطے میں ہی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر فضا میں آزاد اڑتے ہوئے کبوتر اپنی مرضی سے (بہ ظاہر) اڑان بھرتے ہیں اور اڑتے رہتے ہیں، اڑتے رہتے ہیں، تھک کر چور ہونے کے باوجود مسلسل اڑتے رہیںگے۔ ان کے مالک ان پر بولیاں لگاتے ہیں، سٹے کھیلتے ہیں، پیسے بناتے ہیں، دیر تک اڑان بھر کر کبوتر اپنی مرضی سے، آزاد مرضی سے اپنے کابک میں آ کر قید ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کبوتر آزاد ہیں یا غلام؟ غلامی کی تعریف کیا ہے؟ ایک فرد تشدد کے ذریعے جسمانی مشقت پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور اسے محنت کی اجرت نہیں دی جاتی تو وہ غلام قرار پاتا ہے اگر اسے اجرت کے نام پر کچھ رقم یعنی کچھ کاغذ کے پرزے یا اس کے اکائونٹ میں چند ہندسے منتقل کر دیے جائیں تو وہ غلام نہیں کہلاتا، کیوں؟ روایتی معاشروں میں صرف ایک غلامی کو معیوب سمجھا جاتا تھا اور وہ تھی نفس کی غلامی۔

آخری سوال آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے سود در سود کے چکر میں ملکوں اور قوموں کو غلام بنا لیا ہے۔ کیا وہ غلامی نہیں؟ ہر پاکستانی جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا 75 ہزار روپے کا مقروض بنا دیا گیا ہے۔ کماتے ہم ہیں اور سود کے نام پر ہماری حق حلال اور خون پسینے کی کمائی وہ لے اڑتے ہیں۔ کیا یہ غلامی نہیں ہے؟ پوری پوری قوم مل کر سود اتار رہی ہے، قرض ادا کر رہی ہے۔۔۔۔ کیوں؟ یہ کیسی غلامی ہے یہ کیا جبر ہے، ہم نے تو قرض نہیں لیا تھا پھر ہم سے قرض اور سود در سود کیوں وصول کیا جا رہا ہے؟ یہ کیا اندھیر ہے؟ ہمارے بجٹ کا 37 فیصد تو سیدھا سود میں جا رہا ہے کیا ڈبلیو ایف ایف مجھے مطمئن کر سکے گی کہ یہ غلامی نہیں میری آزادی ہے؟

ہم اپنے دور کے فرہاد بھی ہوئے تو کیا

اگر نہ حیلہ ٔ پرویز کی ادا سمجھیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔