ایف 35 اور دفاعی نظام

ظہیر اختر بیدری  بدھ 20 نومبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

امریکا کی داداگیری کی سیاست امریکی حکمرانوں کا ورثہ ہے اور جب سے ٹرمپ امریکا کی صدارت پر فائز ہوئے ہیں یہ ورثہ کچھ زیادہ جارحانہ ہو گیا ہے آزاد اور خودمختار ملکوں کو اپنی مرضی پر چلانا ٹرمپ کی سیاست کی پہچان بن گیا ہے ترکی ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے ٹرمپ ترکی پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ روس سے دور رہیں۔ ٹرمپ کے دباؤ کے جواب میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ امریکی دباؤ کے باعث ہم روس سے تعلقات خراب نہیں کریں گے۔

ترکی کو امریکی صدر نے یہ ہدایت دی ہے کہ وہ روسی دفاعی نظام نہ خریدیں۔ اردوان نے اس تنبیہ کے جواب میں کہا ہے کہ روسی دفاعی نظام نہ خریدنے کی امریکی تجویز غلط ہے۔ امریکا سے ترکی ایف 35 جنگی طیارے خرید رہا تھا ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ترکی روس سے دفاعی نظام خریدے گا تو اسے ایف 35 جنگی طیارے فروخت نہیں کیے جائیں گے۔

اس دھمکی کے جواب میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ واشنگٹن ایف 35 طیارے دینا چاہتا ہے تو دے، نہیں دینا چاہتا تو نہ دے۔ ہم ایف 35 لینے کی خاطر روس سے تعلقات خراب نہیں کریں گے۔ ترکی کے صدر آج کل امریکا کے دورے پر ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کے بعد اردوان نے کہا ہے کہ امریکا کا یہ کہنا غلط ہے کہ ترکی روس سے دفاعی نظام نہ خریدے۔ امریکا کی یہ تجویز ترکی کی خودمختاری کے خلاف ہے امریکا اگر ایف 35 دینا چاہتا ہے تو دے، نہ دینا چاہے تو نہ دے۔

دونوں سربراہوں کی ملاقات کا مقصد نیٹو اتحادیوں کے مابین بڑھتی ہوئی نااتفاقیوں کو روکنا تھا۔ خاص طور پر ترکی کی شام کے بارے میں پالیسی اور روس سے دفاعی نظام خریدنا اس ملاقات کا مرکزی موضوع تھا اس موقع پر امریکی صدر نے اردوان کی ناراضگی دور کرنے کے لیے کہا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان میرے دیرینہ ساتھی ہیں ہم ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھتے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ اپنے ملکی مفادات کی برتری کی خاطر دوست ملکوں کے مفادات کو قربان کرنے میں ذرا تکلف نہیں کرتے۔ امریکی صدور کی یہ سائیکی رہی ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کی خاطر دوست ملکوں کے قومی مفادات کی بلی دینے میں ذرا نہیں ہچکچاتے۔ صدر ٹرمپ کا یہ موقف کہ اگر ترکی روس سے دفاعی نظام خریدے گا تو ہم ترکی کو جنگی طیارے ایف 35 نہیں دیں گے گھٹیا قسم کی بلیک میلنگ کے علاوہ اور کیا ہے۔ ترکی ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے اسے کسی بھی ملک سے اپنی دفاعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے دفاعی نظام خریدنے کی آزادی حاصل ہے۔

امریکا اور روس کے اس حوالے سے اختلاف کے قطع نظر اس شرمناک حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ دنیا کے ملکوں کی سربراہی جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے وہ دنیا کو کس طرف لے جا رہے ہیں۔ دنیا میں ہر سال لاکھوں انسان بھوک سے مر رہے ہیں دنیا میں لاکھوں انسان ہر سال علاج سے محرومی کی وجہ جان سے جا رہے ہیں۔ دنیا میں ہر سال لاکھوں بچے دودھ اور مناسب غذا سے محرومی کی وجہ دم توڑ رہے ہیں۔ دنیا میں ہر سال لاکھوں خواتین حمل کے دوران ناقص غذا کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہی ہیں، دنیا میں ہر سال لاکھوں خواتین زچگی کے دوران مناسب طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو رہی ہیں۔

دنیا میں لاکھوں انسان بے روزگاری کی نظر ہو رہے ہیں۔ دنیا میں لاکھوں انسان جنگوں اور دہشت گردی میں جان سے جا رہے ہیں۔ ایسی تباہ کن اور المناک دنیا میں ایف 35 اور دفاعی نظام کی خریداری پر اختلاف انسان کے کس رویے کی ترجمانی کرتا ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا خطاب دیا گیا ہے۔ کیا انسان واقعی اشرف المخلوقات ہے؟ اس سوال کا جواب فلسطین میں اب تک مارے جانے والے لاکھوں فلسطینی عوام ہیں، اس کا جواب کشمیر میں مارے جانے والے لاکھوں کشمیری اور کشمیر میں نافذ چار ماہ سے کرفیو ہے، اس کا جواب ایران اور امریکا کے درمیان تعلقات کی نوعیت ہے۔

المیہ یہ ہے کہ دنیا کو جہنم میں بدلنے والے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کے منتخب نمایندے ہیں انھیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ کیا عوام نے حکمرانوں کو جنگوں کا مینڈیٹ دیا ہے۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ کیا عوام نے قومی مفادات کے نام پر اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کا مینڈیٹ دیا ہے۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ عوام بھوک سے مر رہے ہیں اور حکمران عوام کے اربوں روپوں کو ہتھیاروں کی خریداری میں لٹا رہے ہیں۔ لاکھوں بھوکوں لاکھوں بے روزگاروں کو کیا ایف 35 دودھ دے گا؟ لاکھوں بے روزگاروں کو کیا روس کا دفاعی نظام روزگار دلا دے گا؟ دنیا میں روزگار سے محروم اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان چپراسیوں کی نوکری کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں کیا یہ انسانیت کی توہین نہیں ہے؟

اصل مسئلہ فراڈ مغربی جمہوریت ہے جس کا نام لے کر انسان انسان کو بھوکا مار رہا ہے۔ روزگار سے محروم کر رہا ہے۔ جس کا نام لے کر اشرافیہ دولت کے انبار جمع کر رہی ہے۔ دنیا کے چند دولت مندوں کے ہاتھوں میں دنیا کی 80 فیصد دولت جمع ہے اور 7 ارب انسان پیٹ بھر روٹی سے محروم ہیں۔ امریکا ترکی کو ایف 35 دے یا نہ دے، ترکی روس سے دفاعی نظام خریدے یا نہ خریدے۔ کیا ان کارناموں سے دنیا کے 90 فیصد عوام بھوک بیماری بے روزگاری سے بچ سکتے ہیں؟ نہیں، نہیں، نہیں۔ اس کے لیے اس فراڈ سرمایہ دارانہ نظام بدلنا ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔