بھارت میں کشمیر سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹ پر خاتون پروفیسر اور شوہر پر مقدمہ

ویب ڈیسک  جمعرات 21 نومبر 2019
علی گڑھ یونی ورسٹی کی پروفیسر ہما پروین نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا تھا فوٹو:فائل

علی گڑھ یونی ورسٹی کی پروفیسر ہما پروین نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا تھا فوٹو:فائل

نئی دہلی: بھارتی پولیس نے علی گڑھ یونی ورسٹی کی خاتون پروفیسر اور ان کے شوہر کے خلاف سوشل میڈیا پر مقبوضہ کشمیر سے متعلق پوسٹ کرنے پر مقدمہ درج کرلیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق علی گڑھ یونی ورسٹی کی پروفیسر ہما پروین نے سوشل میڈیا پر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر نہایت معمولی سے پوسٹ کرتے ہوئے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا تھا، لیکن نام نہاد سیکولر و جمہوری ملک میں پولیس اور ہندو انتہا پسندوں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔

علی گڑھ یونی ورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کی پی ایچ ڈی پروفیسر ہما پروین نے لکھا تھا کہ ’سچ میں رابطہ ٹوٹ جانا کتنا خطرناک اور دکھ بھرا ہوتا ہے چاہے چندریان ہو یا کشمیر‘۔

بھارت نے گزشتہ دنوں چندریان کے نام سے چاند پر خلائی مشن بھیجا تھا جس کے چاند پر اترنے سے چند لمحوں قبل رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔ ہما پروین نے اسی کا موازنہ کشمیر سے کیا۔

34 سالہ ہما پروین کے شوہر نعیم شوکت کشمیری صحافی ہیں جو 5 اگست کو بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے نفاذ کے وقت کشمیر میں تھے اور دونوں میاں بیوی کا ایک دوسرے سے رابطہ کافی عرصے تک منقطع رہا۔

ہندو مہاسبھا کے رہنما اشوک پانڈے نے پروفیسر کے خلاف فوج کے مورال اور ملک کی سلامتی کو نقصان کے الزام میں مقدمہ درج کرادیا۔

دوسری جانب ہما پروین نے اپنے موقف میں کہا کہ میں نے سوشل میڈیا پر پہلے سے موجود پوسٹ شیئر کرائی تھیں جن میں مشہور شاعر راحت اندوری اور گاندھی کی جمہوریت اور اختلاف رائے کے احترام کے اقوال شامل ہیں۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کردی ہیں۔

علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی حکومت کا لاک ڈاؤن 109 ویں روز میں داخل ہوگیا ہے۔ کشمیر میں سیکڑوں گرفتاریوں کا اعتراف کرتے ہوئے بھارتی وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے لوک سبھا میں تحریری جواب میں کہا کہ تین ماہ کے دوران مقبوضہ کشمیرمیں 5 ہزار 161 کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔

مقبوضہ کشمیرمیں جاری بھارتی مظالم کی دل دہلا دینےوالی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور کشمیری شہریوں کے قتل عام سے1لاکھ 7ہزار780بچے یتیم ہوئے، 2016سے2018کےدرمیان پیلٹ گنوں سےایک ہزار253افراد نابینا ہوگئے۔

وادی میں بڑی تعداد میں شہادتوں کی وجہ سے انتظامیہ نےڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنابندکردیے ہیں، علاقے میں میڈیکل سپلائی کافقدان ہے اور اہم سڑکوں پررکاوٹوں کی وجہ سےاسپتالوں تک لوگوں کاپہنچنامشکل ہوگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔