آدھا دماغ بھی پورے دماغ جتنا کام کرتا ہے، تحقیق

ویب ڈیسک  جمعرات 21 نومبر 2019
دماغ آدھا رہ جاتا ہے تو نیورونز آپس میں زیادہ مضبوطی سے اور زیادہ تعداد میں رابطے بنا کر اس کمی کا ازالہ کردیتے ہیں (فوٹو: سیل رپورٹ)

دماغ آدھا رہ جاتا ہے تو نیورونز آپس میں زیادہ مضبوطی سے اور زیادہ تعداد میں رابطے بنا کر اس کمی کا ازالہ کردیتے ہیں (فوٹو: سیل رپورٹ)

پیساڈینا، کیلیفورنیا: یہ کوئی مذاق نہیں، لیکن اگر کسی شخص کا دماغ واقعی میں آدھا رہ جائے تو کیا ہوگا؟ عام طور پر اس کا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ اوّل تو ایسا کوئی بھی شخص زندہ نہیں بچے گا، اور اگر زندہ بچ بھی گیا تو وہ اپنی ساری زندگی کسی ذہنی معذور کی حیثیت سے گزار دے گا اور مرتے دم تک دوسروں کا محتاج ہی رہے گا۔

لیکن میڈیکل ریسرچ جرنل ’’سیل رپورٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی رپورٹ اس خیال کو مکمل طور پر غلط ثابت کررہی ہے۔ یہ مطالعہ کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں نیوروسائنس کی پوسٹ ڈاکٹرل اسکالر، ڈارِٹ کلیمان کی سربراہی میں ایسے چھ افراد پر کیا گیا جن کے بچپن ہی میں آپریشن کرکے آدھا دماغ نکال دیا گیا تھا؛ اور آج ان کی عمریں 21 سے 39 سال کے درمیان ہیں۔

دماغ کی یہ سرجری جسے ’’ہیمسفیریکٹومی‘‘ کہا جاتا ہے، عام طور پر چھوٹی عمر میں ایسے بچوں پر کی جاتی ہے جن میں مرگی کا مرض خطرناک سطح پر پہنچ چکا ہو اور جسے کسی بھی دوسرے طریقے سے کنٹرول کرنا ممکن نہ رہا ہو۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اگر یہ آپریشن چھوٹی عمر میں کروا لیا جائے تو کامیابی کے امکانات بھی روشن ہوتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں ہیمسفیریکٹومی کوئی انوکھا یا اچھوتا آپریشن نہیں رہا بلکہ پچھلے پچاس سال سے کیا جارہا ہے اور اس میں کامیابی کی شرح بھی خاصی زیادہ ہے۔ البتہ، یہ حیران کن بات مشاہدے میں آئی ہے کہ آدھے دماغ سے محروم ہوجانے والے لوگ بھی دوسرے صحت مند افراد کی طرح زندگی گزار رہے تھے۔ اگرچہ انہیں کچھ مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا لیکن مجموعی طور پر وہ تقریباً نارمل رہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ڈاکٹر کلیمان اور ان کے ساتھیوں نے اپنی تازہ تحقیق کے ذریعے اس سوال کا ایک ممکنہ جواب دے دیا ہے: جب دماغ آدھا رہ جاتا ہے تو دماغ میں موجود اعصابی خلیات (نیورونز) ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ مضبوطی سے، اور زیادہ تعداد میں رابطے بنالیتے ہیں، جن کی بدولت آدھے دماغ کی کارکردگی بھی پورے دماغ جتنی ہوجاتی ہے۔ اس طرح آدھے دماغ والے افراد کی زندگی بھی پورے دماغ والے لوگوں کی طرح نارمل انداز میں گزرنے لگتی ہے۔

’’ہم نے آدھے دماغ سے محروم ہوجانے والے جن افراد کا مطالعہ کیا، ان کے دماغوں کی کارکردگی حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ تھی،‘‘ ڈاکٹر کلیمان نے کہا، ’’ان میں زبان سے متعلق صلاحیتیں بالکل محفوظ تھیں۔ جب میں نے انہیں (ایم آر آئی) اسکینر میں لٹایا تو وہ اسی طرح آرام سے بات چیت کررہے تھے جیسے دوسرے صحت مند لوگ اس مرحلے پر کرتے ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔