نسیم شاہ کا لوئر دیر سے برسبین تک کا سفر

محمد یوسف انجم  جمعـء 22 نومبر 2019
لوئر دیر سے آنے والے نسیم شاہ پاکستان ٹیسٹ ٹیم کی سبز کیپ پہننے میں سرخرو ہوچکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

لوئر دیر سے آنے والے نسیم شاہ پاکستان ٹیسٹ ٹیم کی سبز کیپ پہننے میں سرخرو ہوچکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ایک وقت تھا جب پاکستانی کرکٹ ٹیم میں لاہور اور کراچی کے زیادہ تر لڑکے کھیلا کرتے تھے لیکن اب وہ دور نہیں رہا، اب کرکٹ ٹیلنٹ صوبہ خیبرپختونخوا، فاٹا اور دوسرے علاقوں سے سامنے آرہا ہے۔ برسبین ٹیسٹ میں قومی ٹیم کی نمائندگی کا اعزاز پانے والے نسیم شاہ اس کی ایک اور مثال ہیں، جن کا تعلق لوئر دیر سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی کرکٹ اپنے علاقے میں کھیلی، تاہم آگے بڑھنے کا پلیٹ فارم نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ملحقہ عبدالقادر کرکٹ اکیڈمی کے روح رواں اور مرحوم عبدالقادر کے بیٹے سلمان قادر نے دیا۔ اور یوں چند ہی ماہ میں مالی مشکلات کے شکار اپنے والد کے ساتھ لوئر دیر سے بس پر آنے والا نسیم شاہ اب پاکستان ٹیسٹ ٹیم کی سبز کیپ پہننے میں سرخرو ہوچکا ہے۔

زیادہ دور نہ جائیے، ان سے کچھ عرصہ پہلے شاہین شاہ آفریدی، موسیٰ خان، افتخار احمد، محمد رضوان، جنید خان، یاسرشاہ، عمران خان سینئر نے ان پسماندہ علاقوں کا نام روشن کرکے یہ ثابت کیا کہ صرف یونس خان اور شاہد آفریدی ہی نہیں، بلکہ موقع ملنے پر یہاں کے رہنے والے دوسرے نوجوان بھی پاکستان کی پہچان بن سکتے ہیں۔

اگر برسبین ٹیسٹ میں پاکستان کے منتخب کردہ صرف گیارہ کھلاڑیوں پر نظر ڈالیں تو اس وقت پاکستان ٹیسٹ ٹیم کے دونوں فرنٹ لائن فاسٹ بولر نسیم شاہ اور عمران خان سینئر لوئر دیر علاقے کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ پلیئنگ الیون کا حصہ تیسرے تیز بولر شاہین شاہ آفریدی خیبر ایجنسی فاٹا کے رہنے والے ہیں۔ ان کے بھائی ریاض آفریدی بھی پاکستان کی طرف سے کھیلنے کا اعزاز رکھتے ہیں اور ان دنوں وہ کوچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ لیگ اسپنر یاسر شاہ کا تعلق صوابی سے ہے۔ لوئر آرڈر بلے باز افتخار احمد اور وکٹ کیپر محمد رضوان پشاور کی پہچان بنے ہیں۔ بابراعظم اور اظہر علی نے لاہورمیں آنکھ لی۔ اسد شفیق، شان مسعود کراچی، حارث سہیل سیالکوٹ کے باسی ہیں۔ یعنی گیارہ میں سے چھ کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا سے ہے۔ باقی بچنے والے پانچ میں سے لاہور اور کراچی کے دو دو جبکہ سیالکوٹ کا ایک کرکٹر ہے۔

پی سی بی گورننگ بورڈ کے سابق رکن اور صوابی کے کرکٹ گرو عامر نواب کے بقول لاہور اور کراچی کو کرکٹ کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے لیکن ماضی کی طرح اب یہاں سے ٹیلنٹ آگے نہیں آرہا۔ اب ان دونوں بڑے شہروں میں کھیل کے میدان میں کرکٹ کم اور سیاست زیادہ ہورہی ہے۔ جو لاہور اور کراچی کے دونوں آرگنائزرز کےلیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس کے برعکس صوبہ کے پی کے اور دوسرے علاقوں کے نوجوانوں میں خود کو منوانے کا شوق اور جذبہ بڑھا ہے۔ صرف صوابی کی بات کی جائے تو یہاں سے پہلے یاسر شاہ نے نام کمایا، پھر جنید خان کو آگے آنے کا موقع ملا۔ لیگ اسپنر فواد احمد پاکستان میں نہیں کھیل پائے تو وہ مایوس ہوکر آسٹریلیا چلے گئے اور ان کی ٹیم کی طرف سے کھیل رہے ہیں۔ ایک اور لیگ اسپنر محمد اسد قومی ایمرجنگ ٹیم کا حصہ ہیں۔ احد خان فاسٹ بولر پاکستان انڈر 16 ٹیم میں شامل ہوچکے ہیں۔ خالد عثمان پی ایس ایل میں پشاور زلمی کے ساتھ انگلینڈ میں کھیل رہے ہیں۔ اس شہر سے تعلق رکھنے والے دوسرے بیس سے زیادہ کرکٹر فرسٹ کلاس ٹیموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں مصروف ہیں۔

یہاں پر گراؤنڈز سمیت کرکٹ کی وہ سہولیات نہیں، جو لاہور اور کراچی کے نوجوانوں کو حاصل ہیں۔ اس کے باوجود ہر نوجوان چاہتا ہے کہ وہ بڑا ہوکر کرکٹ ٹیم میں جگہ پائے۔ کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ نسیم شاہ اور توقیر ضیا نے کرکٹ گراونڈز پر توجہ دی، اس کے بعد بورڈ حکام زیادہ تر اس جانب توجہ نہیں دے رہے۔ ایبٹ آباد میں پی سی بی کی کرکٹ اکیڈمی بنی ہے، لیکن جہاں سے ٹیلنٹ آرہا ہو وہاں پر تو پی سی بی کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کم سہولیات والے ان علاقوں میں لاہور اور کراچی جیسی کرکٹ کھیلنے کی سہولتیں فراہم کردی جائیں تو ہماری ٹیمیں مزید مضبوط ہوسکتی ہیں۔

بہت سے باصلاحیت کرکٹرز ایسے بھی ہیں جو سامنے نہیں آپاتے، ان کی حق تلفی ہوتی ہے اور وہاں اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر روزگار پر توجہ دینے لگ جاتے ہیں۔ عامر نواب نے انٹرنیٹ سہولیات اور سوشل میڈیا کو بھی اس علاقے سے زیادہ ٹیلنٹ آگے آنے کی ایک وجہ قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑے شہروں کے لڑکے اب ان چیزوں پر زیادہ وقت ضائع کرنے لگے ہیں جبکہ ہمارے نوجوانوں میں یہ رجحان بہت کم ہے۔ اس لیے وہ خود کو کرکٹ پر زیادہ فوکس رکھنے میں کامیاب ہیں۔

صرف کرکٹ ہی نہیں، دوسرے کھیلوں میں بھی ایسے بے شمار ہیروز ہیں جو ان علاقوں سے نکل کر پاکستان کی عزت اور نیک نامی میں اضافہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ ان علاقوں میں بھی کھیل اور کھلاڑیوں کےلیے وہ تمام اقدامات ہوں، جن کی وجہ سے کھیلوں کے میدان میں پاکستان کا پرچم مزید بلند ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

Muhammad Yousuf Anjum

محمد یوسف انجم

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے، سینئر صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں اور اسپورٹس رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ پچھلے کئی سال سے ’’ایکسپریس نیوز‘‘ سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔