ادارہ جاتی ہم آہنگی کی ضرورت

ایڈیٹوریل  جمعـء 22 نومبر 2019
چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے بیان کاقانون کے تناظر میں صائب جواب دے دیا ہے۔ فوٹو:فائل

چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے بیان کاقانون کے تناظر میں صائب جواب دے دیا ہے۔ فوٹو:فائل

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے قرار دیا کہ وزیر اعظم کسی کے طاقتور ہونے کا طعنہ ہمیں نہ دیں، وزیر اعظم نے جس کیس کا طعنہ دیا، انھیں باہر جانے کی اجازت وزیر اعظم نے خود دی، ہائیکورٹ نے صرف طریقہ کار طے کیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ عدلیہ کو عوامی اعتماد بحال رکھنا ہے، اس سیاق و سباق میں چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے بیان کاقانون کے تناظر میں صائب جواب دے دیا ہے، جس پر ملکی اخبارات، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں بحث ہو رہی ہے۔ تجزیہ کاروں ، ماہرین قانون اور فہمیدہ سیاسی حلقوں نے وزیر اعظم کے بیان اور چیف جسٹس کے رد عمل کے حوالہ سے انصاف و قانون کے اس سنجیدہ موضوع پر گفتگو کو سیاسی ڈیبیٹ بنانے سے گریزکا مثبت مشورہ دیا۔

مبصرین کا کہنا تھا کہ پیدا شدہ ملکی سیاسی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ بے ساختہ مکالمہ تمام جمہوری قوتوںکے مابین اصولی بنیاد پر ہو اور سیاسی و جوڈیشل معاملات پر رائے دیتے وقت احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور یہ خوش آیند بات ہے کہ میڈیا میں سیاسی و عدالتی تناظر کا توازن متاثر ہونے نہیں دیا، سیاسی اور عدالتی امور کی حساسیت اور نزاکت کے حوالہ سے یہ صائب اپروچ تقریباً تمام حلقوں کی واضح رہی کہ اس ایشو کو ایک جمہوری مکالمہ تک محدود رکھا جائے۔

کوئی ایسی متنازع بات عدلیہ کے حوالے سے ڈسکس نہ کی جائے جو ملکی سیاست میں جاری صورتحال کے حقیقی اور معروضی سیاق و سباق سے عدم مطابقت کی حامل ہو، استدلال کے حامل ماہرین کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے انداز نظر کا صائب اور مدلل جواب چیف جسٹس کے رد عمل میںاظہر من الشمس ہے، اس میں وزیراعظم کے خدشات، تصورات، توازن سے متعلق معروضات کا انتہائی بلیغ طرز بیان سے محاکمہ کیا گیا اور اب اس بات کو عدلیہ اور سیاسی سواد اعظم کی اجتماعی بصیرت اور مسند انصاف سے وابستہ ادارہ جاتی انتظام و انصرام پر چھوڑ دیا، قوم کو باو رکرایا جائے کہ سیاست و عدالت کو ابھی کسی دشمن کی نظر نہیں لگی، عدالتیں اپنا کام محنت اور لگن سے کر رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی عدلیہ کا تقابلی جائزہ 2009ء سے پہلے والی عدلیہ سے نہ کریں، اسی عدلیہ نے ایک وزیراعظم کو سزا دی، دوسرے کو نااہل کیا، اب سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ بھی ہونے جا رہا ہے، ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے، ججز پر اعتراض کرنے والی ذرا احتیاط کریں، ججز پر تنقید کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں، عدالتی نظام میں خاموش انقلاب آ چکا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ باقی عدم توازن کی بات پر غورکریں۔

وزیر اعظم کا بہت احترام ہے کہ وہ منتخب نمایندے ہیں، چیف جسٹس نے وزیر اعظم کی جانب سے وسائل کی فراہمی کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ادارہ یا انسان پرفیکٹ نہیں، 3100 ججز نے 36 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے، ان میں طاقتور شاید دو چار ہی ہوں گے۔

باقی ناتواں لوگ تھے جن کا شاید آپ کو علم بھی نہ ہو، ماڈل کورٹس کے باعث 20 اضلاع میں کوئی سول اور فیملی اپیل زیرالتوا نہیں، فیملی مقدمات طاقتور لوگوں کے نہیں ہوتے، ماڈل کورٹس نے تمام نتائج صرف 187 دنوں میں دیے، ججز نے دن رات محنت کر کے فیصلے کیے، عدالتوں میں طاقتور اور ناتواں میں کوئی تفریق نہیں، ہم نے آ رام سے بیٹھ کر ماڈل کورٹس کے لیے دماغ لڑایا اور انتظامی اقدامات کیے۔ ملک میں 116 اضلاع ہیں جن میں 17 اضلاع میں قتل کے مقدمات جب کہ 6اضلاع میں کریمنل مقدمات زیرو ہیں تاہم تحصیلوں میں کچھ مقدمات ہیں، اسی طرح 23 اضلاع میں نارکوٹکس مقدمات جب کہ 11 اضلاع میں ضلع کی سطح پر مقدمات ختم ہو چکے ہیں۔

آج عدلیہ میں وہ تمام ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہے، موبائل ایپ کے ذریعے سائلین اپنے مقدمات کے فیصلے بھی پڑھ سکتے ہیں، سپریم کورٹ کے آئی ٹی کے ایشوز کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے کہا چیف جسٹس کئی جدید آئیڈیاز کے بانی ہیں، انھی کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے یہ کامیاب اقدامات اٹھائے۔

چنانچہ ماہرین قانون، تجزیہ کاروں، سیاسی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے بیان کی تصریح ان کے قانون و انصاف کے حوالہ سے معروضات کو درست تناظر میں دیکھا جائے تا کہ یہ تاثر قائم ہی نہ رہے کہ صورتحال کا فالو اپ آگے کوئی اور رخ اختیار کر لے گا۔

لہذا جو سیاسی رہنما، ماہرین آئین و قانون  اور میڈیا پرسنز وزیر اعظم اور چیف جسٹس کے مابین بیانات کو ملکی حالات، سیاسی صورت حال اور عدالتی مراتب کے پیش نظر ایک صائب اختتام دینے کی سعی کر رہے ہیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اداروں میں گریٹر مکالمہ کی ضرورت کا احساس دلایا جا رہا ہے۔ اس جمہوری سپورٹ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اداروں میں ہم آہنگی برقرار رہنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔