سینئر رہنماؤں کا حشر

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 22 نومبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

شعور، نا انصافی، ظلم و استحصال کے خلاف لڑنے کے لیے ایک ایسا ہتھیار ہے، جس کے استعمال سے ظلم و استحصال کی طاقتوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اس حقیقت سے استحصالی طبقات پوری طرح واقف ہیں اور ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ عام آدمی شعور سے محروم رہے۔

شعور کوئی خارجی چیز نہیں ہے بلکہ انسانی وجود کا ایک اہم حصہ ہے۔ استحصالی طاقتوں کی یہ دانستہ کوشش ہوتی ہے کہ عام غریب آدمی شعور سے بے بہرہ رہے۔ شعور کی پہلی سیڑھی یا شرط تعلیم یعنی علم ہے جہاں علم ہو گا وہاں ظلم و استحصال کے خلاف مزاحمت ہو گی اور جہاں مزاحمت ہو گی وہاں ظلم و استحصال کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک انسان کو ناانصافیوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرتا ہے۔

اس حقیقت سے استحصالی طبقات پوری طرح باخبر ہیں اور ان کی دانستہ اور منصوبہ بند کوشش ہوتی ہے کہ مظلوم عوام شعور سے بے بہرہ رہیں۔ اس کے لیے وہ پوری منصوبہ بندی اور نظم و ضبط سے کام کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے نشان دہی کر دی ہے۔ علم و آگہی ظلم و استحصال کے دشمن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو دانستہ طور پر علم و آگہی سے دور رکھا جاتا ہے۔ استحصالی ملکوں اور معاشروں میں علم کو عوام کی طرح تقسیم کر دیا گیا ہے۔ عام آدمی کے بچوں کے لیے سرکاری اسکولوں کے نام پر ایسے ادارے قائم کر دیے گئے ہیں جو طلبا کو علم کے بجائے جہل سکھاتے ہیں۔ یہ ادارے پسماندہ ملکوں میں عام ہیں ان کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ اسے کوئی توڑنا چاہے بھی تو نہیں توڑ سکتا۔

اشرافیہ کی اولاد کے لیے اعلیٰ پائے کے ایسے تعلیمی ادارے بنائے گئے ہیں، جن کے طلبا نہ صرف جدید علوم سے سرفراز ہوتے ہیں بلکہ ان کی نفسیات میں برتری کا پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے اور انھی اداروں سے نکلے ہوئے نوجوان بیوروکریسی اور حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں جب کہ غریب طبقات کے ہونہار پرائمری اور مڈل تک پڑھ کر  سرکاری اور نجی اداروں میں چپراسی اور کلرک بن کر ساری زندگی غلامی میں ضایع کر دیتے ہیں۔ استحصالی مافیا نے عوام کو دھوکا دینے اور ان کی جیب سے پیسے نکالنے کے لیے ایک انگلش اسکولوں کا زبردست نیٹ ورک بنایا ہے جو لوئر اور مڈل کلاس کی ذہنی تسکین کا ذریعہ ہے اس نیٹ ورک سے فارغ التحصیل نوجوان درمیان میں لٹک کر رہ جاتے ہیں۔

ان انگلش اسکولوں سے فارغ نوجوان زیادہ سے زیادہ آگے جائیں تو وہ سپروائزری پوسٹوں کی نظر ہو جاتے ہیں۔ بیوروکریسی اور اس سے آگے تک ان کی نظر ہی نہیں جاتی۔ اس کے برخلاف اشرافیہ کی اولاد بیرون ملک ترقی یافتہ ملکوں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بن جاتے ہیں اور ایسی دلچسپ مثالیں موجود ہیں کہ مغربی ملکوں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے اپنے وطن لوٹنے والے اشرافیہ کے ہونہار اپنی آبائی جگہوں پر آ کر سیاسی جماعتوں کے سربراہ بن جاتے ہیں اور سینئر پارٹی قائدین ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔

جن کارکنوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ پارٹی کی خدمت میں گزارا اور بے شمار قربانیاں دیں وہ اس لیے نظر انداز کر دیے گئے کہ مغربی ملکوں سے تعلیم حاصل کر کے اشرافیہ کی اولاد اپنے بزرگوں کی جگہ لینے آ گئی، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایسے سینئر لوگ جن کی پلکوں کے بال کام کرتے کرتے سفید ہو گئے ہیں۔ نووارد لندن پلٹ ولی عہدوں کے سامنے بھیگی بلی بنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے ہیں۔ اپنی اس پوزیشن اور بے بسی پر انھیں شرم آنی چاہیے۔ ساری دنیا میں سیاسی قیادت کا حق ان سینئر لوگوں کو دیا جاتا ہے جو اپنی زندگی کا بڑا حصہ پارٹی کی خدمت میں صرف کر دیتے ہیں ان ملکوں میں نہ ولی عہد ہوتے ہیں نہ شہزادے نہ کالجوں سے نکلتے ہی مرکزی رہنما کے عہدے پر فائز ہو سکتے ہیں۔

اس اشرافیائی کلچرکی وجہ پارٹیاں سینئر اور تجربہ کار رہنماؤں سے محروم ہو رہی ہیں اور نوجوان ناتجربہ کار شہزادے مرکزی قیادت پر قبضہ کر کے سینئر اور تجربہ کار رہنماؤں کی خدمات سے محروم ہو رہے ہیں۔ اس کلچر میں پاکستان سرفہرست نظر آتا ہے اور اس بدعت کی وجہ ہمارا سڑا ہوا جاگیردارانہ نظام ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ سیاست میں ولی عہدی نظام اب اس قدر عام ہو گیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت میں دو چار ولی عہد موجود نظر آتے ہیں۔

اب سیاسی جماعتیں عوام کی خدمت کے اپنے روایتی فرض سے چھٹکارا پا کر کمائی کے دھندے میں سارا وقت دے رہی ہیں ، پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو شرم سے سر جھک جاتے ہیں۔ میڈیا سیاسی اشرافیہ کی بے لگام لوٹ مار سے بھرا ہوا ہے عوام اس کرپٹ قیادت سے بے زار ہیں اور اس پورے اشرافیائی سسٹم میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاست پر مضبوط ہولڈ رکھنے والی اشرافیہ اور اس کے ولی عہدی نظام سے کس طرح چھٹکارا پایا جائے؟ اس سوال کے جواب ہی پر پاکستانی سیاست کے مستقبل کا دار و مدار ہے۔

ہمارے ملک میں ڈاکٹروں کی تنظیمیں ہیں، وکلا کی تنظیمیں ہیں، مزدوروں کی تنظیمیں ہیں، صحافیوں کی تنظیمیں ہیں، فنکاروں کی تنظیمیں ہیں، دانشوروں کی تنظیمیں ہیں، مفکروں کی تنظیمیں ہیں، ماضی میں یہ تنظیمیں سیاست سے جڑی ہوئی ہوتی تھیں اور بایاں بازو ان جماعتوں کو ’کوآرڈی نیٹ‘ کرتا تھا۔ بایاں بازو ماضی کی طرح متحرک نہیں ہے لیکن اب بھی اس قابل ہے کہ ان تنظیموں میں کوآرڈی نیٹ کر سکتا ہے اگر وکلا ڈاکٹروں طلبا اور مزدوروں کی تنظیمیں فعال ہو جائیں تو یہ نیا سیٹ اپ بن سکتا ہے اور عوام متحرک ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔