- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
ڈرون حملے کئی سال تک پاکستانی حکام کی اجازت سے ہوئے،امریکی اخبار، پہلے ایسا ہوتا ہوگا، اب نہیں،پاکستان
واشنگٹن: امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ عوامی سطح پر مذمت کرنے کے باوجود پاکستان نے کئی برسوں تک امریکا کو ڈرون حملوں کی اجازت دیے رکھی۔
ٹاپ سیکرٹ دستاویزات اور سفارتی مراسلوں کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ سی آئی اے نے پاکستانی حکام سے ڈرون حملوں پر معلومات کا تبادلہ کرنے کیلیے خصوصی دستاویزات تیار کیں۔ پاکستانی حکام نے نہ صرف کئی برسوں سے امریکی ڈرون حملوں کی توثیق کی ہے بلکہ انھیں ان حملوں اور ہلاکتوں کے بارے میں بریفنگ بھی دی جاتی رہی ہے۔ امریکی اخبار نے سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات جن میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں درجنوں ڈرون حملوں کا ذکر کیا گیا اور ان کے ساتھ نقشے اور حملے سے قبل اور بعد کی تصاویر بھی ہیں۔
کے حوالے سے بتایا کہ ان دستاویزات کو سی آئی اے نے خاص طور پر حکومت پاکستان کو فراہم کرنے کیلیے تیار کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ایک ایسا راز ہے جس کو واشنگٹن اور نہ اسلام آباد نے موزوں طریقے سے راز رکھا اور آغاز میں ڈرون طیارے پاکستانی فضائی اڈے سے اڑائے گئے۔ ان دستاویزات میں کم ازکم 65 ڈرون حملوں کا ذکر کیا گیا اور ان کو ’’ٹاپ سیکرٹ‘‘قرار دیا گیا ہے تاہم اس بارے میں پاکستان کو معلومات فراہم کرنے کی اجازت دی گئی۔ بی بی سی کے مطابق واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ دوسری جانب سی آئی اے کے ترجمان نے ان دستاویزات پر تبصرہ کرنے سے تو انکار کیا تاہم ان کے مستند ہونے پر شک نہیں کیا۔
اخبار نے بتایا کہ دستاویزات میں دسمبر2007 سے ستمبر 2008 تک 15ڈرون حملوں کا ذکر کیا گیا اور ماسوائے2حملوں کے تمام میں القاعدہ کے رہنماؤں کا بحیثیت ہدف ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی ڈرون حملوں میں ہدف کے تعین میں پاکستانی حکام کے کردار کے شواہد ملتے ہیں۔ 2010 کی ایک دستاویز میں کہا گیا کہ ’’یہ حملہ آپ کی حکومت کی درخواست پر کیا گیا ہے‘‘۔ کئی دستاویزات کو ’ٹاکنگ پوائنٹس‘ قراردیا گیا ہے اور کہا گیا کہ اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر سی آئی اے مائیکل جے موریل سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کو متواتر بریفنگ دیا کرتے تھے تاہم اس حوالے سے حسین حقانی نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ان دستاویزات سے امریکا اور پاکستان کے درمیان عدم اعتماد بھی واضح ہے۔ کچھ دستاویزات میں ان اجلاسوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
جن میں سینئر امریکی حکام بشمول اس وقت کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پاکستانی حکام کے سامنے وہ رپورٹیں رکھیں جن میں پاکستان کے ان شدت پسند گروہوں کے ساتھ تعلقات ہیں جو امریکی فورسز پر حملوں میں ملوث ہیں۔ ایک موقع پر ہلیری کلنٹن نے پاکستانی حکام کے سامنے موبائل فون اور تحریری شواہد رکھے جو شدت پسندوں کی لاشوں پر سے ملے تھے جن سے یہ بات واضح تھی کہ پاکستانی حکومت ان کی مدد کررہی تھی۔ 20 ستمبر 2011 کی ایک پاکستانی سفارتی کیبل میں کہا گیا کہ امریکا کے پاس شواہد ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی کے ان گروہوں کے ساتھ تعلقات تھے۔ 2010 میں پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کو ایک میمو میں لکھا گیا تھاکہ یہ ان36 امریکی شہریوں کی فہرست ہے۔
جو سی آئی اے کے خصوصی ایجنٹ ہیں اور کسی خاص ٹاسک کیلیے وہ پاکستان آئیں گے، ان کو ویزہ نہیں دینا۔ بی بی سی نے کہا کہ واشنگٹن پوسٹ نے یہ خبر ایسے وقت میں شائع کی ہے جب نواز شریف نے امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات میں ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ علاوہ ازیں امریکی جریدے نیشنل جرنل نے دعویٰ کیا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک خفیہ پروٹوکول ہے جس میں ڈرون حملوں کی اجازت دی گئی ہے۔ عوام میں اسے جتنا بھی مبہم سمجھا جا رہا ہے لیکن مشرف اور جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ موجود ہے جس کے تحت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ایجنسی نے کئی حملوں کی منظوری دی۔ جریدے نے ایک سابق اعلیٰ پاکستانی افسر کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ درست شرائط کو سویلین کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا۔
لیکن مشرف حکومت اور امریکیوں کے درمیان ایک پروٹوکول پر دستخط کیے گئے تھے۔ ادھر لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ اوباما انتظامیہ نے پاکستان کی طرف سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔ نواز شریف اور امریکی صدر کی ملاقات کے بعد لاس اینجلس ٹائمز اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی حکام نے کہا کہ پاکستان میں ڈرون حملے کسی صورت ختم نہیں کیے جاسکتے، البتہ ان کی تعداد میں کمی کی جارہی ہے۔ دریں اثنا دفترِ خارجہ کے ترجمان اعزاز چوہدری نے بی بی سی اردو کوواشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ اگر ماضی میں پاکستان کی حکومتوں نے ڈرون حملوں پر رضامندی ظاہر کی بھی تھی تو اب ایسا نہیں ہے۔۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔