ڈرون حملے کئی سال تک پاکستانی حکام کی اجازت سے ہوئے،امریکی اخبار، پہلے ایسا ہوتا ہوگا، اب نہیں،پاکستان

اے ایف پی  جمعـء 25 اکتوبر 2013
سی آئی اے نے پاکستانی حکام سے ڈرون حملوں پر معلومات کا تبادلہ کرنے کیلیے خصوصی دستاویزات تیار کیں۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

سی آئی اے نے پاکستانی حکام سے ڈرون حملوں پر معلومات کا تبادلہ کرنے کیلیے خصوصی دستاویزات تیار کیں۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

واشنگٹن:  امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ عوامی سطح پر مذمت کرنے کے باوجود پاکستان نے کئی برسوں تک امریکا کو ڈرون حملوں کی اجازت دیے رکھی۔

ٹاپ سیکرٹ دستاویزات اور سفارتی مراسلوں کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ سی آئی اے نے پاکستانی حکام سے ڈرون حملوں پر معلومات کا تبادلہ کرنے کیلیے خصوصی دستاویزات تیار کیں۔ پاکستانی حکام نے نہ صرف کئی برسوں سے امریکی ڈرون حملوں کی توثیق کی ہے بلکہ انھیں ان حملوں اور ہلاکتوں کے بارے میں بریفنگ بھی دی جاتی رہی ہے۔ امریکی اخبار نے سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات جن میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں درجنوں ڈرون حملوں کا ذکر کیا گیا اور ان کے ساتھ نقشے اور حملے سے قبل اور بعد کی تصاویر بھی ہیں۔

کے حوالے سے بتایا کہ ان دستاویزات کو سی آئی اے نے خاص طور پر حکومت پاکستان کو فراہم کرنے کیلیے تیار کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ایک ایسا راز ہے جس کو واشنگٹن اور نہ اسلام آباد نے موزوں طریقے سے راز رکھا اور آغاز میں ڈرون طیارے پاکستانی فضائی اڈے سے اڑائے گئے۔ ان دستاویزات میں کم ازکم 65 ڈرون حملوں کا ذکر کیا گیا اور ان کو ’’ٹاپ سیکرٹ‘‘قرار دیا گیا ہے تاہم اس بارے میں پاکستان کو معلومات فراہم کرنے کی اجازت دی گئی۔ بی بی سی کے مطابق واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ دوسری جانب سی آئی اے کے ترجمان نے ان دستاویزات پر تبصرہ کرنے سے تو انکار کیا تاہم ان کے مستند ہونے پر شک نہیں کیا۔

اخبار نے بتایا کہ دستاویزات میں دسمبر2007 سے ستمبر 2008 تک 15ڈرون حملوں کا ذکر کیا گیا اور ماسوائے2حملوں کے تمام میں القاعدہ کے رہنماؤں کا بحیثیت ہدف ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی ڈرون حملوں میں ہدف کے تعین میں پاکستانی حکام کے کردار کے شواہد ملتے ہیں۔ 2010 کی ایک دستاویز میں کہا گیا کہ ’’یہ حملہ آپ کی حکومت کی درخواست پر کیا گیا ہے‘‘۔ کئی دستاویزات کو ’ٹاکنگ پوائنٹس‘ قراردیا گیا ہے اور کہا گیا کہ اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر سی آئی اے مائیکل جے موریل سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کو متواتر بریفنگ دیا کرتے تھے تاہم اس حوالے سے حسین حقانی نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ان دستاویزات سے امریکا اور پاکستان کے درمیان عدم اعتماد بھی واضح ہے۔ کچھ دستاویزات میں ان اجلاسوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

جن میں سینئر امریکی حکام بشمول اس وقت کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پاکستانی حکام کے سامنے وہ رپورٹیں رکھیں جن میں پاکستان کے ان شدت پسند گروہوں کے ساتھ تعلقات ہیں جو امریکی فورسز پر حملوں میں ملوث ہیں۔ ایک موقع پر ہلیری کلنٹن نے پاکستانی حکام کے سامنے موبائل فون اور تحریری شواہد رکھے جو شدت پسندوں کی لاشوں پر سے ملے تھے جن سے یہ بات واضح تھی کہ پاکستانی حکومت ان کی مدد کررہی تھی۔ 20 ستمبر 2011 کی ایک پاکستانی سفارتی کیبل میں کہا گیا کہ امریکا کے پاس شواہد ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی کے ان گروہوں کے ساتھ تعلقات تھے۔ 2010 میں پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کو ایک میمو میں لکھا گیا تھاکہ یہ ان36 امریکی شہریوں کی فہرست ہے۔

جو سی آئی اے کے خصوصی ایجنٹ ہیں اور کسی خاص ٹاسک کیلیے وہ پاکستان آئیں گے، ان کو ویزہ نہیں دینا۔ بی بی سی نے کہا کہ واشنگٹن پوسٹ نے یہ خبر ایسے وقت میں شائع کی ہے جب نواز شریف نے امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات میں ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ علاوہ ازیں امریکی جریدے نیشنل جرنل نے دعویٰ کیا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک خفیہ پروٹوکول ہے جس میں ڈرون حملوں کی اجازت دی گئی ہے۔ عوام میں اسے جتنا بھی مبہم سمجھا جا رہا ہے لیکن مشرف اور جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ موجود ہے جس کے تحت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ایجنسی نے کئی حملوں کی منظوری دی۔ جریدے نے ایک سابق اعلیٰ پاکستانی افسر کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ درست شرائط کو سویلین کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا۔

لیکن مشرف حکومت اور امریکیوں کے درمیان ایک پروٹوکول پر دستخط کیے گئے تھے۔ ادھر لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ اوباما انتظامیہ نے پاکستان کی طرف سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔ نواز شریف اور امریکی صدر کی ملاقات کے بعد لاس اینجلس ٹائمز اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی حکام نے کہا کہ پاکستان میں ڈرون حملے کسی صورت ختم نہیں کیے جاسکتے، البتہ ان کی تعداد میں کمی کی جارہی ہے۔ دریں اثنا دفترِ خارجہ کے ترجمان اعزاز چوہدری نے بی بی سی اردو کوواشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ اگر ماضی میں پاکستان کی حکومتوں نے ڈرون حملوں پر رضامندی ظاہر کی بھی تھی تو اب ایسا نہیں ہے۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔