سابق سعودی بادشاہ کی بیٹی شہزادی بسمہ بنت سعود 7 ماہ سے لاپتہ

ویب ڈیسک  جمعـء 22 نومبر 2019
شہزادی بسمہ سعودی عرب میں انسانی حقوق سے متعلق قانون سازی کیلیے بھی متحرک تھیں۔ فوٹو : فائل

شہزادی بسمہ سعودی عرب میں انسانی حقوق سے متعلق قانون سازی کیلیے بھی متحرک تھیں۔ فوٹو : فائل

برلن: سماجی طور پر انتہائی متحرک اور امریکا جانے کی کوشش کے دوران تحویل میں لی جانے والی سعودی شہزادی بسمہ بنت سعود 7 ماہ سے منظر عام سے غائب ہیں اور کسی سے اُن کا رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔

جرمن نشریاتی ادارے ’ڈی ڈبلیو‘ نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن کے بڑے بیٹے، سعودی عرب کے سابق بادشاہ سعود بن عبدالعزیز کی 55 سالہ صاحبزادی شہزادی بسمہ رواں برس مارچ سے لاپتہ ہیں۔ روشن خیال شہزادی بسمہ بنت سعود سعودی عرب میں انسانی حقوق اور بہتر قوانین بنانے کے لیے سرگرم تھیں۔

بسمہ بنت سعود کے امریکی وکیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گزشتہ برس دسمبر میں شہزادی کو علاج کے غرض سے سعودی عرب سے بیرون ملک جانے کی اجازت دلوا دی تھی تاہم عین وقت پر پرواز رکوا کر شہزادی کو تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ شہزادی سے مارچ کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہزادی بسمہ کو ان کی روشن خیالی اور انسانی حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کی پاداش میں نظر بند کیے جانا عین ممکن ہے، شاہی خاندان کی شہزادی بسمہ کے منظر عام سے غائب ہونے سے بے نیازی سے بھی ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے جب کہ قریبی ذرائع کا موقف بھی یہی ہے.

جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ روایات سے بغاوت کے علاوہ شہزادی بسمہ کی کچھ سال قبل ہونے والی طلاق کے بعد بچوں کی کفالت اور جائیداد کی وراثت بھی نظر بندی کی دوسری بڑی وجہ ہوسکتی ہے، تمام تر امکانات اور خدشات کے بعد بھی تاحال بنت سعود کی نظر بندی کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

شہزادی بسمہ کے کچھ اور قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ روشن خیالی، طلاق اور وراثت کے جھگڑے کے علاوہ شہزادی کے امریکا جانے کی کوشش بھی نظر بندی کی ایک وجہ ہوسکتی ہے، تاہم حکام کو اب تک شہزادی کے فرار ہونے کیلیے ملک سے باہر جانے کے ثبوت نہیں مل سکے ہیں۔ وہ صرف علاج کے غرض سے جانا چاہتی تھیں۔

جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ کئی بار کی کوششوں کے باوجود شہزادی بسمہ کی نظربندی سے متعلق سعودی حکام سے پوچھے گئے سوالوں کے جوابات فراہم نہیں کیے گئے، جس کے باعث تحقیقی رپورٹ کو شاہی خاندان یا سعودی حکومت کے موقف کے بغیر ہی شائع کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

قبل ازیں شہزادی بسمہ کو ایک بین الاقوامی بلیک میلنگ گروپ نے مصر کے ایک اکاؤنٹ میں 3 لاکھ 20 ہزار پاؤنڈ منتقل کرنے کے کو کہا تھا بصورت دیگر گروپ ان کی بغیر حجاب اور ایک بوسہ لینے کی تصویر وائرل کرنے کی دھمکی دی تھی جو کہ ہائی جیکرز نے ان کے کمپیوٹر سے چرائی تھیں۔ شہزادی بسمہ نے بلیک میلرز سے ہونے والی ساری گفتگو یوٹیوب پر شائع کردی تھی۔

شہزادی بسمہ کی والدہ ایک شامی خاتون ہیں، بسمہ 5 سال کی تھیں جب ان کے والد شاہ سعود کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی شادی شاہی خاندان کے ایک فرد سے ہوئی تھی اور 2007 میں طلاق ہوگئی تھی۔ طلاق کے بعد انہوں نے سعودی عرب میں ریسٹورینٹس کا کاروبار شروع کیا جو پوری ریاست میں کامیابی سے چل رہا ہے اور اب وہ دیگر ممالک میں بھی ریسٹورینٹس کھولنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔

 

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔