امریکا کی وجہ سے پاکستانی بینکس ایران میں برانچیں نہیں کھول رہے، ایرانی قونصل جنرل

اسٹاف رپورٹر  جمعـء 22 نومبر 2019
باقاعدہ بینکاری نظام کی عدم دستیابی دونوں ملکوں کی تجارت بڑھانے میں رکاوٹ ہے، احمد محمدی کی ایکسپو سینٹر میں گفتگو (فوٹو: فائل/نیوز ایجنسی)

باقاعدہ بینکاری نظام کی عدم دستیابی دونوں ملکوں کی تجارت بڑھانے میں رکاوٹ ہے، احمد محمدی کی ایکسپو سینٹر میں گفتگو (فوٹو: فائل/نیوز ایجنسی)

 کراچی: ایران کے قونصل جنرل احمد محمدی نے کہا ہے کہ ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کے نجی بینکس ایران میں اپنی برانچیں کھولنے سے ہچکچا رہے ہیں، گیس پائپ لائن منصوبے ہماری تیاری مکمل ہے اب پاکستان کے منتظر ہیں۔

یہ بات انہوں نے جمعہ کو کراچی ایکسپو سینٹر میں ای کامرس گیٹ وے کے تحت دوسری بین الاقوامی کنزیومر پراڈکٹ نمائش کا افتتاح کرنے کے بعد میڈیا گفتگو میں کہی۔

ایرانی قونصل جنرل نے کہا کہ ایران پاکستان کے درمیان باہمی تجارت کے وسیع مواقع دستیاب ہیں، باقاعدہ بینکاری نظام کی عدم دستیابی دونوں ملکوں کی تجارت بڑھانے میں رکاوٹ ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کے نجی بینکس شاید ایران میں اپنی برانچیں کھولنے سے ہچکچا رہے ہیں، پاکستانی مصنوعات کا معیار اچھا ہے جن کی ایران سمیت دیگر ممالک میں برآمدات بڑھائی جاسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان گزشتہ چند برس سے باہمی تجارت و تعلقات میں اضافے کا رجحان ہے، کنزیومر نمائش میں چین ترکی ایران اور پاکستانی کمپنیوں کی شمولیت خوش آئند ہے اور پاکستانی مصنوعات کی چین ایران ترکی میں کھپت کے وسیع مواقع ہیں۔

اس موقع پر ای کامرس گیٹ وے کے صدر ڈاکٹر خورشید نظام نے کہا کہ دوسری انٹرنیشنل کنزیومر پروڈکٹ فئیر میں 17 ممالک کے 550 اسٹالز لگائے گئے ہیں، نمائش میں چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر کے 10 شہروں کے سرفہرست مینو فیکچررز شرکت کررہے ہیں۔

ڈاکٹر خورشید نظام نے کہا کہ نمائش میں آنے والی غیر ملکی کمپنیوں کے نمائندے پاکستان میں پروڈکٹس کی ڈیمانڈ اور مشترکہ سرمایہ کاری کے منصوبوں کا جائزہ لے رہے ہیں جبکہ چین کی ایس ایم ایز پاکستان میں اپنی فیکٹریاں قائم کرنے کی خواہاں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اگر چائنیز ایس ایم ای فیکٹریز پاکستان میں قائم ہونا شروع ہوئیں تو ان فیکٹریوں میں 97 فیصد پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوسکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔