قلعہ احمد پور لمہ

زاہد نثار  اتوار 24 نومبر 2019
تاریخی ورثہ جسے کچراگھر میں تبدیل کردیا گیا

تاریخی ورثہ جسے کچراگھر میں تبدیل کردیا گیا

صبح ہوتی ہے اور زندگی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ رواں ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ بازاروں میں چہل پہل اور رونق لگ جاتی ہے۔

یہ احمدپور لمہ ہے، جو تحصیل صادق آباد ضلع رحیم یار خان میں واقع ہے۔ یہ سندھ کی سرحد سے پہلے صوبہ پنجاب کی آخری ٹاؤن کمیٹی ہے۔ اسی رونق والے قصبے میں شمال کی جانب ایک ویرانہ ہے۔ یہ قلعہ احمدپور لمہ ہے۔

دفاعی لحاظ سے یہ قلعہ دراوڑ کے بعد ریاست بہاولپور کا سب سے بڑا قلعہ تھا۔ یہ قلعہ احمدپور لمہ ہے جو اب تباہ ہو چکا ہے۔ یہ بربادی کی ایک الم ناک داستان ہے۔

معدوم دریائے ہاکڑہ کی گمشدہ تہذیبوں کا امین یہ علاقہ دور قدیم سے دفاعی نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس علاقے کی مستند تاریخی معلومات کے مطابق یہاں493 تک مشہور رائے حکم راں خاندان کے دیوا جی کا دور رہا جن کا دارالحکومت الور یا اروڑ تھا۔ یہ موجودہ روہڑی کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ یہاں کی بھربھری چٹانوں پر قلعے و رہائش گاہوں کے کھنڈرات ملتے ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والے راجاسہرسن کے دور میں یہ اس کے زیرانتظام پانچ صوبوں میں الور کے تحت اہم دفاعی مقام کی حیثیت رکھتا تھا۔

احمدپورلمہ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے توروایات کے مطابق تقریباً 2200 سال قبل بدھ ازم کے ایک روحانی پیشوا جنہیں لامہ کہا جاتا ہے، نے یہاں سکونت اختیار کی۔ ان لامہ کا اصل نام نہیں ملتا۔ وہ وسطی ہندوستان سے یہاں آئے اور دریائے سندھ کے کنارے آباد اس جگہ رہنا شروع کیا۔ ان کے پیروکاروں نے اس آبادی کو لامہ کی رہائش کا نام دیا۔ اس سے پہلے اس جگہ کا کیا نام تھا؟ تاریخ میں اس پر تاریکی کے پردے ہیں۔ راجا داہر کے الور پر حکم رانی کے دور میں بھی یہی ناماستعمال ہونے کے شواہد ملتے ہیں، مگر بعد میں اس کا نام مقامی سرکش قبیلے لتا کی وجہ سے لتی واہن ہوا۔ یہاں دریائے سندھ کے کنارے درختوں اور سرکنڈوں کا وسیع جنگل تھا۔ پھر کئی صدیاں گزرنے کے بعد ایک مقامی راجا نے اپنے بیٹیکوڈھن مل کے نام پر اس کا نام دڑہ کوڈھن مل رکھا۔ اس کا جنوبی علاقہ روہی کی حدود کو چھوتا ہے۔

روایات کے مطابق712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے تسخیر ملتان کی مہم کی راہ میں حائل بھاٹیہ نامی مذہبی مقام پر حملہ کرنے کی ٹھانی اور حملے سیقبل لامہ میں اس کے قدیم قلعے میں ایک رات قیام کیا تھا۔ یہ وہی بھاٹیہ ہے جو موجودہ بھٹہ واہن ہے۔ احمدپور لمہ سیبھاٹیہ پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسی بھاٹیہ پرراجا ادم جام بھی حکم راں رہا جس کا دور بہاولپور میں سلطنت عباسیہ کے ابتدائی دور سے محض چند سال قبل تک کا ہے۔ اسکے زیر انتظام سندھ کا ڈہرکی تک کا موجودہ علاقہ تھا اور یہاں کی رعایا ادم جام کی باج گزار تھی۔ تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے احمدپورلمہ کو خاص اہمیت رہی۔ ادم جام کا پایہ تخت بھاٹیہ مشہور رومانوی کردار سسی کی جائے پیدائش ہے اور بھاٹیہ یا بھٹہ واہن سسی کی جائے پیدائش کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ محمدبن قسم رات گزارنے کے بعدیہاں سے بھاٹیہ اور ملتان پر حملہ آور ہوا۔ سومرو اور سمہ خاندانوں کی حکم رانی میں بھی اسے تجارتی اہمیت حاصل رہی۔

عباسی خاندان کے ریاست بہاولپور پر حکم رانی کے دور میں سردار احمد خان عباسی کے نام پر اس کا نام احمدپور لمہ رکھا گیا۔ کچھ لوگ سرائیکی زبان میں لمہ مغرب کو کہتے ہیں، جب کہ درحقیقت یہ لمہ لامہ کی بگڑی ہوئی شکل ہے، جسے سردار احمدخان عباسی کے دور تک بھی یاد رکھا گیا اور احمدپور کے ساتھ لمہ لگایا گیا۔

یہ وقت کے ساتھ ساتھ تجارتی مرکز بنتا گیا۔ دریائے سندھ کے پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے یہاں کی تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ نواب بہاول خان عباسی سوئم کے دور میں قدیم و شکستہ قلعے کی ازسرنو تعمیر کی گئی۔ قلعے کی دیواروں کو گرا کر نئی دیواریں تعمیر کی گئیں۔ پہلے سے موجود منجنیقوں کے ساتھتوپیں بھی رکھی گئیں اور فوجی رجمنٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔1775میں سردار احمدخان نے شہر کے اردگرد کچی مٹی سے تیس فٹ اونچی دیوار تعمیر کروائی۔ قلعہ کی حدود کے لیے دیواریں اور نئے برج بنوائے۔ ایک نہر بھی کھدوائی جسے اپنا نام دیا جو آج بھی احمدواہ کے نام سے معروف ہے۔

قلعہ کی بنیادیں مٹی سے بنائی گئی تھیں، جب کہ اس کا کچھ حصہ پختہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی مٹی کی دیواروں کی چوڑائی اتنی تھی کہ اس پر بیک وقت دو گھڑسوار دوڑ سکتے تھے۔ اس شہر کے آٹھ دروازے تھے جن کو آہنی دروازوں سے تحفظ حاصل تھا۔ یہاں بارود خانہ بھی تھا۔ یہاں دریائے سندھ کی جانب لائٹ ٹاور بھی تھا جو دریائی مسافروں کی منازل کی جانب راہ نمائی کرتا تھا۔

یہاں عمائدین ریاست بہاولپور اور انگریز سرکار کے اعلٰی حکام بھی رہائش پذیر ہوتے تھے۔قلعے کے پختہ حصے کو ریسٹ ہاؤس کا درجہ دیا گیا۔ تین منزلہ ریسٹ ہاؤس فن تعمیر کا شاہ کار تھا، جسے اب بھی بیرونی دیواروں سے جانچا جاسکتا ہے۔ سندھ کا سرحدی شہر ہونے کی وجہ سے اس کی دفاعی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ مبینہ طور پرانگریز سرکار نے یہاں پھانسی گھاٹ بھی بنایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان سے انگریز سرکار کے مخالفین کو یہاں لاکر خفیہ طور پر موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا۔ 1868 میں یہاں پولیس اسٹیشن قائم کردیا گیا، جو چند سال قبل شہر کے مشرقیحصے میں منتقل ہو گیا۔ اب یہ کھنڈر ہے۔

اس کی دیواریں ٹوٹ چکی ہیں۔ اس کی چھتوں کا سامان غائب ہے اور یہ بالکل تباہ ہو چکا ہے۔ ریسٹ ہاؤس کی اوپر کی دونوں منزلیں گر چکی ہیں۔ پختہ دیواریں موجود ہیںجو بتدریج ختم ہورہی ہیں۔ قلعہ بدترین حالت میں ہے۔ اس کی زمین بوس دیواروں کی مٹی تک لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں۔ قلعے کا لائٹ ٹاور قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل منہدم ہوگیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انگریزسرکار کے دور میں یہاں ایک زیرزمین سرنگ بھی بنائی گئی تھی اور رازداری کے ساتھ حکومت مخالف حریت پسندوں کو دریائے سندھ کے راستے فوراً اسی سرنگ کے ذریعے لایا جاتا تھا۔ اس سرنگ کا منہ دریائے سندھ کے کنارے پر تھا۔ بارشوں کے پانی کا نکاس نہ ہونے کیوجہ سے یہ زیرزمین سرنگ بھی بیٹھ گئی، جب کہ پھانسی گھاٹ کو 1940 کے لگ بھگ منہدم کردیا گیا تھا۔ قلعے کے چاروںبرج درست حالت میںتھے۔

قلعے کی فصیل 1970 کے اوائل تک مکمل حالت میں تھی۔ پھر شکست و ریخت کا شکار ہوگئی۔ 18 نومبر 1935 کو والیٔ ریاست بہاولپور نواب صادق محمد خان خامس عباسی نے صادق آباد کے نام سے ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی، جو اس سے پہلیایک بستی تھی۔ اسے صادق ورند نامی مقامی زمیندار کے نام پر صادق آباد کا نام دیا گیا۔

یہاں ریلوے لائن موجود تھی اور1870 تک احمدپورلمہتحصیل کا درجہ رکھتا تھا۔ میونسپل اور منصفی کی عدالتیں بھی قائم تھیں۔ بازار نسبتاً تنگ جب کہ گلیاں کشادہ تھیںاور روزمرہ اشیاء کی خریدوفروخت کے لیے بازاروں میں شام گئے تک رونق رہتی تھی۔ کھنڈرات بوسیدہ و کہنہ تاریخی عمارتوں کے شہراحدپورلمہ کو ریاست بہاولپور کے بھی پُررونق اور اہم شہر کی حیثیت حاصل رہی۔ 17 اپریل 1988 تک کینائب منصفی کی عدالت کو 1905 میں نائب منصفی عدالت سے منصفی کے درجے پر ترقی دے دی گئی۔ احمدپور لمہ کے تحصیل ہیڈکوارٹر دور میں موجودہ صادق آباد چوںکہ ایک بستی تھی ریلوے اسٹیشن کی موجودگی کی وجہ سے ریاستی حکام اور عوام آمدورفت کے لیے یہی اسٹیشن استعمال کیا کرتے۔

1939 میں احمدپورلمہ کا تحصیل مقام کا درجہ ختم کر کے صادق آباد کو تحصیل بنادیا گیا۔ اس کی اہمیت بتدریج کم ہوتی گئی اور اس کے اثراتاس کے واحد قلعے پر بھی پڑے۔ عدم توجہی اور سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے قلعے کے حصے گرتے رہے۔ پختہ اینٹیں اٹھا لی گئیں۔ پولیس اسٹیشن جب تک قلعے میں رہا اسی مخصوص حصے کی نگہداشت ہوتی رہی جب تک یہاںپولیس اسٹیشن قائم تھا قلعے کی شکستگی کا سفر سست رہا۔ مگر پولیس اسٹیشن کے منتقل ہوتے ہی سب کچھ گویا ختم ہوگیا۔ پہلے پہل قلعے کے بالمقابل ٹنکی گراؤنڈ کو کوڑے کا مرکز بنایا گیا۔ شہر بھر کا کوڑا کچرا یہاں ڈالا جانے لگا اور اس خوب صورت سرسبز گراؤنڈکو کوڑے سے بھر دیا گیا۔

بعدازاں شہر بھر کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے والی واحدواٹر سپلائی ٹنکی کو ہی غیرفعال کرکے اس کے پائپ تک اکھڑوا لیے گئے۔ اس کے پمپنگ اسٹیشن کو کوڑے میں دفن کر دیا گیا۔ اور پھر جب اس پر بھی خاموشی رہی تو اب قلعے کو شہر کے کچرے سے بسانے کی کوشش جاری ہے۔

اس وقت ان کھنڈرات میں کوڑا کرکٹ کی بہتات ہورہی ہے اور یہ کوڑا کرکٹ اور غلاظت شہری نہیں ڈال رہے بلکہ مقامی بلدیاتی انتظامیہ نے شکستہ وتباہ شدہ قلعے کی زمین کو کچرے کے لیے چُن لیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مقامی انتظامیہ نے اب اس قلعے کے کھنڈرات میں شہر بھر کی گندگی ڈالنا شروع کردی ہے۔ زمینی حقائق اور تاریخ سے نابلد مقامی انتظامیہ اس تاریخی ورثے کو برباد کررہی ہے۔

یہ قدیم تاریخی قلعہ کھنڈر بن چکا ہے اور اس کو گندگی سے دفن کرنے کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔ یہ مکھیوں اور مچھروں کی افزائش کا گھر ہے۔ یہ گندگی کا شاہکار ہے۔ جگہ جگہ گندگی اور پلاسٹک بیگ کی آمیزش نے تباہی کا سفر بڑھا دیا ہے۔ ریسٹ ہاؤس کی عمارت کے اندر جانوروں کی آلائشوں اور زہریلی گیسز کی وجہ سے شدید تعفن رہتا ہے۔ایسی بربادی تو شاید دنیا میں کہیں نہیں ہوتی۔ یہ کوڑے اور گندگی کے ڈھیر اس قلعے کے کھنڈرات کو تیزی سے تباہ کررہے ہیں۔ ہمارا ورثہ بہت تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ یہ بدانتظامی کی ایک بھیانک مثال ہے۔ مقامی سیاسی نمائندے اس معاملے میںنااہل اور بے پرواہ ہیں۔ اس قومی ورثے کو محفوظ کرنا حکومت وقت کی اہم ذمہ داری ہے مگر حکومت کی ترجیحات میں شاید یہ شامل نہیں۔ مقامی انتظامیہ بھی شاید یہی چاہتی ہے کہ کھنڈرات کو کوڑے کے ڈھیر میں دفن کردیا جائے، تا کہ آنے والی نسلیں کوڑا ہٹا کر قلعے کے کھنڈرات دیکھ سکیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔