قطب شمالی کے برف زاروں میں پنپتی نئی سردجنگ

ندیم سبحان میو / نیل شی  اتوار 24 نومبر 2019
مستقبل میں طاقت وَر اقوام منجمد خطے کی برفیلی سرزمین تلے چُھپے معدنی
 وسائل کے ذخائر اور نئی بحری گزرگاہوں پر قبضے کے لیے برسرپیکار ہوسکتی ہیں

مستقبل میں طاقت وَر اقوام منجمد خطے کی برفیلی سرزمین تلے چُھپے معدنی وسائل کے ذخائر اور نئی بحری گزرگاہوں پر قبضے کے لیے برسرپیکار ہوسکتی ہیں

نومبر کی ایک سرمئی شام قطب شمالی میں آباد جوا ہیون نامی قصبے کا نومنتخب پٹرول کمانڈر مارون ایٹکیٹک منجمد سمندر پر کھڑا اپنے جوانوں کا منتظر تھا جنھیں اس نے میٹنگ کے لیے بلایا تھا۔

اس وقت درجۂ حرارت منفی بیس ڈگری سیلسیئس تھا۔ قطب شمالی کے اعتبار سے درجۂ حرارت کی شدت بہت زیادہ کم نہیں تھی اس کے باوجود جنوب سے چلتی یخ بستہ ہوا ہڈیوں میں اترتی محسوس ہورہی تھی۔ تیزرفتار ہوا کے دوش پر آتے برف کے ذرات مارون کے چہرے سے ٹکرا رہے تھے۔ کچھ ہی دیر کے بعد بیس کے لگ بھگ مقامی مرد اور چند عورتیں (جو انوایٹ کہلاتے ہیں) مارون کے گرد جمع ہوگئے تھے۔

ان سب کے شانوں پر رائفلیں جھول رہی تھیں۔ سبھی نے رینڈیئر کی کھال کی دستی ساختہ جیکٹیں پہن رکھی تھیں، پتلونیں قطبی ریچھ کی سموردارکھال سے بنائی گئی تھیں جب کہ کچھ نے سر پر پہنی ہوئی بے حد گرم ٹوپیوں پر مفلر بھی لپیٹ رکھے تھے۔ ایٹکیٹک نے سیل کی کھال سے بنے دستانے ہاتھوں پر چڑھائے اور اس دن کے پروگرام کا خاکہ بیان کرنے لگا۔

دو درجن کے لگ بھگ مردوزن کا یہ گروپ کینیڈین رینجرز کا حصہ ہے جو کینیڈا کی مسلح افواج کا ریزرو جزو ہے۔ ایٹکیٹک کو بہ طور کمانڈر اس گروپ کی سربراہی کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ اس گروپ کو ایک ہفتے تک جزیرہ کنگ ولیم کے بے شجر ساحل پر اسنوموبائل (برف پر چلنے والی اسکوٹر نما گاڑی) کے ذریعے پیٹرولنگ کرنی تھی۔

یہ ایٹکٹیک کا اولین مشن تھا۔ ایک ہفتے کے دوران گروپ کے اراکین کو جی پی ایس کے استعمال کی تربیت دی جانی تھی، انھیں فوج کے انداز میں ہدف کو نشانہ بنانا سکھایا جاتا، سرچ اینڈ ریسکیو کی صورتحال میں فرائض کی ادائیگی سکھائی جاتی۔ اس کے علاوہ گروپ کو شکار اور آئس فشنگ کے بھی مواقع میسر آنے تھے۔

میں دائرے کے کنارے کھڑا اپنی پلکوں پر جم جانے والے برف کے ذرات جھاڑ رہا تھا۔ میری نگاہیں ان کے چہروں کا طواف کررہی تھیں جن پر کہیں کہیں سرما زدگی (فراسٹ بائٹ) کے نشانات نظر آرہے تھے جو ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھے۔ تمغوں کے مانند ان کے چہروں پر سجے یہ نشانات کرۂ ارض کے ناموافق ترین حالات کے حامل خطے میں کھلے آسمان تلے بِتائے گئے وقت کی غمازی بھی کررہے تھے۔

جلد ہی گروپ کی میٹنگ اختتام کو پہنچی اور پھر وہ دو دو چارچار کی ٹکڑیوں میں بٹ کر تاریکی میں لمبی مسافت پر روانہ ہونے سے قبل سگریٹ نوشی سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ایٹکیٹک برف پر چلتا ہوا میرے پاس آیا اور دریافت کیا کہ کیا میرا لباس جسم کو گرم رکھنے کے لیے کافی ہے۔ میں نے اثبات میں سر ہلادیا۔ ایٹکیٹک درازقد اور چوڑے شانوں والا ہنس مُکھ شخص تھا۔ کمانڈر منتخب ہونے سے پہلے اسے بہ طور رینجر خدمات انجام دیتے ہوئے برسوں گزرچکے تھے۔ اس نے دوستانہ انداز میں مجھے تنبیہہ کی کہ دوران سفر میں سو نہ جاؤں۔

’’ایسا ہوتا رہتا ہے‘‘، اس نے کہا۔ ’’کئی بار ایسا ہوا کہ لوگ اپنی اسنوموبائل سے گر کر لاپتا ہوگئے۔‘‘ ایٹکیٹک نے مجھے یاد دلایا کہ جزیرے سمیت Nunavut کے پورے علاقے میں کہیں بھی سیل فون سروس نہیں ہے۔’’اگر کسی وجہ سے آپ ہم سے جُدا ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں اسی جگہ پر بیٹھے رہیں تاوقتے کہ کوئی آپ تک پہنچ جائے۔‘‘ وہ بولا۔ ’’اور کوشش کریں کہ کسی قطبی ریچھ سے مڈبھیڑ نہ ہو۔‘‘

رینجرز کو ’قطب شمالی میں کینیڈا کی آنکھیں اور کان‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے یونٹ 1940ء کی دہائی سے ملک کے سب سے بیرونی سرحدی حصوںمیں پیٹرولنگ کرتے آرہے ہیں۔ قطب شمالی کے بعید ترین علاقوں میں فرائض کی ادائیگی میں مصروف بیشتر رینجرز مقامی رضاکار ہیں۔ گزرے برسوں میں انھوں نے اسکاؤٹس کے طور پر بھی اپنا کردار نبھایا ہے، جنگی کھیلوں میں حصہ لیا ہے۔

فوجیوں کو اگلو بنانا سکھایا ہے اور قطب شمالی کے بے شجر میدانوں (ٹنڈرا) میں نقل و حرکت کرنے اور انتہائی یخ بستہ موسم میں زندگی سے ناتا جوڑے رکھنے میں ان کی مدد کی ہے۔ قطب شمالی کے بعیدترین حصوں کے مانند کینیڈا اور باقی دنیا کے لیے رینجرز کے شب و روز دھندلکے میں لپٹے ہوئے ہیں۔ یہ قلیل بجٹ اور استعمال شدہ ہتھیاروں کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے آرہے ہیں جن میں 1940ء کے عشرے میں بنی ہوئی برطانیہ کی سرکاری بولٹ ایکشن رائفلیں بھی شامل ہیں جن پر ملکہ برطانیہ کے تاج کی شبیہ بہ طور مہر کندہ ہے۔

میرے دورے کے موقع پر کینیڈا کی حکومت رینجرز کی ازسرنوتعیناتیاں کررہی تھی۔ سبب یہ تھا کہ قطب شمالی اور اس میں چھپے وسیع معدنی ذخائر پر حق ملکیت جتانے کی عالمی دوڑ سے متعلق اطلاعات نے اوٹاوا میں براجمان سیاست دانوں کو رینجرز سے زیادہ فنڈز اور بہتر اسلحہ و سازوسامان مہیا کرنے اور مزید رضاکاروں کی بھرتی جیسے وعدوں پر مجبور کردیا تھا۔ امریکا کے عسکری حکام کی بھی قطب شمالی کے پوشیدہ ذخائر پر نظر تھی اور وہ الاسکا میں اسی نوعیت کی سرگرمیاں شروع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

ایٹکیٹک نے حکومتی توجہ کا خیرمقدم کیا تھا۔ وہ قطب شمالی میں پلا بڑھا تھا اور اب اپنے بیٹے کو پروان چڑھا رہا تھا۔ وہ دوستانہ سے لے کر بیگانگی تک، ہزاروں میل کی دوری پر بیٹھے ہوئے حکم رانوں کے مختلف انداز کی بہ خوبی تفہیم رکھتا تھا۔ لیکن اس بار یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ سیاست دانوں کے دماغ میں کیا کھچڑی پک رہی ہے: برسوں تک اس حقیقت کو نظرانداز کرنے کے بعد کہ قطب شمالی کرۂ ارض کے کسی بھی مقام کی نسبت تیزی سے گرم ہوتا جارہا ہے۔

بالآخر کینیڈا کو صورت حال کی سنگینی کا ادراک ہورہا تھا۔ ’’ہم انوایٹ لوگ موسمی تغیر کی ایک عرصے سے نشان دہی کرتے آرہے ہیں کہ آب و ہوا تبدیل ہورہی ہے،‘‘ بے شجر میدان (ٹنڈرا) کا رُخ کرنے سے قبل ایٹکیٹک نے مجھے بتایا۔ ’’اب حکومت اس مظہر کو تسلیم کررہی ہے اور چاہتی ہے کہ ہم اس (موسمی تغیر) پر نگاہ رکھیں۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ ہمیں اپنے کینیڈین ہونے پر فخر ہے۔‘‘ پھر اس نے ہنستے ہوئے کہا،’’ کاش کہ ہم اتنے کینیڈین ہوجائیں کہ حکومت ہمیں اچھی فون سروس مہیا کردے۔‘‘

رواں برس مئی کے اوائل میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے فن لینڈ کے سب سے شمالی صوبے کے دارالحکومت رووانیمی کا دورہ کیا تھا۔ دورے کا مقصد قطب شمالی کی سرحد کے ساتھ لگنے والے آٹھ ممالک اور خطے کی مقامی آبادیوں کے نمائندوں پر مشتمل آرکٹک کونسل میں تقریر کرنا تھا۔ بیس برس سے یہ کونسل موسمی تبدیلیوں پر مجلسی بحث، تعاون، اور رجعت پسندانہ تصورات کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ ایک ایسی انتظامیہ کا ایلچی ہونے کی بنا پر جو اس اپروچ کی مخالف ہو، پومپیو کی کونسل کی تقریب میں شرکت بہت عجیب معلوم ہورہی تھی۔

اجلاس سے ایک روز قبل ایک تقریب میں اظہارخیال کرتے ہوئے پومپیو نے کہا تھا،’’اب وقت آگیا ہے کہ امریکا قطب شمالی کی قوم اور اس خطے کے مستقبل کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ قطب شمالی کو بہت سے لوگ بنجر و بے ثمر خطہ سمجھتے ہیں مگر یہ بے پناہ مواقع کی سرزمین ہے۔‘‘

پومپیو کی تقریر کے بعد ایک دہائی سے قطب شمالی کو بے کار و بے وقعت قرار دینے کا سلسلہ اختتام پذیر ہوگیا، جس سرزمین کو کبھی منجمد بنجر جزو ارضی سمجھا جاتا تھا اب اسے روزانہ ہی اُبھرتا ہوا محاذ قرار دیا جاتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر قطب شمالی اب کاروبار کے لیے کُھلا ہے۔

تاریخ بنی نوع کے انسان کے بیشتر ادوار میں کرۂ ارضی کا 66 درجہ عرض بلد سے اوپر کا حصہ بڑے پیمانے کی تجارتی سرگرمیوں سے دور رہا ہے۔ ایک زمانے سے مہم جوؤں، تخمینہ کاروں، اور سائنس دانوں کو یقین تھا کہ قطب شمالی کی برف کی دبیزترین تہوں میں زبردست قدرتی وسائل اور آبی گزرگاہیں پوشیدہ ہیں، تاہم ہلاکت خیز سرد موسم، حوصلہ شکن تاریکی اورطویل ترین فاصلے انسان کے ہاتھوں اس خطے کے ’استحصال‘ کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔

آج قطب شمالی میں بدلتے موسم کے باعث رینڈیئر کی تعداد بہت کم ہوچکی ہے۔ اب یہاں مچھروں کی بہتات ہے اورموسم گرما میں درجۂ حرارت ماضی کی نسبت زیادہ رہنے لگا ہے۔ سب سے زیادہ پریشان کُن اور واضح تبدیلی سمندر میں نظر آتی ہے جہاں گرمیوں میں برفیلے پانی پر بہتے برف کے وسیع و عریض ٹکڑوں کے دکھائی دینے کے مناظر تشویش ناک رفتار سے غائب ہوتے جارہے ہیں۔

قطب شمالی کی گرمیوں میں سمند پر تیرتی وسیع و عریض برفانی پرتیں ہمیشہ سکڑتی ہیں اور سردیوں میں ان کا حجم دوبارہ بڑھ جاتا ہے، تاہم موسم گرما میں ان پرتوں کے سکڑنے کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جب کہ کچھ محققین کا خیال ہے کہ پگھلنے کا عمل تیزتر ہوتا جارہا ہے۔ ناسا کے سائنس دانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ قطب شمالی ہر سال 21 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط برف سے محروم ہورہا ہے، اور 2014ء میں نیشنل کلائمیٹ اسسمنٹ تیار کرنے والے ماہرین پیش گوئی کرچکے ہیں کہ 2050ء تک قطب شمالی پر برف ناپید ہوجائے گی۔

واشنگٹن ڈی سی کے ولسن سینٹر میں قائم پولر انسٹیٹیوٹ کے سربراہ مائیکل فراگا کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اندازوں سے بھی زیادہ تیزی سے وقوع پذیر ہورہا ہے۔

اس نئے محاذ پر مقابلہ برف سے ڈھکی زمین پر حق ملکیت جتانے کا نہیں ہوگا۔ کچھ متنازع قطعات کے سوا قطب شمالی کی تقسیم ہوچکی ہے۔ اس کے بجائے ممالک اور بڑے بڑے ادارے سونا، ہیرے، نایاب دھاتوں، پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے کھربوں ڈالر مالیت کے وسیع و عریض ذخائر میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔

ان معدنیات کے علاوہ ان کی نگاہیں نئی سمندری گزرگاہوں، مچھلیوں اور دیگر آبی حیات پر بھی ہے۔ کئی مقامات پر بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے برف کے پگھلاؤ میں تیزی آئی ہے۔ روس اور ناروے گذشتہ ایک دہائی کے دوران سب سے زیادہ فعال ممالک ثابت ہوئے ہیں جو قدرتی گیس و تیل کے انفرا اسٹرکچر، گہرے پانی کی بندرگاہوں اور بحرمنجمد شمالی کے برفیلے پانی میں سفر جاری رکھنے والے خصوصی بحری جہازوں کی تیاری پر اربوں ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔

اسی دوران چین نے روسی منصوبوں کی حمایت اور قطب شمالی کی دیگر اقوام کو ترقیاتی قرضوں کی پیشکشوں کے ذریعے خطے میں اپنے قدم جمالیے ہیں۔ چین قطب شمالی کے جنوبی طرف ڈھائی ہزار میل کی دوری پر واقع ہونے کے باوجود برف شکن بحری جہاز تیار کررہا ہے۔ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی قوم مستقبل میں قطب شمالی میں اپنے پاؤں مزید مضبوط کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

چین کے برعکس بیشتر مغربی اقوام بشمول کینیڈا اور امریکا، جو مشترکہ طور پر بحرمنجمد شمالی کی نصف سے زائد ساحلی پٹی کو کنٹرول کرتے ہیں، نے قطب شمالی کو نظرانداز کررکھا تھا۔ امریکا کے پاس پانچ برف شکن جہاز ہیں( روس کے برف شکن جہازوں کی تعداد 51 ہے) مگر شمالی نصف کرّے کے شمال میں گہرے پانی کی کوئی بندرگاہ نہیں ہے۔ اس عدم توازن کی وجہ سے خطے میں تناؤ کی صورت حال جنم لے رہی ہے جو بڑی طاقتوں کے درمیان تصادم یا پھر ایک نئی سرد جنگ کے آغاز پر منتج ہوسکتی ہے۔ آرکٹک کونسل میں پومپیو کی موجودگی کے پس پردہ حقیقی سبب یہی خوف تھا جسے امریکا میں بالآخر محسوس کرلیا گیا۔

پومپیو نے آرکٹک کونسل میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا،’’ یہ خطہ طاقت اور مسابقت کا اکھاڑا بن گیا ہے، اور قطب شمالی کی آٹھوں اقوام کو اس نئے مستقبل سے ہم آہنگ ہونا ہوگا۔ ہم اسٹریٹیجک آویزش کے ایک نئے دور میں داخل ہورہے ہیں۔۔۔۔ جہاں قطب شمالی اور اس کی حقیقی ریاستوں اور اس خطے میں ان کے مفادات کے لیے نئے خطرات موجود ہیں۔‘‘

مسئلہ یہ ہے کہ اگر پومپیو قطب شمالی کو میدان سمجھتے ہیں جہاں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی جاسکتی ہو تو پھر کچھ اقوام یہ دوڑ شروع کر بھی چکی ہیں۔

کنگ ولیم جزیرے پر رینجرز مغرب میں اسنوموبائلوں کی ایک طویل قطار کی صورت میں سفر کررہے تھے۔ کچھ چوبی برف گاڑیوں (سلیج) کو بھی کھینچ رہے تھے جن پر اشیائے خورونوش، کیمپنگ کا سامان اور عسکری آلات لدے ہوئے تھے۔

میں اس قافلے میں مستعار لی گئی اسنوموبائل پر سوار شامل تھا۔ تاریک تارین رات میں کئی گھنٹوں کے انتہائی دشوار سفر کے بعد بالآخر ہم ایک منجمد جھیل پر پہنچ گئے جو Kakivakturvik کہلاتی ہے۔ ہیڈلیمپ اور ہیڈلائٹس سروں پر جمائے ہوئے رینجرز منجمد جھیل پر پھیل گئے اور سخت برفانی سطح پر کینوس سے بنے بڑے بڑے خیمے گاڑنے لگے۔ خیمے نصب کرنے کے بعد وہ برف گاڑیوں پر سے رینڈیئر کی کھالیں، ترپالیں کھینچ لائے۔ پھر فوم کے گدے، سلیپنگ بیگ، اور خوراک سے بھرے ہوئے کولر اٹھاکر لائے گئے۔

کچھ ہی دیر کے بعد خیمے جدید لال ٹینوں کی روشنی سے جگمگانے لگے۔ کچھ خیموں سے مٹی کے تیل کے چولہوں کے جلنے کی مخصوص آوازیں بھی سنائی دینے لگی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں بھاپ اڑاتے چائے کے کپ ایک دوسرے کو تھمائے جانے لگے۔

سلیج کو کھینچنے والے کئی پسندیدہ کتوں کی کہانیاں سنائی گئیںجس کے بعد رینجرز ایک بار پھر کُھلی فضا میں آگئے۔ چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں وہ منجمد جھیل کی سطح پر بکھر گئے۔ انھوں نے اوزاروں کی مدد سے قریباً ایک فٹ دبیز برف کی تہہ میں چوڑے سوراخ کیے اور پھر مچھلی پکڑنے کے جال تاریک دکھائی دینے والے پانی میں ڈال دیے۔

قطب شمالی کے کینیڈا کی حدود میں آنے والے علاقے میں رینجرز عسکری مشقوں کے ساتھ ساتھ روایتی سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں جیسے جانوروں اور مچھلیوں کا شکار اب بھی اس خطے میں روزمرّہ زندگی کا جزولازم ہے۔

آئندہ کئی روز تک مارون کا گروپ فوجی مشقوں، جی پی ایس آلات کے استعمال اور ان سرگرمیوں کے درمیان توازن لانے کی کوشش کرتا رہا۔  بحرمنجمد شمالی کے اوپر منہ زور ہوائیں چل رہی تھیں اور ٹنڈرا کے میدانوں میں کہر کی دبیز تہہ اور بادل گویا نیچے اترآئے تھے۔ درجۂ حرارت دو بار بلند ہوتا ہوا نقطۂ انجماد کی طرف بڑھا مگر پھر گر کر صفر سے بہت نیچے چلاگیا۔ نومبر کے آخری ایام میں درجۂ حرارت کے بلندی اور پستی کی جانب سفر کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہمارے شب و رو ز اب کیمپ اور اس کے ارد گرد کی سفید و سرمگیں دنیا تک محدود ہوکر رہ گئے تھے۔

دن کا آغاز و اختتام مچھلی کے شکار ہی پر ہوتا تھا۔ یہاں چار مچھلیاں (پہاڑی ٹراؤٹ ) اتنی کثیر تعداد میں تھیں کہ ہر خیمے کے پہلو میں پکڑی گئی مچھلیوں کا ڈھیر تیزی سے وسیع ہوتا جارہا تھا۔ ہمیں جب بھی بھوک لگتی تو بس خیمے کے دروازے سے ہاتھ باہر نکالتے اور ایک مچھلی اندر کھینچ لیتے۔کبھی کبھار ہم مچھلیوں کے ٹکڑے کرکے ان کا سوپ بھی بنالیتے ہیں۔ اکثر اوقات ہم انھیں کچا ہی کھاتے تھے۔ مارون انھیں’منجمد سوشی‘ کہتا تھا۔ ٹراؤٹ مچھلیاں پکنے پر بے حد لذیذ ہوتی ہیں، مگر کچی اور جمی ہوئی حالت میں کھانے پر مجھے بے ذائقہ معلوم ہوتی تھیں۔

مچھلی کے شکار کے علاوہ ہمارا وقت چھوٹے موٹے کاموں میں صرف ہورہا تھا۔ سورج چند ہی گھنٹوں کے لیے نکلتا تھا۔ اس کی ناتواں روشنی میں ہم برف کو پگھلا کر پینے کے پانی کی شکل دیتے تھے۔

برف کا فرش نرم پڑجانے پر خیموں کو دوسری جگہ منتقل کرتے تھے۔ غضب ناک سرد موسم میں اسنوموبائلز میں بار بار کوئی نہ کوئی نقص پیدا ہوجاتا تھا۔ ایک روز کیمپ کے قریب ایک قطبی ریچھنی اپنے دو بچوں کے ساتھ نمودار ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد کسی فرد کا رفع حاجت کے لیے تنہا باہر جانا مشکل ہوگیا جو رگوں میں خون جمادینے والی سردی میں پہلے ہی آسان نہیں تھا۔

میرا خیمہ تین افراد کے لیے تھا: میں، مارون ایٹکیٹک اور اس کا چوہتر سالہ باپ جیکب، جو جوا ہیون کے سب سے معروف شکاریوں میں شمار ہوتا تھا۔ جیکب ایٹکیٹک نے ایک اگلو میں جنم لیا تھا۔ اس کی انگریزی سے واقفیت صرف چند لطائف تک محدود تھی جو وہ کبھی کبھار سنا دیتا تھا۔ اپنی زندگی میں جیکب نے بارہا بے رحم سرد موسم، بھوکے ریچھوں اور فراسٹ بائٹ کا سامنا کیا تھا۔

کئی بار اس کی کشتی کو حادثات پیش آ ئے اور وہ قحط سالی میں بھی زندہ رہا تھا جو بہت سے انوایٹ افراد کی زندگیاں نگل گئی تھی۔ ہر صبح وہ ہم سے پہلے بیدار ہوجاتا تھا۔ اور اس بڑے گدے کے کنارے پر بیٹھ کرجس پر ہم تینوں سوتے تھے، بغیر خمیر کیے ہوئے آٹے کی میٹھی چپاتیاں پکاتا تھا۔ اس دوران وہ اپنی مادری زبان میں مناجات بھی پڑھتا رہتا تھا۔  ایک شام جب ہم اپنے سلیپنگ بیگز میں گھسے ہوئے تھے، مارون نے مجھے بتایا کہ ایک بار اس نے قطب شمالی سے نکل جانے کی کوشش کی تھی۔

اسے جنوبی کینیڈا میں ایک اسکول کے بارے میں پتا چلا تھا جہاں چھوٹے انجنوں کی مرمت کرنا سکھایا جاتا تھا۔ تاہم کئی برس قبل اس کے بھائی کو گھر سے کینیڈا کے بدنام زمانہ رہائشی اسکولوں میں سے ایک میں لے جایا گیا تھا جہاں علاقائی علم و فنون اور مقامی روایات کو ظالمانہ طور سے مسترد کردیا جاتا تھا۔ اس تجربے سے سبق لیتے ہوئے مارون کے باپ نے اسے ہدایت کردی تھی کہ وہ کہیں جانے کے بجائے گھر ہی پر رہے، اپنے روایتی طور طریقے سیکھے اور خاندان کو مکمل رکھے۔

مارون کو اپنے اس فیصلے پر کبھی افسوس نہیں ہوا۔ وہ اب خود ایک باپ اور جوا ہیون میں رضاکار فائرمین تھا۔ اسے ٹیلی فون لائنوں کی مرمت کرنے والی کمپنی میں نوکری مل گئی تھی اور وہ اپنے باپ سے بھی جو کچھ سیکھ سکتا تھا، سیکھ رہا تھا۔ جیکب کو ورثے میں سادہ اور قدیم قطب شمالی ملا تھا جب کہ مارون ایک ایسے قطب شمالی میں پروان چڑھا جو اس کے جوان ہونے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ ہوتا چلاگیا تھا۔ جہاں مواقع کم اور منشیات کا استعمال زیادہ تھا۔ اور جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جیسی جدید ٹیکنالوجی کی رسائی ہوچکی تھی۔

مارون کو یہ ادراک ہوچکا تھا کہ اس کا قطب شمالی ایک نئی ہیئت اختیار کررہا تھا۔ وہ پڑھتا تھا کہ برف پگھل رہی ہے، اور یہ کہ اس خطے میں ایک اور جنگ چھڑ سکتی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے آبائی خطے کا موسم وہ نہیں رہا جو اس کے بچپن میں ہوا کرتا تھا۔

اگرچہ موسم اتنا گرم نہیں ہوا تھا مگر ناقابل پیش گوئی ضرور ہوگیا تھا۔ جہاں تک اس ’گولڈ رش‘ کی بات تھی جس کے بارے میں مارون سنتا رہتا تھا تو اس کے خیال میں ایسا کچھ ہو نہیں رہا تھا۔’’یہ تمام باتیں محض فرض کی جارہی ہیں،‘‘ مارون نے مجھے خطے کے پوشیدہ خزانوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے نئے انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور ممکنہ ملازمتوں کی پیش گوئیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔’’ میں کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کررہا۔ نہ ہی میں خود کو اس کا جزو سمجھتا ہوں۔‘‘

اگلی صبح میں، مارون، جیکب کچھ دوسرے رینجرز کے ساتھ اسنوموبائلز پر رینڈیئر کے شکار کے لیے نکلے تھے کہ شدید برفانی طوفان نے آلیا۔ برفانی ہوا ہمیں اڑائے دے رہی تھی۔ آسمان سے برستی برف نے حدنگاہ اتنی محدود کردی تھی کہ چند فٹ سے آگے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بہ دقت تمام ہم جیکب کی راہ نمائی میں کئی گھنٹے کے بعد کیمپ واپس پہنچ سکے تھے۔

میں اپنی اسنوموبائل پر جیکب کے پیچھے تھا۔ گاگلز پر جمی برف کی تہہ نے مجھے قریب قریب نابینا کردیا تھا۔ جو گرم ماسک میں نے سر اور چہرے پر چڑھا رکھا تھا، طوفان میں کسی لمحے اس کا کچھ حصہ سرک گیا تھا اور مجھے اس حصے کی جلد پر شدید جلن کا احساس ہورہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے دہکتا ہوا سکہ جلد پر رکھ دیا ہو۔ اس کے باوجود میں مارون کے پیچھے پیچھے تھا۔ کئی گھنٹوں تک طوفان سے نبردآزما رہنے کے بعد جب خیمے میں سکون کے لمحات میسر آئے تو جیکب نے میرے چہرے فراسٹ بائٹ کو دیکھا، اسے اپنے انگوٹھے سے دبایا اور کہا،’’تمھیں یہاں آنے کی معمولی قیمت چکانی پڑگئی۔‘‘

قطب شمالی کے اس نئے محاذ کی ابتدا اگست 2007ء کی ایک پُرسکون صبح اس وقت ہوئی جب روس کی دو چھوٹی آبدوزیں چودہ ہزار فٹ نیچے بحر منجمد شمالی کی تہہ میں پہنچیں اور قطب شمالی میں ٹائٹینیم سے بنا روسی پرچم گاڑ دیا۔ پرچم کی تصاویر نشر ہوتے ہی مغرب نے روس کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔

2007ء تاریخ ارضی کے گرم ترین سال میں سے ایک تھا۔ صرف ایک ماہ بعد مصنوعی سیارے کے ذریعے بحرمنجمدشمالی پر نگاہ رکھنے والے سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ سمندری برف سکڑ کر اب تک مشاہدہ کیے گئے کم ترین پھیلاؤ پر آگئی ہے۔ سدرن کیلے فورنیا یونی ورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر جوناتھن مارکوٹز کہتے ہیںکہ یہ انسانی تاریخ میں قطب شمالی کی برف کا سب سے بڑا ضیاع تھا جس کی پیش گوئی موسمی تغیر کے جارح ترین ماڈل بھی نہیں کرسکے تھے۔

پروفیسر کے مطابق اس انکشاف نے ہر ایک کو یہ باور کرادیا تھا کہ برف تیزی سے غائب ہورہی تھی، اور پھر کچھ اقوام نے اس ضمن میں اقدام کرنے شروع کردیے۔‘‘آج روس قطب شمالی کی غالب طاقت بن گیا ہے۔ اس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا بحری بیڑا ہے جو انتہائی شمالی حصے کے پانیوں میں پورا سال سرگرمیاں جاری رکھ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں دائرہ قطب شمالی پر روس کے درجنوں فوجی اڈے قائم ہیں۔ اس کے برعکس امریکا کا قطب شمالی میں محض ایک فوجی اڈہ، ایک ایئرفیلڈ اور شمالی گرین لینڈ میں مستعار لیا گیا قطعۂ ارضی ہے۔

روس نے شمال میں نئے فوجی اہلکار تعینات کردیے ہیں، آب دوزوں کی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں، اور اس کے جنگی طیارے پھر سے قطب شمالی کی فضاؤں میں لوٹ آئے ہیں اور باقاعدگی سے ناٹو کی فضائی حدود سے شور مچاتے ہوئے گزرتے ہیں۔ تاہم مارکوٹز اور کئی دیگر محققین نے مجھے بتایا کہ شمال میں روسی سرگرمیاں اس کے عالمی مقاصد سے زیادہ داخلی منصوبوں کی آئینہ دار ہیں۔

قطب شمالی کی روسی حدود میں دو کروڑ شہری بستے ہیں۔ یہاں Murmansk اور Norilsk سمیت بڑے بڑے شہر ہیں۔ کینیڈا اور امریکا کی قطب شمالی کی مجموعی آبادی پچاس لاکھ سے بھی کم ہے۔ امریکی حدود میں قطب شمالی میں سب سے بڑا قصبہUtqiavik ہے جسے پہلے Barrow کہا جاتا تھا۔ اس کی آبادی محض چار ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ مارکوٹز کاکہنا ہے کہ روسی معدنی وسائل پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں اسی لیے وہ قطب شمالی کو مستقبل کے معدنی وسائل کے منبع کے طور پر دیکھتے ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں واقع سمسن سینٹر میں سینیئر فیلو یُن سن کے مطابق قطب شمالی میں چینی سرگرمیوں کے پھیلاؤ کے پس پردہ بھی زمین پر نہیں بلکہ وسائل پر مرتکز حکمت عملی ہے۔ یُن نے مزید کہا کہ تیل و گیس کے روسی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے علاوہ چین خاص طور سے نئی سمندری گزرگاہوں تک رسائی حاصل کرنے میں دل چسپی رکھتا ہے جن کے ذریعے ایشیائی بندرگاہوں اور یورپی مارکیٹوں کے درمیان سامان کی نقل و حمل کا عرصہ دو ہفتے تک کم ہوجائے۔

گذشتہ جنوری میں چینی حکومت نے قطب شمالی کے بارے میں چینی عزائم کے خاکے پر مشتمل وائٹ پیپر شایع کیا تھا۔ اس وائٹ پیپر میں چین نے خود کو ’ قطب شمالی کی نزدیکی ریاست‘ قرار دیا تھا جو دیگر اقوام کے اشتراک سے تجارت اور تحقیق کی غرض سے ’قطبی شاہراہ ریشم‘ تعمیر کرنے کی خواہاں ہے۔ ’’ یہ معاملہ بہت احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے،‘‘ سن نے مجھ سے کہا۔ ’’ میں تمھیں اس کا لفظی ترجمہ بتاؤں گی جو چینیوں نے مجھ سے کہا تھا۔ انھوں نے کہا تھا ’ہمیں معلوم ہے کہ ہم قطب شمالی پر کوئی دعویٰ نہیں کرسکتے، لیکن اگر ہم وہاں سے کچھ حاصل کرسکتے ہیں تو پھر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘ ‘‘

اس نئے محاذ کے ساتھ ساتھ مسافت طے کرتے ہوئے سرد جنگ سے مماثلت کے تمام پہلو معدوم ہوتے چلے گئے۔ قطب شمالی، شمالی امریکا کی اقوام کے دماغ سے غائب تھا۔ دہائیاں گزرگئیں مگر امریکا اور کینیڈا نے اپنے شمالی علاقوں کو ترقی دینے اور مقامی آبادی پر سرمایہ لگانے پر توجہ کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حتیٰ کہ پومپیو کی مواقع کی زبان سے پُر تقریر بھی کھیل میں آخر میں شامل ہونے والے کھلاڑی کی منصوبہ بندی کے اظہار سے زیادہ ایک تنبیہہ لگ رہی تھی۔

یہ رویہ اکثر اوقات قطب شمالی کے باسیوں کے لیے توہین آمیز ہوتا ہے، بالخصوص اس وجہ سے کہ مواقع کے وعدوں میں ہمیشہ انھیں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ کینیڈا کے Nunavut Territory کے بڑے جو ساوی کٹاک اس وقت مارون ایٹکیٹک کے ہمنوا بن گئے جب اس نے مجھے بتایا کہ نئے قطب شمالی کے منصوبوں میں  انوایٹ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ جو نے کہا،’’ہم خوش ہیں اور کینیڈا کا جزو ہونے پر فخر کرتے ہیں مگر ہم خود کو وہ بڑا بھائی محسوس کرتے ہیں جس کے حصے میں کاٹھ کباڑ کے سوا کچھ نہیں آتا۔‘‘

ساوی کٹاک نے صحت، روزگار کے مواقع، ٹیکنالوجی، ثانوی تعلیم سمیت متعدد شعبے گنوادیے جن میں قطب شمالی کے باسی جنوبی آبادیوں سے پیچھے رہ گئے تھے۔ پھر جو نے ان چند پہلوؤں کا تذکرہ کیا جن میں شمال، جنوب سے آ گے تھا۔ ان میں برف کا غیاب، رہنے سہنے کی لاگت، درجۂ حرارت میں اضافے کی شرح، خودکشیوں کی شرح شامل تھے۔ جو نے کہا کہ اس بار جو کچھ بھی ہونے والا ہے وہ سب سے پہلے انھیں متأثر کرے گا۔ اس نے کہا،’’میں اس بارے میں کچھ زیادہ کہنے کا متمنی نہیں کہ روس، چین یا امریکا کیا کرنا چاہتے ہیں یا کیا کرسکتے ہیں۔ ہم اتنے چھوٹے اور ہمارے وسائل اتنے محدود ہیں کہ ہماری حیثیت محض تماش بینوں کی سی ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں خود کو حتی المقدور تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرلیں۔‘‘

ایک ہفتے کے بعد موسم قدرے بہتر ہوا تو مارون ایٹکیٹک نے فیصلہ کیا کہ یہ وقت روسیوں کو نشانہ بنانے کے لیے بہت موزوں تھا۔ وہ سابق کینیڈین انفنٹری مین اور رینجر پروگرام کے انسٹرکٹر سارجنٹ ڈین لشمین کے ساتھ مل کر بھورے رنگ کے گتے کے بڑے بڑے ٹکڑوں کا گٹھڑ کھینچتا ہوا لے آیا۔ اس گٹھڑ میں بندھے ہوئے گتے کے ٹکڑے دراصل قدآدم فوجیوں کے کٹ آؤٹس ( cut out) تھے۔ انھیں کیمپ کے باہر لے جاکر برف میں گاڑ دیا گیا۔ یہ کاغذی فوجی حملہ کرنے کی پوزیشن میں آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے منھ چلانے کے انداز میں کھلے ہوئے تھے اور رائفلوں کا رخ سامنے دشمن کی جانب تھا۔

مارون نے بتایا کہ ان کاغذی اہداف کو سردجنگ کے دوران ناٹو افواج کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس نے سو گز کے فاصلے پر برف میں ایک لکیر کھینچی اور اپنے سپاہیوں کو ترتیب سے اس کے ساتھ ساتھ کھڑا کردیا۔ اس نے ہر رینجرکو مٹھی بھر گولیاں دے دی تھیں۔ رینجرز نے اپنی قدیم رائفلیں لوڈ کرنے کے بعد گھٹنے زمین پر ٹکا کر شست باندھی اور اپنے اپنے ہدف کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ مارون کا کہنا تھا کہ پرانی رائفلوں کا فائدہ یہ ہے کہ متحرک حصے کم ہونے کی وجہ سے یہ منجمد نہیں ہوتیں اور انتہائی منفی درجۂ حرارت میں بھی کارآمد رہتی ہیں۔

میں نے لشمین سے پوچھا جو کئی بار افغانستان کو بھیجے جانے والے جنگی دستوں کا حصہ رہ چکا تھا، کہ کیا اس کے خیال میں قطب شمالی میں سرد جنگ چھڑنے والی ہے۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے جواب دیا،’’عسکری نقطۂ نظر سے یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ تم نے دیکھ ہی لیا ہے کہ ہم نے یہاں کتنا وقت صرف بنیادی نوعیت کے کاموں میں صرف کیا ہے۔

کتنی ہی بار اس سرد جہنم میں آلات اور دوسرا سامان خراب ہوا ہے۔ یہاں تو صرف زندہ رہنے کے لیے ہی بے پناہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ان حالات میں مجھے کسی سرد جنگ کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔‘‘کینیڈین رینجرز کا قیام پہلی سردجنگ کے دوران عمل میں آیا تھا جب عسکری منصوبہ سازوں کو بیلسٹک میزائل اور خلائی دوڑ کے خوف کی وجہ سے قطب شمالی کی صورت میں اپنی پشت کمزور محسوس ہوئی تھی۔ تاہم بذات خود رینجرز کا مقصد کسی حملہ آور فوج سے مقابلہ کبھی نہیں رہا۔ آج بھی زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ قطب شمالی کے کان اور آنکھیں چینی برف شکن جہازوں، مسافر اور باربردار دیوہیکل کشتیوں کو بحرمنجمد شمالی میں محوسفر دیکھنے پر ہی اکتفا کریں گی۔

فائرنگ لائن پر موجود ایک رینجر پاؤل اکولاک تیس برس سے اس پروگرام میں بہ طور رضاکار خدمات انجام دے رہا ہے۔ سوویت یونین کے زمانے میں اس نے ناٹوفوجیوں کی تربیت میں معاونت کی تھی۔ چوڑے دہانے والے خوش اخلاق پاؤل کو بھی یقین نہیں تھا کہ یہ خطہ کبھی جنگ کی لپیٹ میں آئے گا۔

اس سلسلے میں میری ناٹو حکام سے بھی بات چیت ہوئی تھی۔ ان میں سے بیشتر کا خیال تھا کہ روس قطب شمالی میں جنگ چھیڑ کر رہے گا۔ کچھ کی رائے تھی کہ جنوب میں کہیں جنگ چھڑے گی جو بالآخر قطب شمالی تک پھیل جائے گی۔ اس ضمن میں کچھ نے کریمیا پر روس کے قبضے اور بحیرۂ جنوبی چین میں چین کے جارحانہ اقدامات کا بھی حوالہ دیا۔ تاہم بہت سے غیرفوجی اذہان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک مختلف قطب شمالی کے لیے امید ہنوز موجود ہے جو سردجنگ کا میدان کم اور انٹارکٹیکا یا خلا سے زیادہ مشابہ ہوگا۔ ان دونوں خطوں (انٹارکٹیکا اور خلا) میں، جو دونوں محاذ بھی بنے ہوئے ہیں، بین الاقوامی معاہدوں اور طویل فاصلوں نے سیاسی کشمکش کے اثرات کی شدت کو کم کردیا ہے۔

برٹش کولمبیا یونی ورسٹی کے پروفیسر مائیل بائرز کہتے ہیں،’’جن ممالک کو کہیں اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے وہ بالآخرد سرد، تاریک، خطرناک اور مہنگے خطوں میں ایک دوسرے سے تعاون پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ تعاون کی یہ ضرورت تعاون کی روایت کو جنم دے دیتی ہے۔‘‘

یہ کیمپ میں ہماری آخری شام تھی۔ سورج غروب ہوجانے کے بعد نوجوان انیوایٹ کا ایک چھوٹا سا گروپ اسنوموبائلز پرسوار نمودار ہوا اور ہمیں دیکھ کر نعرے بلند کیے۔ رینجرز نے خوش دلی سے ہاتھ ہلاکر ان کے نعروں کا جواب دیا۔ کچھ ہی دیر بعد فضا میں سگریٹوں کا دھواں لہرانے لگا تھا۔ موسم سرد مگر قدرے بہتر تھا۔ نوجوانوں کا یہ گروپ مغرب میں رینڈیئر کے شکار میں مصروف رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ایک اور نوجوان اسنوموبائل پر نمودار ہوا۔ اپنی گاڑی سے اتر کر وہ عجلت بھرے انداز میں آگے بڑھتا ہوا ٹھوکر کھاکر گر پڑا۔ اس نے مختصر سے مجمع کو اپنے ساتھی کے بارے میں بتایا جس کی سلیج وہ اپنے اسنوموبائل کے پیچھے باندھ کر کھینچ رہا تھا۔ نوجوان نے بتایا کہ ایک جگہ اس نے اچانک پیچھے دیکھا تو سلیج خالی تھی۔ یقیناً پیچھے سوار نوجوان سلیج پر سے کہیں گرگیا تھا۔ مارون اور دوسرے رینجرز نے مزید تفصیلات بتانے کے لیے کہا مگر نوجوان کے پاس اس سے زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ نوجوانوں کا یہ گروپ دراصل رینجرز کا تربیت یافتہ سرچ اینڈ ریسکیو مشن تھا۔ چند ہی لمحوں کے بعد دو رینجرز ریسکیومشن کے ساتھ روانہ ہوگئے۔

ہم ان کی اسنوموبائلز کی ہیڈلائٹس سے خارج ہونے والی روشنی کو تاریکی میں غائب ہوتے ہوئے دیکھتے رہے۔ ہم میں سے بیشتر ٹہلتے ہوئے اپنے خیموں میں واپس آگئے۔ ہم نے چائے بنائی۔ مارون فکر مند ضرور تھا مگر بہت زیادہ نہیں کیوں کہ گم شدہ نوجوان اسی سرزمین پر پلا بڑھا تھا اور جانتا تھا کہ اس برف زار میں تنہا رہ جانے پر کیا کرنا چاہیے۔ میرے پردۂ تصور پر چند روز قبل کیمپ کے قریب نمودار ہونے والی ریچھنی کی شبیہہ اُبھر آئی۔ میں سوچنے لگا کہ اس سے مڈبھیڑ ہونے پر نوجوان کیا کرے گا۔

(بشکریہ نیشنل جیوگرافک)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔