پاکستان، امریکا اور ٹام اینڈ جیری

عبدالقادر حسن  جمعـء 25 اکتوبر 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

بچوں کا ایک بہت ہی مشہور امریکی کارٹون ہے ’’ٹام اینڈ جیری‘‘ یعنی بلی اور چوہا۔ یہ دونوں ہر وقت لڑتے رہتے ہیں، ایک سیکنڈ کے لیے بھی لڑائی سے باز نہیں آتے۔ ان کی اسی جاری لڑائی پر کارٹون ختم ہو جاتا ہے لیکن بتاتا ہے کہ اس قدر دشمنی اور مار کٹائی کے باوجود وہ ایک دوسرے سے دور نہیں رہ سکتے۔ لہو لہان ہوتے رہتے ہیں مگر جدا نہیں ہوتے۔ ان کا یہ  دلچسپ تعلق بے حد تعجب انگیز اور مشہور ہے۔ دلی میں ایک سیمینار میں بھارت اور پاکستان کے تعلق سے جب یہ کارٹونی لطیفہ سنایا گیا تو بات بڑی آسانی کے ساتھ واضح ہو گئی کہ یہ دو ملک نہ تو صلح و صفائی اور امن و امان کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے سے جدا ہو سکتے ہیں۔ وہی بات کہ دشمن اور دوست تو بدلے جا سکتے ہیں مگر پڑوسی نہیں۔ یہ لطیفہ امریکا اور پاکستان پر پوری طرح صادق تو نہیں آتا لیکن بقول جنرل ڈی گال امریکا چونکہ ہر ملک کا پڑوسی ہے اس لیے اسے پاکستان کا بھی پڑوسی ہی سمجھئے اور جہاں تک دونوں ملکوں کا باہمی تعلق ہے تو پڑوسیوں سے بھی بڑھ کر ہے۔

ابھی کل ہی ہمارے وزیر اعظم امریکا کے دورے سے لوٹے ہیں اور امریکی صدر اوباما سے ملے ہیں جن کو پاکستان کا قیمہ دال بہت پسند ہے مگر افسوس کہ صدر امریکا نے ہمارے وزیر اعظم کو ڈنر نہیں کھلایا۔ نہ رسمی ڈنر نہ ذاتی دال قیمہ والا۔ ہمارے ہاں تو کوئی مہمان آ جائے اور بڑا آدمی بھی ہو تو ہم اسے کھلا کھلا کر  سوء ہضم کا مریض بنا دیتے ہیں اور وہ ہاضمے کے چورن کھاتا پھرتا ہے۔ چلیے ہمیں یہ تو پتہ چل گیا کہ امریکی صدر جب کبھی کراچی میں مقیم تھے تو ان کا دوست انھیں دال قیمہ کھلایا کرتا تھا جو انھیں آج تک پسند ہے۔ اچھا ہوا ہمیں پتہ چل گیا اب ہم اعلیٰ درجے کا قیمہ پکوا کر ان کی خدمت میں بھجواتے رہیں گے اور دال تو دنیا کے اِس علاقے کا ایک مرغوب کھانا ہے۔ شہنشاہ بابر نے بھی اس کا ذکر کیا ہے اور جب اس نے گندم کی چپاتی کے ساتھ لوگوں کو دال کھاتے دیکھا تو تعجب کیا کہ یہاں لوگ اناج کے ساتھ اناج کھاتے ہیں یعنی گندم کی روٹی اور دال جو ایک اناج ہے۔ ماضی کے ایک شہنشاہ بابر نے اور آج کے شہنشاہ اوباما نے دال کو زندہ جاوید کر دیا ہے یعنی زندہ تو وہ پہلے ہی تھی اس کو شاہی خلعت عطا کر دی ہے۔

امریکا سے ہمیں جو مال و منال ملنا تھا اس کا تو پہلے ہی پتہ چل گیا تھا، ہم افغان جنگ میں جو نقد خرچ کرتے رہے اور اپنے رسل و رسائل کی جو تباہی کراتے رہے اس کا معاوضہ تو ہمیں کیا ملتا بس شاباش مل گئی ہے۔ ویسے امریکی کسی کو ملازمت بھی دیتے ہیں تو اس سے پہلا سوال یہ کرتے ہیں کہ تمہاری  تنخواہ کا پتہ تو درخواست سے چل گیا، اب بتائو تم اس ملازمت میں ہمیں کیا دو گے یعنی ہمارے لیے کیا کمائو گے اور ہمیں تمہاری ملازمت سے کیا ملے گا۔ امریکا سرمایہ دار نظام کا ایک نمایندہ ملک ہے۔ وہاں لینے دینے سے کام چلتا ہے۔ ہم ایشیائی یا مشرقی لوگوں کی طرح بے وقوف نہیں کہ تعلقات اور صاحب سلامت کی بھی قدر کریں اور ممکن حد تک مالی ایثار بھی۔ مشرقی سوسائٹی میں زندگی اسی طرح گھل مل کر چلتی ہے۔ میں ایک بار ایک ٹیم کے ساتھ امریکا گیا۔ اس میں ایک افریقی بھی شامل تھا جو ریزگاری جیب میں ضرور رکھتا تھا، ایک بار میں نے پوچھا کہ تم یہ سکے کیوں سنبھال کر رکھتے ہو، اس نے بڑے غصے سے جواب دیا کہ یہاں کسی کو ہیلو بھی کہو تو وہ کہتا ہے کہ کچھ دو تو جواب دوں گا۔ ائر پورٹ پر پہلی بار جب ٹرالی کو ہاتھ لگایا تو وہ ہلی نہیں ،کسی نے کہا کہ اس میں ایک ڈالر کا نوٹ ڈالو تو کھلے گی۔ اس تجربے کے بعد تو ہم رواں ہو گئے لیکن پھر بھی مشرقیت کہاں جاتی، ایک یاد گاری اور خیراتی قسم کا ڈنر ہوا، اس میں شرکت کے بعد پتہ چلا کہ اس کی فیس بھی ہے اور وہ ہے پانچ ڈالر۔  قدرے حیرت کے ساتھ ادا کر دی۔

ہم مشرق کے مسکینوں کو اسی امریکا سے واسطہ ہے اور ہم اس سے کچھ لینا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اسے دیں گے کیا کیونکہ ’فری لنچ‘ قسم کی کوئی چیز امریکا میں نہیں ہوتی۔ وہ تو امریکا اپنی ہوس ملک گیری میں پھنس گیا ہے اور پھنسا بھی افغانستان میں۔ کبھی غلام نہ رہنے والے آزاد منش افغان بارہ برسوں سے امریکا کے 14ء کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ بالآخر تھک ہار کر یہاں سے رخت سفر باندھے گا اور یہ بے اندازہ رخت سفر پاکستان کے راستے سے گزرے گا۔ اب اس دلچسپ صورت حال کو اسحاق ڈار جانیں یا واپسی کا سفر اختیار کرنے والے امریکی لشکر اور ان کے ہتھیار، ہم پاکستانیوں کی خواہش تو یہ ہے کہ زیادہ نہیں تو اپنی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں وغیرہ نئی بنوا لیں، افغان مہاجرین پر جو خرچہ آیا ہے اور افغانستان میں یعنی ہمارے پڑوس میں ہماری دیوار کے اس پار جو ہنگامہ گزشتہ بارہ برسوں برپا چلا آ رہا ہے اور جس کے شعلے اور پتھر ہمارے ہاں بھی گرتے رہے ہیں، اس کا خرچہ کچھ تو وصول کریں۔ باقی امریکا کو فتح کرنے کا فرض اپنے جوشیلے علماء وغیرہ پر چھوڑ دیں جو امریکی سفیر سے وزارتوں کی سفارشیں کراتے ہیں، مختصراً مطلب یہ ہے کہ امریکا نے ہمارے پڑوس میں اور ہمارے خرچ پر جو تماشا اور تھیٹر لگایا ہے اس کا کچھ صلہ تو ہمیں بھی ملے۔ اگر امریکا صرف تھینک یو کہہ کر چلا گیا اور اس کی الوداعی ’ہائے ہائے‘ ہی سنائی دیتی رہے تو اس پاکستانی حمایت کی سزا کون بھگتے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔