وزیراعظم کے دورۂ امریکا پر بچگانہ سوال

نصرت جاوید  جمعـء 25 اکتوبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پاکستان کا تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نواز شریف صاحب نے اپنا پہلا دورہ امریکا بھی کر لیا۔ وہاں سے کیا لے کر آئے؟ یہ ایک ایسا بچگانہ سوال ہے جو آیندہ کئی روز تک ہماری ٹی وی اسکرینوں پر شدومد سے اٹھایا جائے گا۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے وزارتِ خارجہ کے ان ریٹائرڈ افسران کو مدعو کیا جائے گا جنہوں نے جنرل ضیاء کے دنوں سے لے کر جنرل مشرف کی چھتری تلے ’’قومی مفادات‘‘ کی بڑی نگہبانی کی۔ ان میں سے اکثر کے بچے اب اس ملک میں نہیں رہتے۔ ’’ابوجی‘‘ کی فارن پوسٹنگوں کے طفیل بڑے نام والی غیر ملکی یونیورسٹی میں پڑھے ہیں۔ اب امریکا، یورپ یا دبئی میں بیٹھ کر گلوبل کمپنیوں کی نمایندگی کرتے ہیں یا اپنی ذہانت کے بل بوتے پر کامیاب کاروبار کر رہے ہیں۔ ’’سِوّل‘‘ خیالات میں توازن پیدا کرنے کے لیے جانے پہچانے پانچ سے چھ ریٹائرڈ فوجی افسران بھی ٹی وی پروگراموں میں بٹھا دیے جائیں گے۔ ان دونوں شعبوں سے آئے یہ معزز مہمان بڑی رعونت سے ہمیں بتائیں گے کہ نواز شریف صاحب نے امریکا روانہ ہونے سے پہلے کوئی خاص ہوم ورک نہیں کیا۔ بہتر ہوتا وہ ان جیسے ’’تجربہ کار‘‘ لوگوں سے ایک طویل ملاقات کرتے اور ایسی غلطیوں سے اجتناب کرتے جو انھوں نے مثال کے طور پر امریکی وزیر خارجہ کے دفتر خود تشریف لے جا کر فرمائی۔

’’پروٹوکول‘‘ کا تقاضہ تھا کہ جان کیری خود ان سے ملنے آتے۔ قومی غیرت بھی ایک چیز ہوا کرتی ہے اور امریکا جیسی طاقتوں سے معاملات طے کرتے ہوئے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان اللہ کے فضل سے عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت بھی ہے۔ چین اس کا یار ہے۔ اس ملک میں سرسبز میدان بھی ہیں اور قیمتی معدنیات سے بھرے پہاڑ بھی۔ تھر کے ریگستان میں اتنا کوئلہ ہے کہ اس سے گیس اور توانائی کے بے پناہ وسائل پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کوئلے کے ان ذخائر کو سونے جیسا بنانے کی لگن میں رات دن مصروف ہیں۔ بیوروکریسی ان کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے اور انھیں مناسب رقوم فراہم کر دی جائیں تو صرف چند ہی سال میں ہم سعودی عرب جیسا امیر ملک بن سکتے ہیں۔ جہاں بجلی ہر جگہ میسر ہو گی اور تقریباََ مفت۔ اور کیا چاہیے؟

جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید صاحب بھی آیندہ چند دنوں میں کافی اینکر حضرات کیRatings بڑھائیں گے۔ وزیر اعظم صاحب نے خود اعتراف کیا ہے کہ ان کے ساتھ اکیلے میں گزارے ہوئے لمحات میں صدر اوباما نے جماعت الدعوۃ کی شکایت لگائی۔ جن اینکرز کو حافظ صاحب میسر نہ آ سکیں وہ لال ٹوپی والے ایک ’’دفاعی ماہر‘‘ کو بلا کر 3-G War کی باریکیاں سمجھتے ہوئے اُمت مسلمہ کو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر متحد کر دیں گے۔ رونق لگ جائے گی۔ مگر صرف ٹی وی اسکرینوں پر۔ دریں اثناء وہ جنھیں ہماری تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر ریاستِ پاکستان کا Stakeholder قرار دیا ہے کہیں نہ کہیں کوئی دھماکہ کر دیں گے۔ TTPکے ترجمان ایسے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کر دیں گے اور پھر عمران خان ہمیں سمجھانا شروع کر دیں گے کہ چونکہ نواز شریف صاحب اپنے دورہ امریکا میں ڈرون حملے روکنے کے حوالے سے صدر اوباما سے کوئی ٹھوس وعدہ حاصل نہ کر سکے، اس لیے ڈرون حملوں کا نشانہ بنے لوگوں کو دہشت گردی کے واقعات جاری رکھنے کا جواز مل رہا ہے۔ بالآخر چوہدری نثار علی خان کو بھی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ہمیں بتانا پڑے گا کہ طالبان کے نام پر متحرک غیر ملکی ایجنٹوں کے چند گروہ بے گناہ لوگوں کو خودکش دھماکوں سے ہلاک کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ سے کوئی یہ سوال نہیں کرے گا کہ اپنے پانچ سے زیادہ مہینے والے اقتدار کے دوران وہ ان غیر ملکی ایجنٹوں میں سے کسی ایک کو بھی گرفتار کر کے ابھی تک ہمارے سامنے کیوں نہ لا سکے۔ مختصر لفظوں میں پنجابی محاورے والی گدھی گھوم گھما کر بالآخر برگد کے اسی درخت تلے آن کھڑی ہو گی جہاں سے رسہ تڑوا کر وہ غائب ہو گئی تھی۔

یہ سب کچھ جو میں نے لکھا ہے بڑا منطقی اور طے شدہ نظر آ رہا ہے۔ مگر پتہ نہیں کیوں مجھے شبہ ہے کہ شاید وزیراعظم کی جانب سے اب کچھ اور طرح کی باتیں سننے اور دیکھنے کو ملیں گی۔ صدر اوباما اور وزیر اعظم کی ملاقات کے فوراََ بعد مجھے یہ بات بڑی عجیب لگی کہ ملاقات کے بعد وہ دونوں وائٹ ہائوس کے لان میں ایک ساتھ چل کر صحافیوں کے سامنے کیوں نہیں آئے۔ دونوں نے اپنی ملاقات والے کمرے میں کرسیوں پر بیٹھے بیٹھے کچھ رسمی کلمات کہے اور صحافیوں کے سوالات نہیں لیے۔ ہاں وطن روانہ ہونے سے پہلے نواز شریف صاحب نے یہ ضرور کہا کہ ’’ہمیں اپنا گھر سیدھا کرنا ہو گا‘‘ اور پھر یہ اعتراف بھی کہ صدر اوباما نے ان کے ساتھ ملاقات میں حافظ سعید صاحب اور ان کی جماعت الدعوۃ کا ذکر بھی کیا۔

پاکستان کے حکمرانوں کو اپنے دیس کے صحافیوں کو اعتماد میں لینے کی عادت نہیں۔ بادشاہوں والی رعونت کے ساتھ وہ تو بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ’’دوٹکے کے صحافی‘‘ ان معاملات کو سمجھ ہی نہیں سکتے جو بہت ’’حساس‘‘ ہوا کرتے ہیں۔ امریکا کے صدر اور دیگر ریاستی ادارے ایسا سوچنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتے۔ ان کی ہوشیاری تو یہ ہے کہ خود خاموش رہتے ہیں مگر اپنے اعتماد والے مگر بہت ہی قابل اعتبار سمجھے جانے والے کسی امریکی صحافی کو ’’کام کی بات‘‘ بتا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر صدر اوباما نے نواز شریف صاحب سے ملاقات کے بعد خود تو صحافیوں سے کوئی سوال نہیں لیا۔ مگر ان کی پاکستان کے وزیر اعظم سے ملاقات کے دوسرے ہی دن ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں ایک لمبی چوڑی کہانی آ گئی۔ اس کہانی کو لکھنے والوں میںBob Woodward بھی شامل تھا۔ یہ وہی صحافی ہے جس نے واٹر گیٹ اسکینڈل کے ذریعے نکسن جیسے طاقتور صدر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔

اسی نامی رپورٹر نے اوباما کی اہم فیصلہ سازی کے بارے میں ایک مشہور کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔ صدر اوباما اکثر اپنے غیر ملکی دوروں میں اسے اپنے جہاز میں بٹھاتے ہیں۔ کئی دفعہ وہ امریکی صدر اور دوسرے اہم عہدے داران کی غیر ملکی سربراہان یا اہم افراد کے ساتھ اجلاسوں میں بھی Deep Background کے لیے مواد جمع کرنے کے نام پر خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا ہوتا ہے۔ اس نے اب ایک ایسی دستاویز ’’دریافت‘‘ کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو اس کی نظر میں یہ ثابت کرتی ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ہر ڈرون حملے کی بابت اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ حملے ان کی ’’فرمائش‘‘ پر بھی ہوتے ہیں۔ یہ کہانی لکھنے سے پہلے اس صحافی نے جب پاکستان کے واشنگٹن میں قائم سفارت خانہ سے رابطہ کیا تو وہاں کسی بھی شخص نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ تبصرہ کرنے کو سی آئی اے والے بھی تیار نہ ہوئے۔ مگر انھوں نے یہ تردد بھی نہ کیا کہ جس دستاویز کو ’’دریافت‘‘ کرنے کا یہ رپورٹر دعویٰ کر رہا تھا اس کو کم از کم غیر مستند قرار دے دیں۔ گویا Woodward  کے پردے میں صدر اوباما نے بتا دیا ہے کہ ڈرون حملے کیوں ہو رہے ہیں اور وہ ان پر اتنا انحصار کرنے پر کیوں مجبور ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔