’’عقلمند عورتیں‘‘ تنقید کی زد میں

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  جمعـء 25 اکتوبر 2013
03332257239@hotmail.com

[email protected]

زبیدہ خانم نے دس سال تک خوبصورت گلوکاری کی، شادی کے بعد شوہر کی خواہش پر وہ گھریلو خاتون بن گئیں، انھیں عقلمند عورت کہاجاسکتاہے؟ یقینا انھوںنے ایک شاندار زندگی گزاری اور انتقال کے بعد خراج تحسین کی مستحق ٹھہری۔ شوہر کی محبت، بیٹوں کا پیار، بیٹیوں وبہوئوں کی الفت اور پوتوں ونواسوں کی چاہت، مجازی خدا کی بات مانی تو خدا نے انھیں کیا کچھ عطا نہ کیا۔ جب ایسی عورتوں کو ذہین اور دانشمند قرار دیاجائے تو حقوق نسواں کی علمبرداروں کو خوش ہونا چاہیے یا تنقید کرنی چاہیے؟ اگر خواتین کو خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے پر سراہاجائے تو عورتوں کی رہنما بننے کی دعویداروں کو اچھا لگنا چاہیے یا برا منانا چاہیے؟ کالم ’’عقلمند خواتین‘‘ میں بے نظیر بھٹو، زیبا بیگم، اداکارہ شبنم، خوش بخت شجاعت، اداکارہ مسرت نذیر اور لیلیٰ زبیری کو دانشمند قرار دیا گیا تھا، ا نہیں اپنا گھر بسائے رکھنے اور خاوند کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے پر خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔

کالم میں جو کچھ کہا گیا تھا اس پر انیس ہارون صاحبہ کو نہ برا منانے کی ضرورت تھی اور نہ تنقید کرنے کی ’’ایکسپریس‘‘ میں بارہ تیرہ سال کی کالم نگاری میں پہلی مرتبہ جواب الجواب کا نا خوشگوار فریضہ انجام دینے کی نوبت آرہی ہے۔کالم میں خواتین کی این جی اوز کی بات کہی گئی تھی جو یورپ وامریکا سے پائونڈ اور ڈالرز لے کر ان کے ایجنڈے پر کام کرتی ہیں، حقوق نسواں کی علم برداروں کو ’’بی جمالو‘‘ قرار دے کر ان پر بسے بسائے گھروں کو توڑنے کے ٹارگٹ پر کام کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، کہا گیا تھا کہ ہمارے خاندانی نظام کو برباد کرکے معاشرے سے شرم وحیا کو رخصت کرنا ان کا مقصد ہے، آزادی کے نام پر آوارگی کا دروازہ کھولنا ان کا ہدف قرار دیا گیا تھا۔ مساوات مرد و زن کی علم بردار خواتین تنظیموں کے فحاشی کے سیلاب تو ہمارے گھروں میں داخل کرنے کے ارادے تو پاکستانی خواتین کے سامنے ظاہر کر دیے گئے تھے، شاید پول کھل جانے پر کچھ برا لگا ہو۔ مشہور خواتین کو ان کے جھانسے میں نہ آنے پر رونا اور شوہر ومعاشرے کے مناسب رویوں کے لحاظ کرنے پر انھیں مدبر قرار دیا گیا تھا۔ بغاوت پر ابھارنے والی تنظیموں کا ذکر ہو تو ماڈرن اور لبرل خواتین کو ناگواری کا احساس تو ضرور ہوگا، اب دیکھیں کہ ایک مرد کے کالم پر ایک عورت نے کیا کہا۔

مرد وعورت کو گاڑی کے دو پہیے قرار دے کر کالم نگار پر گاڑی کو ایک پہیہ سے چلانے کا الزام لگایاگیا۔ محترمہ بھول گئیں کہ کہا گیا تھا کہ ’’فرماں بردار بیوی ہی شوہر کو اپنے تابع رکھ سکتی ہے‘‘ عورت کی تابعداری کرنے والا مرد ایک پہیہ ہو اور مرد کی فرماں برداری کرنے والی عورت دوسرا پہیہ ہو تو گاڑی کو ایک جیسے دو پہیوں سے متوازن انداز میں چلانے کی بات کہی گئی تھی۔ مشرق کے باہمی احترام کو عورت کی کمزوری قرار دینے والیاں یورپی مردوں کی ایک ادا کو بھول جاتی ہیں۔ فٹ بال میچ ٹی وی پر دیکھنے کے دوران شراب پی کر شرط ہارنے والے مرد کے ہاتھوں بیوی یا گرل فرینڈ کی پٹائی وٹھکائی کو جب ہمارے معاشرے کو گوروں کا سا بنانے کے ایجنڈے پر کام ہوگا تو ان کا حوالہ تو ضرور دیاجائے گا۔

خوش بخت شجاعت کا شوہر کی متعین کردہ حدود پر میڈیا میں کام کرنا بھی تنقید نگار خاتون کو اچھا نہیں لگا۔ کالم میں انھیں ہم نے خوش بخت اس لیے قرار دیا تھا کہ انھوں نے شجاعت کی طے کردہ حدود سے آگے جانا گوارا نہیں کیا۔ محترمہ ان سے اپنی دوستی کی دعوے دار ہیں اور کہتی ہیں ان کی زندگی میں شوہر سے کچھ فرق پڑا؟ کالم میں ذکر تھا کہ فاطمہ ثریا بجیا نے خوش بخت کو کسی ڈرامے کی ہیروئن بننے کی پیشکش کی لیکن وہ جانتی تھیں کہ یہاں ان کے ’’پر جلتے ہیں‘‘ بجیا کی ضد اس حد تک بڑھی کہ وہ شجاعت کو ہیرو لینے کے لیے بھی تیار تھیں لیکن ایک ذمے دار ماں اور فرماں بردار بیوی اپنے وفادار ومحبت کرنے والے شوہر کی پسند و ناپسند کو جانتی تھی۔ اس تابعداری کا صلہ انھیں قومی اسمبلی کی ممبر بن کر ملا۔ ایسی اطاعت شعار بیویوں کے شوہر بعض اوقات بیگم کے کہنے پر دوستوں کی محفلوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ہیئر اسٹائل اور لباس تک بیوی کی پسند کا اختیار کرتے ہیں، وہ معاشرے سے ’’زن مریدی‘‘ کا طعنہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔

محترمہ بینظیر بھٹو کے حوالے سے بات کی روح کو تنقید نگار خاتون سمجھ ہی نہ سکیں۔ کہا گیا تھا کہ ’’بینظیر بھٹو کا سیاست میں بھرپور حصہ لینے سے قبل شادی کے رشتے میں بندھ جانا ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ سر پر دوپٹہ لے کر بے مثال شائستگی اور وقار کے مظاہرے کو تاریخ اچھے لفظوں سے یاد رکھے گی۔ پاکستان کو اپنا گھر سمجھ کر اس گھر کے اطوار کو اپنا کر ایک ذہین، مشہور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون نے اپنی ہم وطن عورتوں کو سبق دیا کہ عورت کو اﷲ تعالیٰ نے بہترین سانچے میں ڈھل جانے کی صلاحیت عطا کی۔ محترمہ انیس ہارون نے تحریر کا مقصد سمجھنے کے بجائے آصف زرداری اور بے نظیر کا موازنہ شروع کردیا، وہ سمجھ ہی نہ سکیں کہ کالم نگار کہہ رہا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں غیر شادی شدہ عورت کا سیاست میں حصہ لینا دشوار ہوتا ہے، وہ یہ بھی نہ سمجھ سکیں کہ سر پر دوپٹہ لینے کی تجویز مسٹر زرداری کی نہ تھی بلکہ معاشرتی اقدار کا لحاظ تھی۔ بینظیر اپریل 86میں پاکستان میں آئیں اور اس سے قبل شاہ نواز بھٹو کی تدفین کے موقع پر دونوں مواقع پر ان کا سر ڈھکا ہوا تھا۔ جب کہ ان کی شادی ان واقعات کے بعد ہوئی ہے۔ ’’شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور‘‘ اقدار کے لحاظ میں ملکہ برطانیہ، لیڈی ڈائنا اور ہیلری کلنٹن مناسب لباس زیب تن کرچکی ہیں جب ان کی ملاقاتیں عرب حکمرانوں سے ہوئی ہیں۔

چھ عقلمند خواتین کی تعریف پر برا مناکر تنقید کرنے والی مسز ہارون کہتی ہیں کہ پاکستان میں کیا صرف یہی نصف درجن بیگمات دانشور قرار پائی ہیں؟ اگر وہ کالم توجہ سے پڑھتیں تو اس حوالے سے انھیں دو باتیں مل جاتیں، کہا گیا تھا کہ ’’چھ مشہور خواتین کی دانشمندی چھ ملین پاکستانی خواتین کے سمجھنے کے لائق ہے۔ شادی شدہ خواتین کے لیے ان کی خوشگوار ازدواجی زندگی میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ کالم میں کہیں نہیں کہا گیا کہ پاکستان میں کوئی ساتویں عقلمند خاتون نہیں۔ یہ ہوتا تو آج ہم زبیدہ خانم کا ذکر نہ کرتے۔ ان خواتین کو پاکستان کی ساٹھ لاکھ شادی شدہ خواتین کا نمایندہ قرار دے کر مشورہ دیاگیاتھا کہ وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خوشگوار ازدواجی زندگی گزاریں۔ جب مشہور، قابل، پڑھی لکھی اور معاشی طورپر خود مختار و خوشحال خواتین افہام و تفہیم سے معاشرے اور شوہر کی طے کردہ مناسب حدود کے مطابق پر سکون زندگی گزارسکتی ہیں تو دیگر خواتین کو بھی ضد اور ہٹ دھرمی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اب پاکستان کے خاندانی نظام کو درہم برہم کرنے کے ارادے رکھنے والی خواتین تنظیموں کو ایسے مشورے کیونکر اچھے لگیں گے۔

زیبا بیگم کے حوالے سے کہی گئی بات پر دلائل ہی نہ تھے اس لیے خاموشی اختیار کی گئی، ہم نے لکھا تھا کہ ’’آزادی اور پابندی کے خوبصورت امتزاج کو سمجھنے میں ان کی کامیابی پوشیدہ ہے۔ علی دوسری ہیروئنز کے ساتھ کام کرتے جب کہ زیبا صرف اپنے شوہر کی فلمی ہیروئن بنتیں۔ ضد اور برابری پر اگر زیبا اڑجاتیں تو بہت کچھ بگڑجاتا‘‘ سوچیے اگر خوش بخت ڈراموں کی ہیروئن بننے کی ضد کرتیں اور زیبا وحید مراد اور ندیم کی ہیروئن بننے پر اڑجاتیں تو کیا ہوتا؟ کیا خوش بخت کا نام قومی اسمبلی کے ایوان میں گونجتا؟ کیا علی زیبا کو ہم کامیاب اور خوبصورت جوڑا قرار دیتے؟ بلقیس ایدھی کی ایک بات کو شوہر سے خواہ مخواہ الجھنے والی بیویوں کو سمجھنی چاہیے۔ ایک خاتون سماجی کارکن کی بات کو گھروں کو برباد کرنے والی خواتین تنظیموں کو پلو سے باندھ لینی چاہیے۔ اگر وہ ہے۔ ’’زمانے کی ٹھوکروں میں رہنے سے بہتر ہے کہ ایک کی ٹھوکر میں رہو‘‘ مسرت نذیر اور لیلیٰ زبیری جیسی خواتین نے شوہر کی طے کردہ حد میں رہ کر سکون پایا تو انھیں کیوں نہ عقلمند قرار دیاجائے۔

چھوٹی بچیوں اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنادیجیے، کس نے منع کیا ہے؟ عورت کی بے حرمتی کرنے والوں کی چمڑی ادھیڑ دیجیے، کس نے روکا ہے؟ لیکن نہیں آپ کو تو مغرب کے ایجنڈے پر عمل کرکے اسلامی سزائوں پر تنقید کرنی ہے۔ گوروں کے کہنے پر موت کی سزا پانے والوں سے ہمدردی کا اظہار کرنا ہے، خواتین کی این جی اوز اپنے تمام تر وسائل اور پروپیگنڈے کے باوجود دلائل کے میدان میں شکست کھاگئی ہیں۔ پڑھی لکھی خواتین اور پوزیشن ہولڈر طالبات کا پردے میں ہونا ان سے برداشت نہیں ہورہا، ان کے پاس نہ گھر کی راحت کا کوئی پروگرام ہے اور نہ معاشرے کے پرسکون رہنے کا کوئی لائحہ عمل، وہ گھر میں میاں بیوی کے درمیان فساد اور گھر سے باہر ہیجان انگیزی چاہتی ہیں اسی لیے جب دانشمندی کی بات کی گئی تو آگئی ہیں عقلمند عورتیں تنقید کی زد میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔