چھلنی بدن چھپا دیا گیا    (آخری حصہ)

زاہدہ حنا  اتوار 24 نومبر 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

انقلاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچے خود کھا جاتا ہے۔ چی ایک انقلابی، ایک مزاحمت کار تھا۔ اس کے نامہ اعمال میں جہاں غریبوں کے لیے سب کچھ کر گزرنے کا عزم تھا، وہیں اس نے ایسے لوگوں کا حساب بھی برابر کیا جو انقلاب دشمن اور عوام دشمن تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لاطینی امریکا کے بعض حلقوں میں نامقبول تھا۔

عالمی شہرت یافتہ ادیب ژاں پال سارتر اور سمیون دی بووا کی کئی تصویریں اس کے ساتھ ہیں۔ وہ امریکی ادیب ارنسٹ ہیمنگوے کا عاشق تھا۔ مئی 1960 میں فیڈل کاسترو اور ہیمنگوے کے ساتھ اس نے مچھلیاں پکڑنے کے مقابلے میں حصہ لیا۔ وہ سراونتس، رابرٹ لوئی اسٹیونسن اور ہسپانوی، خنائی شاعروں کو پڑھتا اور دوسروں کو پڑھاتا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم جس دنیا میں ہیں اس میں قلم اور تلوار کی نوک سے لڑائی لڑی جاتی ہے۔ وہ لاطینی امریکا کے دیہاتیوں کو پڑھا لکھا دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے دشمن بھی اس کی بہادری کے قائل تھے۔

ایک جنگ کے دوران اس کا ایک ساتھی زخمی ہو گیا تو چی نے اس کی پروا نہ کی کہ چاروں طرف سے گولیاں چل رہی ہیں۔ وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں اپنے زخمی ساتھی کو کندھے پر ڈال کر دوڑا کہ اس کی جان بچا سکے۔ اس کا پسٹل اس کی بیلٹ میں لٹک رہا اور زخمی ساتھی کو شانے پر ڈال کر بھاگتا چلا گیا۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جس نے دشمن کے سپاہیوں کو گنگ کر دیا۔ کسی کی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وہ چی پر گولی چلائے۔ ان کی نگاہوں کے سامنے ایک جی دار دشمن تھا جو دوسرے کی جان بچانے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگا رہا تھا۔ اس واقعے کے چشم دید گواہ گارڈ نے کہا کہ وہ ہماری نگاہوں کے سامنے تھا لیکن ہم میں اس بہادر پر گولی چلانے کی ہمت نہ تھی۔

اسے غریبوں سے عشق تھا وہ 1958 کی چھاپہ مار جنگ کے دوران جب پہاڑوں میں چھپا ہوا تھا، اس کی زندگی غریب دیہاتیوں میں گزری اور اس نے ان کا حال زار اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ لیر لیر کپڑوں میں تھے۔ دوا کے نام پر انھیں ایک گولی ڈسپرین میسر نہ تھی اور ان کے بچے پیٹ بھر کھانے اور تعلیم سے محروم تھے۔ ان دیہاتیوں کی حال زار نے اسے مشتعل کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ آخر ان لوگوں کا کیا قصور ہے کہ وہ زندگی کو اس اندوہناک انداز میں گزاریں جب کہ دوسرے بہت سے زندگی کی تمام آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس بنا پر اس کے اندر ایک خاص طرح کی سفاکی پیدا ہو گئی۔ وہ سمجھتا تھا کہ ایسے لوگوں سے حساب لینے میں وہ حق بجانب ہے۔

وہ چھاپہ مار جنگ کا ماہر تھا۔ اس نے اپنی ڈائریوں میں چھاپہ مار جنگ کے نکتے تحریر کیے۔ اسے سفر کا شوق تھا۔ وہ اپنے مارکسی نکتہ نظر کو پھیلانے کے لیے سفر کو لازمی سمجھتا تھا۔ اس نے کیوبا میں انقلاب کو مستحکم اور راسخ کرنے کے لیے فیڈل کاسترو کا ساتھ دیا۔ پھر وہ تین مہینے کے سفر پر نکلا جس میں اس نے چین، ہندوستان، الجزائر، شمالی ویت نام، شمالی کوریا، گھانا، مالی، تنزانیہ، پاکستان اور ہندوستان کا مختصر  دورہ کیا۔ وہ جہاں گیا اس نے مارکسزم کا درس دیا۔

اس کا کہنا تھا کہ سب انسان برابر ہیں اور دھرتی ماں کی عنایات سب کے لیے ہیں، اس لیے تمام آسائشیں، تمام انسانوں کو ملنی چاہئیں۔ کیوبا میں کاسترو کے بعد وہ سب سے طاقتور شخص تھا۔ لوگ اسے کیوبا کی معیشت کا زار کہتے تھے۔ وہ دنیا میں مشہور ہوتا گیا۔ اس حد تک مشہور کہ نوجوان اسے انقلاب کا سرچشمہ سمجھتے تھے اور دنیا کی سڑکوں پر جب بھی حکومت مخالف جلوس نکلتے، اس کی تصویریں نوجوانوں کے سینوں پر ہوتیں اور وہ اس کے پوسٹر اٹھا کر چلتے۔

وہ بولیویا میں انقلاب پھیلانے لگا اور وہیں اس کی زندگی کی شام ہو گئی۔ 8 اکتوبر 1967 کی صبح سی آئی اے کے سہولت کاروں کی مدد سے 1800 فوجیوں نے وہ علاقہ گھیرے میں لے لیا جہاں چی اپنے گوریلوں کے ساتھ لڑ رہا تھا اور بری طرح زخمی تھا۔ بولیویا کے فوجیوں نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ اس کی پنڈلی میں گولی پیوست تھی۔ کپڑے پھٹ چکے تھے، بدن کیچڑ میں لت پت تھا۔ وہ لنگڑاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے چیخ کر کہا۔ ’’مجھے گولی نہ مارنا۔ میں چی ہوں، زندہ ہوں اور تمہارے لیے زیادہ قیمتی ہوں۔‘‘

چی نے اپنے گرفتار کرنے والوں سے تمباکو کی فرمائش کی۔ ان میں سے ایک نے اسے تمباکو کی ایک تھیلی دے دی۔ اس کے افسر نے چی کے منہ سے پائپ چھیننے کی کوشش کی، اس کا خیال تھا کہ وہ چی کے اس پائپ کی نمائش کرکے دنیا کو یہ بتا سکے گا کہ زندگی کے آخری لمحوں میں چی اس کے رحم و کرم پر تھا۔ یہ بات چی کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اس کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے اور وہ نڈھال تھا لیکن اس نے پائپ چھیننے کی کوشش کرنے والے افسر کو لاتیں ماریں اور اسے اپنے قریب نہ آنے دیا۔

اسی طرح کا سلوک اس نے بولیویا کے کئی افسروں کے ساتھ کیا۔ بعد میں سپاہیوں نے بتایا کہ وہ ایک ایسا دلیر دشمن تھا جس کو ہم سب احترام کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ ہماری ہمت نہ تھی کہ اس کے ساتھ کسی طرح کی بدتمیزی کر سکیں۔ ہمارے جس افسر نے ’’پوچھ گچھ‘‘ کے نام پر اس کے ساتھ سختی کی ’’چی‘‘ نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔

سی آئی اے کے افسر اس سے خوفزدہ تھے۔ کوئی اسے فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کرنا چاہتا تھا اور کوئی اسے واشنگٹن لے جانا چاہتا تھا تاکہ دنیا کے سامنے اس کی نمائش کر سکے اور اپنے افسران اعلیٰ سے انعام و اکرام لے سکے۔ تاہم طے یہ پایا کہ اسے گولی مار دی جائے۔ چی نے یہ سنا تو افسروں سے کہا کہ وہ اسے سر میں گولی اس طرح ماریں کہ اس کا چہرہ بگڑنے نہ پائے۔ اس کی یہ خواہش پوری کی گئی اور یوں وہ شیر دل جس کے نام سے لاطینی امریکا کے آمر اور فوجی افسران کانپتے تھے، وہ ابدی نیند سلا دیا گیا۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ لوگوں کو کس طرح یقین دلایا جائے کہ ’’چی‘‘ اس دنیا میں نہیں رہا ہے، سو اسے نہلا دھلا کر پتھر کی ایک سل پر لٹا دیا گیا۔ اس کے دونوں ہاتھ کاٹ لیے گئے تاکہ اس کی انگلیوں کے نشانات محفوظ کرلیے جائیں۔ سی آئی اے اور بولیویا کے فوجی افسران اس بات سے خوش تھے کہ انھوں نے بیسویں صدی کے سب سے نامی گرامی گوریلا لڑاکے کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ اس کی ہلاکت کی خبر دنیا کو پہنچی تو ان لوگوں میں صف ماتم بچھ گئی جن کے لیے وہ سب سے بڑا لڑاکا تھا اور ساری دنیا میں انقلاب کا استعارہ تھا۔ کیوبا میں فیڈل کاسترو نے 3 دن کے سرکاری سوگ کا اعلان کیا، جھنڈا سرنگوں ہوا اور اس کا غم منایا گیا۔ یہ غم امریکا کے ان لوگوں نے بھی منایا جو ویت نام جنگ کے خلاف تھے۔

فیڈل کاسترو نے اس کے بدن کو مانگا تا کہ اسے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے لیکن بولیویا کے فوجی افسروں اور سی آئی اے کے ایجنٹوں نے چی کی باقیات کاسترو کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایک گم نام قبر میں سوتا رہا۔ اس کی شہرت دنیا بھر میں پھیلتی رہی اور آج تک اس کا چہرہ انقلاب کا سمبل ہے۔ اس کی یاد میں آج بھی متعدد شہروں میں شمعیں جلائی جاتی ہیں، اس نے انقلاب کی جو آگ نوجوانوں کے سینوں میں لگائی تھی، وہ آج بھی فروزاں ہے اور اس کی تصویر کو جوان اور بوڑھے سب ہی پہچانتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ ’چی زندہ ہے۔‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔