محمد وسیم کی عالمی فتوحات کا سفر جاری

میاں اصغر سلیمی  اتوار 24 نومبر 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

عامر خان دنیائے باکسنگ کا بڑا نام ہیں، انٹرنیشنل مقابلوں سے جب بھی فرصت ملے تو پاکستان ضرور آتے ہیں،دل وجان سے چاہتے ہیں کہ کھیلوں بالخصوص باکسنگ میں بھی پاکستان کا نام ہو لیکن بار بار کے پاکستان کے دوروں سے ان کو بھی بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ سپورٹس کبھی بھی حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں رہی، عامر خان کے اپنے ایک بیان کے مطابق پاکستان میں کرکٹ کو بہت مقبولیت حاصل اور باکسنگ کا کھیل آج بھی غیر معروف ہے۔

عامر خان کے اس بیان کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو اس بات میں بڑی حد تک صداقت بھی ہے۔ سچ یہی ہے کہ کرکٹ ہی ہمارے حکمرانوں کی آنکھ کا تارا ہے،پاکستانی ٹیم اگر کبھی بھولے بسرے سے کوئی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ یا سیریز جیت لے تو کرکٹرز کے ایسے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہو، قومی ٹیم کے اعزاز میں ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم میں پرتپاک تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں کھلاڑیوں کو پرکشش انعامات سے نوازا جاتا ہے جبکہ دوسری کھیلوں سے وابستہ پلیئرز بڑے سے بڑا کارنامہ بھی انجام دے لیں تو حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی،زیادہ دور جانے کی بات نہیں، باکسنگ کو ہی دیکھ لیں۔

پاکستان اب تک اولمپک مقابلوں میں صرف 10 میڈلز ہی جیت سکا ہے، انفرادی طور پر میڈلز کی تعداد 2ہے۔پاکستان نے 1960 کے روم اولمپکس میں ریسلنگ مقابلوں میں پہلی بار کانسی کا تمغہ حاصل کیا جبکہ دوسرا میڈل سول اولمپکس1988ء میں حسین شاہ کی مرہون منت تھا، حکومت پاکستان نے جب باکسرز کے سروں سے ہاتھ اٹھا لیا تو انٹرنیشنل کامیابیاں بھی ایک، ایک کر کے روٹھتی چلی گئیں۔ تاریخ میں پہلی بار علی محمد، احمد علی عابد علی، نعمان کریم اور اصغرعلی شاہ کوالیفائنگ راؤنڈ میں شکستوں سے دو چار ہو گئے اور پاکستان تاریخ میں پہلی بار اولمپک2008ء میں شرکت سے محروم رہ گیا۔

مایوسیوں اور ناکامیوں کے اس دور میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے باکسر محمد وسیم ایک درخشاں ستارہ بن کر سامنے آئے اورباکسنگ کے عالمی افق پر چھا گئے۔محمد وسیم نے21 نومبر کو ایک بار پھر اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے میکسیکو کے سابق عالمی چیمپئن کو شکست دے کر دنیا بھر میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا ہے، دبئی میں شیڈول پاکستانی اور میکسیکن باکسرز کے درمیان یہ فائٹ آٹھ ویں راونڈ تک جاری رہی جس کے بعد ریفری نے محمد وسیم کو فاتح قرار دے دیا۔ محمد وسیم نے رنگ میں اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی لگایا۔جیت کے بعد وہاں پر پہلے سے موجود عامر خان نے انہیں گلے لگا کر مبارک باد دی۔

ان کا کہنا تھا کہ وسیم ایک فائٹر باکسر ہے جو کبھی ہار نہیں مانتا، مجھے یقین ہے کہ وسیم پاکستان کا پرچم ہمیشہ بلند کرتا رہے گا۔محمد وسیم اس سے قبل ایشیائی گیمز2014 میں برونز، کامن ویلتھ گیمز 2010میں برونز،کامن ویلتھ گیمز 2014میں سلور، بنکاک میں شیڈول کنگز کپ2009 میں برونز، ورلڈ کامبیٹ گیمز2010 میں گولڈ، استنبول احمدجومرت باکسنگ 2010 میں برونز، جنوبی ایشیا گیمز ڈھاکہ2010 میں سلور، پریذیڈنٹ کپ جکارتہ 2011 برونز، شہید بے نظیربھٹو انٹرنیشنل باکسنگ ٹورنامنٹ اسلام آباد 2011 گولڈ میڈل جیت کر ملک وقوم کی نیک نامی میں اضافہ کر چکے ہیں۔

محمد وسیم کی ان بڑی کامیابیوں کے باوجود حکومت کی طرف سے وہ پذیرائی نہیں مل سکی جس کے وہ اصل حقدار ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رواں برس متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی میںشیڈول فلائی ویٹ باٹ باکسنگ چیمپیئن میں محمد وسیم نے 13 ستمبر کو دبئی کے میرینہ باکسنگ ہال میں فلپائنی باکسر کو شکست دے کر چیمپیئن جیتی تھی۔پاکستانی باکسر نے فائنل میں فلپائنی باکسر کونراڈوسور کو محض 82 سیکنڈ میں چت ناک آ?ٹ کرکے اعزاز اپنے نام کیا تھا۔محمد وسیم باکسنگ چیمپیئن شپ جیتنے کے بعد 15 ستمبر کو وطن پہنچے جہاں باکسنگ فیڈریشن کے عہدیداروں سمیت کسی اعلیٰ عہدیدار نے ان کا استقبال نہیں کیا تھا اور انہیں اعزاز جیتنے کے باوجود کرائے کی ٹیکسی پر گھر روانہ ہونا پڑا تھا۔

ملک کا نام روشن کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اپنا استقبال نہ ہونے پر محمد وسیم دلبرداشتہ بھی ہوئے اور انہوں نے ایک شکایتی ٹوئیٹ بھی کیا۔انہوں نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ ’ انہوں نے ایئرپورٹ پر اپنے استقبال کے لیے فائٹ نہیں لڑی بلکہ انہوں نے یہ فائٹ اس لیے لڑی کہ دنیا بھر میں پاکستان کا شاندار استقبال ہو۔ اس سے قبل حکومتی رویئے ہی کی وجہ سے اولمپکس مقابلوں میں پہلی بار کانسی کا تمغہ جیتنے والے حسین شاہ بھی وطن چھوڑ کر جاپان چلے گئے تھے اور گزشتہ تین دہائیوں سے جاپان میں باکسنگ کی کوچنگ کر رہے ہیں۔

پاکستانی باکسر محمد وسیم حکومت کی طرف سے سرپرستی نہ ملنے کی وجہ سے گلہ کرتے نظر آتے ہیں، ان کے مطابق باکسنگ میں وہ حصہ لیتے ہیں جو بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، یہ ایسا کھیل ہے جو انسان کو سڑک سے اٹھا کر ارب پتی بنا دیتا ہے لیکن پاکستان میں ایسے بے شمار باکسرز ہیں جنہیں لوگ جانتے تک نہیں۔محمد وسیم کا کہنا ہے باکسنگ ایک مہنگا کھیل ہے اوران کے بقول پاکستان میں باکسروں کو تر بیت دینے کے لیے جدید جم، کلب اور دیگر ضروری چیزیں نہیں ہیں۔

پاکستان میں عموماً باکسنگ کے بڑے کھلاڑی کھیلنے کے لیے نہیں آتے، میں پہلے امریکہ اور پھر جاپان مزید تربیت اور نئی تکنیک حاصل کرنے جاتا ہوں کیونکہ ان دونوں ممالک میں سابق چمپئین اور ہر سائز وقد کے فائٹر ہوتے ہیں، اْن کے آئیڈیل باکسر محمد علی ہیں ، وہ ماسٹر اور ملینیم فائٹر ہے وہ آل ٹائم علی ہے میں اْن کو پسند اور اْن کو ہی فالو کرتا ہوں میرے لیے وہ سب کچھ ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت محمد وسیم کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا رویہ ترک کرے اوران کے ساتھ وہی رویہ اپنایا جانا چاہیے جس کے وہ حقدار ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔