سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 24 نومبر 2019

اب کتّے بھی ’’مقدس‘‘ ہوا کریں گے۔۔۔؟

خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م

ثمر بھائی بہت غصے میں تھے، کہنے لگے پہلے ہی کیا کم تھا کہ اب نوبت یہ آگئی ہے کہ کہتے ہیں کتوں پر لکھ دیجیے، مگر ذرا ’کتوں‘ کو بچا کے۔۔۔!‘
ہم نے کہا ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں، ہر شریف آدمی کو ’’کتوں‘‘ سے بچ کے ہی رہنا چاہیے۔۔۔

وہ بولے کہ ’میں سچ مچ کے کتوں کی بات کر رہا ہوں۔‘ انہوں نے دنوں ہاتھوں کو پنجے کی شکل دے کر منہ سے کتے کی شبیہہ بنانے کی کوشش کی، پھر بولے:
’’پہلے میں بھی یہی سمجھا تھا کہ شاید ان کے ’کُتے‘ علامتی ہیں۔۔۔ تو میں نے کہا آپ بے فکر ہو جائیں، اپنی جان کسے پیاری نہیں، اس سماج میں برسوں سے قلم کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، ہمیشہ بہت بچ بچا کے لکھا ہے، کبھی کسی ’’کتے‘‘ کو ہم سے شکایت نہیں ہوئی مگر وہ تو یہی گلی والے اصلی کتوں کی بات کر ر ہے تھے!‘‘

ہم نے کہا ’’بھئی ’حقوق‘ کا دور دورہ ہے، جب ’سماجی کتے‘ سرِعام عوام کو کاٹ رہے ہیں، مار رہے ہیں، دھمکا رہے ہیں، گالم گلوچ کر رہے ہیں، قبضے کر رہے ہیں اور پھر ان کی دہشت بھی اتنی ہے کہ ہم ان کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں، تو ظاہر ہے اتنی بدنامی مول لینے کے بعد کیا ’حقیقی کتوں‘ کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے ’انسانی حقوق‘ کا عَلم بلند کریں۔۔۔؟‘‘
’’تم کیا چاہتے ہو کہ ان کے شناختی کارڈ بھی بنوا دیں، پھر ملازمتوں میں ان کا کوٹا رکھیں۔۔۔؟ مجھے تو لگ رہا ہے کہ بہت جلد یہ پارلیمان میں نمائندگی سے لے کر اپنے علاحدہ صوبے کا مطالبہ بھی کر ہی ڈالیں گے۔۔۔!‘‘
ثمر بھائی نے گھورتے ہوئے کہا۔

’’الگ صوبے کی بات نہ کریں، کیوں کہ ملک کے طول وارض میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ’’کتے‘‘ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا ’ملک گیر‘ راج کسی ایک جگہ تک محدود ہو۔‘‘ میں نے ایک آنکھ میچتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے، میں ایک سنجیدہ بات کر رہا ہوں۔‘‘ ثمر بھائی خفا ہوئے، تو میں ان کی طرف ہمہ تن گوش ہوگیا، وہ بولے کہ رواں برس کراچی سمیت سندھ بھر میں کتوں کے کاٹنے سے لاکھوں لوگ متاثر ہو چکے ہیں، بروقت ٹیکے نہ لگنے سے درجن بھر سے زائد اموات بھی ہو چکی ہیں، لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ اس پر بھی ہم کتا مار مہم کی بات کریں، تو ’حیوانی حقوق‘ کے عَلم بردار شور مچاتے ہیں کہ ’کتے نہ مارو!‘ یعنی کتے ہم انسانوں کو مارتا رہے، کوئی پروا نہیں، لیکن اگر ہم اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے کتوں کو ماریں تو یہ غلط۔۔۔!
بھئی، اگر کتوں سے اتنی ہی ہم دردی ہے تو پہلے خود جا کر اِن سے مذاکرات کرلو۔۔۔ انہیں سمجھائو کہ اگر وہ ’جیو اور جینے دو‘ پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں، تو جہاں ہم اتنے سارے ’’کتے‘‘ برداشت کر ہی رہے ہیں، تم بھی رہ لینا۔۔۔ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔۔۔!

یہ ’کتّے پسند‘ صرف حکومت پر لعن طعن کرتے ہیں کہ وہ ’سگ گزید‘ یعنی کتے کے کاٹنے کے ٹیکوں کا بندوبست کرے، یعنی بلاواسطہ وہ کتوں کے بھونکنے سے لے کر کاٹنے تک کے جملہ حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔۔۔ بس یہی دن دیکھنا رہ گیا تھا۔۔۔!‘‘
ہم نے ثمر بھائی کو بے تکان بولتے رہنے دیا، وہ واقعی تپے ہوئے تھے، پھر ہمیں تاکید کرتے ہوئے وہ کہنے لگے:

’’تم ’خانہ پُری‘ میں ضرور یہ لکھ دینا کہ یہ ہمارا جگرا ہی ہے کہ ہم پہلے ہی کتنے ’’کتے‘‘ برداشت کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی ہم ابھی اتنے ’کتے‘ بھی نہیں ہوئے کہ گلی کے ’کتوں‘ کا خوف ناک ہوتا ہوا ’کتا پن‘ بھی چپ کیے سہے جاتے رہیں۔۔۔!‘‘
ہم نے اثبات میں سر ہلایا اور سوچنے لگے کہ ’خبر‘ کی تعریف کے مطابق کتا اگر انسان کو کاٹے تو خبر نہیں ہے، انسان اگر کتے کو کاٹ لے تو خبر ہے‘ لیکن اب تو کتے کا کاٹنا اس قدر بڑھ چکا ہے کہ آئے روز ہی اس طرح کے واقعات خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔۔۔ لیکن حیرت ہے کہ ’کتے‘ (ہر قسم کے) تو باز نہیں آرہے، لیکن حکام شہریوں کے تحفظ کے لیے آخر کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟

۔۔۔

صدلفظی کتھا
حقیقت
رضوان طاہر مبین
’’ہجر پر گریہ کرنا تو سنا تھا۔۔۔
لیکن تم ہجر ختم ہونے پر رو رہے ہو۔۔۔؟‘‘
امر نے ثمر کی ڈبڈباتی پلکوں سے تنگ آکر کہا۔
’’میری کیفیت تم نہیں سمجھ سکتے۔۔۔‘‘
ثمر نے ایک سرد آہ کھینچتے ہوئے کہا۔
’ظاہر ہے، تم سمجھائو گے نہیں، تو کیسے سمجھوں گا۔۔۔!‘
امر تنک کر بولا۔
’میرے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں۔۔۔
اس لیے یہ ملنا، دوبارہ چھن جانے کے لیے ہے۔۔۔!
ثمر ٹھیرا اور پھر بولا:
جیسے زمین پر چت حریف پر غصہ نکالنے کے لیے پہلوان اسے دوبارہ اٹھاتا ہے۔۔۔
لیکن پھر دوبارہ زمین پر دے مارتا ہے۔۔۔!

۔۔۔

اپنے افکار زندہ رکھنے میںاپنا آپ کئی بار مرتا ہے۔۔۔!
سیدہ فاطمۃ الزہرہ، لاہور

کبھی میں سوچتی ہوں کہ کیا واقعی سعادت حسن منٹو کی یہ فکر ٹھیک تھی کہ برہنہ سچ بولو، شراب پیو، مقدموں میں کھڑے رہو اور چیخو کہ میں اْس سماج کو بے لباس کیا کروں، جو پہلے سے ہی ننگی ہے، اِس کو کپڑے پہنانا میرا کام نہیں!‘ منٹو نے یہ کیوں بولا کہ اس کو کپڑے پہنانا میرا کام نہیں؟ کیا وہ بھی میری طرح بڑوں سے سچ بول بول کر، بہتری کی تجاویز دے دے کر تھک گیا؟ کیا یہی فن کار کا کام ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کی حالتِ زار پر مرثیہ نگاری کر کے مر جائے، کیوں کہ نظام تبدیل کرنے سے بہرحال یہ قلم کاری بہت آسان ہے۔۔۔!

مگر پھر سوچتی ہوں، منٹو نے کیوں سمجھا کہ وہ اس ذمہ داری سے بَری ہے؟ اگر کپڑے پہنانا فن کاروں کا کام نہیں تو اور کس کا ہے؟ کیا منٹو نے یہ جذباتی جملہ بولا تھا، جو اِس وقت میری کیفیت ہے یا واقعی وہ ایسے ہی سوچتا تھا۔۔۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ سوچنے والا انسان غلام قوموں میں ایک کرب میں مبتلا ہو تا ہے اور منٹو کا یہ جملہ تکلیف سے نکلا تھا!

تکلیف میں جذباتی بات منہ سے نکل ہی آتی ہے، مگر آج اگر منٹو سے بات کر سکتی تو اُسے کہتی، منٹو! میرے خیال میںکوئی بھی فن کار یا لکھاری اِس ذمہ داری سے دست بردار نہیں ہو سکتا، کیوں کہ مجھے لگتا ہے وہ چور دروازہ ہے۔ کپڑے پہنانا ہمارا ہی کام ہے۔ لکھنے کا تحفہ اسی لیے عطا ہوا ہے کہ تکلیف کو قلم بند کر کے روح کو سکون مل سکے، کیوں کہ ’قوموں کی آزادی کا دارومدار لکھاری کے قلم پر ہے۔‘

اور منٹو! یہ بھی سوچتی ہوں کہ نئی بات سوچنا شاید اتنی بڑی بات نہیں، مگر اپنے تصورات اور خیالات کو مرنے نہ دینا، اپنا آپ کھونے نہ دینا، معاشرہ نیا سوچنے پہ سولی پہ لٹکا دے، پھر بھی نہ بھاگنا، فرار نہیں ڈھوننا اور معاشرے کو کپڑے پہنانے میں اپنا کردار ادا کرنا بہت بڑی بات ہے کہ اس میں اپنا آپ کئی کئی بار مرتا ہے۔

۔۔۔

’دلّی والے‘
ذائقہ نہیں ابھارسکتے تبھی وہ۔۔۔

مرسلہ: تحریم صبا، سعید منزل، کراچی

برصغیر کی مسلم برادری میں لذت کام و دہن میں کباب کا بہت بڑا مقام ہے، کراچی جو صرف ’چھوٹا پاکستان‘ ہی نہیں، بلکہ ’چھوٹا ہندوستان‘ بھی ہے، یہاں ہندوستان کے شہروں سے معروف کبابوں کی ایک دنیا ہے، دلی، میرٹھ اور بہار کے کباب سرِ شام کراچی کی فضا کو اشتہا انگیز خوش بو سے مہکاتے ہیں، مگر اتنے برس ہوگئے کبھی لکھنئو کے کباب نہ کہیں نظر آئے، نہ ان کا تذکرہ سنا، گویا لکھنئو والے کبابوں سے محروم ہیں! لکھنئو والے یہ تو کہتے سنے جاتے ہیں کہ دلی والے ذائقہ نہیں اْبھار سکتے، تو اپنے اس عیب کو تیز مرچوں میں چھپا دیتے ہیں، کھانا ہے تو لکھنئو کی نہاری اور بریانی کھائیے، جس میں مسالوں کی سُوں سُوں نہیں، بلکہ ذائقے کی واہ واہ ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ لکھنؤ والے بھی کباب بناتے ہیں اور بہت خوب بناتے ہیں، ’ٹنڈے کباب‘ دراصل شامی کباب کے قبیل کے ہیں، مگر صاحب ہیں خاصے کی چیز، کراچی میں ملنے والے شامی کباب مناسب طور پر سینکے ہوئے ہوں، تو سرخی مائل ہوتے ہیں اور زیادہ سینکے ہوئے ہوں تو کتھئی یا سیاہ۔ ٹنڈے کباب بھی خوب سینکے ہوئے ہوتے ہیں، مگر کراچی میں ملنے والے کبابوں کے مقابلے میں ان کی نزاکت و لذت کے تو کیا ہی کہنے، ہاتھ لگانے سے رواں رواں بکھر جاتا ہے اور ذائقہ تو اللہ کی رحمت۔ ایک پلیٹ میں چار کباب اور پراٹھا، چار کباب ختم کر دیے، پتا ہی نہ چلا، ساتھ میں نئے زمانے کا سالن تھا، یہ تو خیر چینی پکوان ہے، کچھ چکن شاسلک سے نزدیک تر۔ لکھنؤ والوں نے میٹھے میں زعفرانی کھیر پیش کی، جو واقعی زعفران کا تڑکا لیے ہوئے تھی، لکھنؤ کا جادو لذت کام و دہن میں بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

لکھنئو والے سیخ کباب بھی بناتے ہیں، اِدھر دلی کے سیخ کباب مشہور ہیں تو دوسری طرف سانبھل کے سیخ کباب کی بھی بہت شہرت ہے۔ لکھنئو کے ایک خانساماں کے بقول دلی والے نہاری سے آگے جاتے ہی کب ہیں، ہم نے ان سے کہا میاں دلی کے دھاگے والے کباب تم نے کھائے ہیں؟ کہنے لگے جو کباب کو بکھرنے سے بچانے کے لیے دھاگے باندھتے پھریں، وہ پکانا کیا جانے، ہم نے ان سے کہا آپ پاجامے میں ازار بند نہیں ڈالتے، سنبھالنے کے واسطے تو تڑپ کر بولے احرام میں کب ازار بند ہوتا ہے؟ ہم نے کہا مذہب کو درمیان میں مت گھسیٹیے، یہ بتائیے کہ کیرالہ کی پھولوں والی لنگی خوش نما یا لکھنئو کا چوڑی دار پاجاما؟ تو لاجواب ہوگئے مگر قائل نہ ہوئے۔

ہم نے ان سے کہا بھائی ہم دلی والے نہیں اس لیے ہمیں دلی کے کبابوں سے کیا لینا دینا، ہم تو گجرات کے ہیں اور ڈھوکرے کی سوغات رکھتے ہیں، ڈھوکرے کو کچھ کہا تو جدہ میں نقص امن کا خطرہ پیدا ہو جائے گا، تو ہنس دیے، آداب اور گرم جوش مصافحے کے ساتھ رخصت کیا۔

۔۔۔

محمد علی کی اسکرپٹ لکھنے کی سات لاکھ روپے کی پیش کش کیوں ٹھکرا ئی گئی؟

فیاض اعوان

سلیم احمد سے ملاقات ہوئی تو ادبی اور دینی نوعیت کے سوالات کے بعد میں نے ان سے یہ سوال بھی کیا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ آپ نے اداکار محمد علی کی سات لاکھ کی پیش کش ٹھکرا دی تھی۔
سلیم احمد جو قبل ازیں میرے سوالات کے جوابات مزے مزے سے اپنے مخصوص انداز میں دے رہے تھے گویا ایک کرنٹ سا انہیں لگا۔ کیا تیزی تھی اور کیا طراری تھی مگر اب یکایک ٹھٹھک گئے، ٹھیرگئے۔ وہاں کچھ اور ادیب بھی موجود تھے۔ سلیم احمد کی آواز بلند ہوگئی۔ لہجہ بدل گیا۔ پہلو بدلا اور بولے۔

’’ فیاض اعوان صاحب! میں نے تو آپ سے کچھ نہیں کہا آپ نے ازخود سوال اٹھایا ہے۔ تو میں بتاتا ہوں کہ محمد علی صاحب کی فلم کی کہانی اور اسکرپٹ لکھنے سے میں نے کیوں انکار کیا۔ محمد علی صاحب نے آپ سے جو کچھ فرمایا ہے بالکل درست فرمایا ہے۔ انہوں نے مجھے سات لاکھ کی آفر دی، مگر میں نے انکار کر دیا۔
(اس وقت سات لاکھ کی رقم موجودہ سات کروڑ سے بھی بالا تھی۔ احقر جس صحافتی ادارے میں تھا۔ ماہانہ 600 روپے تنخواہ تھی۔ جو جملہ ساتھی دوستوں سے زیادہ تھی۔ اندازہ کیجیے) محمد علی صاحب نے مجھ پر بہت زور دیا اصرار کیا، بہت دبائو ڈالا۔ مجھے ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچانے کی بات کی، مگر میں نے انکار کر دیا۔ میں نہیں مانا!

انہوں نے کہا ’’اب آپ کا سوال ہوگا کہ میں نے انکار کیوں کر دیا کیا مجھے پیسہ اچھا نہیں لگتا۔ کوئی رغبت نہ تھی۔ تو یہ بات نہیں تھی۔ پیسہ مجھے کل بھی اچھا لگتا تھا آج بھی لگتا ہے۔ پیسہ فیاض اعوان، کسے اچھا نہیں لگتا۔ معاشرے میں کون شخص ہے، جو پیسے کی اہمیت سے واقفیت نہیں رکھتا ہے۔ میں بھی رکھتا ہوں۔ اور آپ نے میرا گھر اور میرے بچوں کی حالت خود ملاحظہ کرلی ہے۔

اب آپ کیا یہ خیال فرمائیں گے کہ مجھے اپنے بچوں سے محبت نہیں ہے، تو یہ بات نہیں ہے۔ جیسے سب ماں باپ اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں اور احساس رکھتے ہیں میرے لیے بھی میرے بچے اسی طرح سے ہیں، جب کہ آپ جانتے ہیں میرے پاس تو محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ کسی سے پوچھ لیجیے، بات یہ ہے کہ میں محمد علی صاحب کی فلم کی کہانی اور اسکرپٹ لکھ سکتا تھا اور ہر کام کر سکتا تھا اور آپ واقف ہیں، میں کیسا لکھتا ہوں۔ میری فلم کی کہانی اور اسکرپٹ کیسا ہوتا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ ہمیں ایک عمر میں اپنی ترجیحات متعین کرنا پڑتی ہیں، چناں چہ میری ترجیحات میں کسی فلم کی کہانی اور اسکرپٹ کی جگہ نہیں نکلتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے اپنا وہ کام کرنا ہے، جو کرنا ہے اور میں کیا کام کرتا ہوں وہ آپ جانتے ہیں۔ آخر میں ایک انسان ہوں۔ ایک وقت میں دو کام نہیں ہو سکتے یا آپ پیسہ کمالیجیے یا آپ کام کرلیجیے۔ اگر آپ واقعتاً سنجیدہ کام یا اسلام اور پاکستان کے حوالے سے کچھ کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو پتّہ مارنا ہوگا۔ میں کیا اور میری ہستی کیا، مگر یہ مجھے کل بھی معلوم ہے۔

تو! بس یہ میرا جرم ہے اور وہ وجہ ہے جس کے سبب میں نے اداکار محمد علی کی خطیر رقم کی وہ پیش کش قبول کرنے سے انکارکر دیا تھا، حالاں کہ پیسہ جس قدر میری ضرورت تھی آج بھی ہے۔ وہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے۔
اس آخری جملے اور الفاظ تک پہنچتے پہنچتے میں نے دیکھا۔ انہوں نے اپنا سر خم کر لیا تھا اور اپنی آنکھیں انتہائی حد تک نیچے کر لی تھیں۔ مبادا کہیں میں ان کی آنکھوں میں چھپی نمی یا آنسو چھلکتے نہ دیکھ لوں۔ جو انہوں نے بعدازاں کمال مہارت کے ساتھ اپنی آستین میں چھپالیے تھے۔ تو ان لمحات میں خود میری آنکھیں بھی برسنے لگیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔